کمی مجھ میں ہے تم میں ہے یا ہم میں ہے
اک یہ سوال وجود کو گرہن لگائے بیٹھا ہے
آج ایک سوال نے دل کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا واقعی ہم پاکستانی ہیں کیا واقعی ہم 1947 والی وہ قوم ہیں جو ایک دل ایک جان تھی۔ جس نے پاکستان اور تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ آج 1947 سے لے کر 2019 کے الوداعی مراحل میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔ اتنے سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا اس کی لسٹ درج ذیل ہے۔
1۔ فرقہ واریت
2۔ نفرت
3۔ نسل پرستی
4۔ مفادات کی جنگ
5۔ کرپشن کا عروج
6۔ سیاسی داؤ پیچ
7۔ اسلام کے نام پر سیاست چمکانا
8۔ وطن کے نام پر جنگ کے لئے اکسانا
9۔ فحاشی کا عام ہو جانا (ٹک ٹاک، پورن ویڈیوز )
10۔ دین کا کاروبار
11۔ ایمانداری اور سچائی کا خاتمہ
اب آتے ہیں پھر سے قوم کی جانب اس قوم میں کیا اب وہ لوگ موجود نہیں؟ دیانتداری، سچائی اور رحمدلی موجود نہیں جو 1947 والی قوم تھی؟
پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ یہ قوم اب کیسے بیدار ہوگی اس میں تعلیم کی کمی ہے میں پھر کہوں گی کہ جب پاکستان آزاد کرانے کے لئے قائداعظم نے قدم بڑھایا تو ان کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں کے مقابلے میں ان پڑھ اکثریت میں تھے وہ تمام ان پڑھ لوگ جذبہ ایمانی، سچائی ایمانداری سے بھرپور تھے۔
اندازے کے مطابق پاکستان کے 25 فی صد عوام آج پڑھے لکھے ہیں جب کے 75 فی صد لوگ ان پڑھ ہیں اور ان پڑھ لوگوں پر یہ چند پڑھے لکھے جابر و ظالم حکمران مسلط ہوگئے ہیں۔ اور ان پڑھ لوگوں کو دین، وطن، سیاست اور عسکریت کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے آج کہی بھی اگر یہ بات پھیلا دی جائے کہ ناموس رسالت کی توہین ہو رہی ہے یا پھر نبی کریم صلی علیہ وسلم کے خلاف گستاخی کی جارہی ہے تو سب سے پہلے دین کے رکھوالے اپنی سیاست چمکانے کے لئے لوگوں میں انتشار پھیلائیں گے اور اس طرح کے بیانات اور فتوی دیں گے کہ یہ ان پڑھ عوام کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے عوام کو بھی اپنے بس میں لے لیں گے۔ اسی طرح اگر وطن پر حملے کی خبر پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی یا سنائی دے تو اس قوم کی محب وطنی اور نبی کریم صلی اللہ وسلم پر جان نثار کرنے والے اتنا بھی نہیں سوچیں گے کہ اس خبر میں آیا کتنی صداقت ہے یہ قوم بغیر تحقیق کے مارنے مٹنے پر تیار ہو جائے گی۔
میرے مطابق اس قوم کا مسئلہ تعلیم نہیں بلکہ یہ قوم جذباتیت سے بھرپور ہے اور ان کو شعور اور آگاہی کی ضرورت ہے کیوں کہ اس قوم کو جو چاہے جب چاہے کٹھ پتلی کی طرح تماشا بنا کر تماشائی جمع کرکے ان کا کھیل دکھانا شروع کر دیتا ہے اگر یہی شعور اور آگاہی % 75 پڑھیں لکھوں سے زیادہ ان پڑھ لوگوں کے پاس پہنچ جائے تو پڑھے لکھوں سے زیادہ یہ جاہل سمجھ جائیں گے کہ ان کے ساتھ 1947 سے لے کر اب تک کیا ہوتا آرہا ہے۔ اگر واقعی عوام جاگنا چاہتے ہیں، تو انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بیدار قومیں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتی ہیں، اپنے حق کے لئے لڑتی ہیں، جانوں کے نذرانے پیش کرتی ہیں غازی بن کر مشکلات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال ترکی ہے جس نے نہ صرف اپنے بنیادی حقوق کے لیے جنگ لڑی بلکہ انصاف امن اور بھائی چارے کے لئے بھرپور کوشش سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کے پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کا موازنہ کرنے کے لیے حالیہ ہم نے ایک سروے کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پاکستاں میں 25 % لوگ پڑھے لکھے ہیں اور 75 % ان پڑھ تو میرے حساب سے تعلیم مسئلہ نہیں کیوں کہ اس قوم کو جب اسلام کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں ان پڑھ لوگ زیادہ ہوتے ہیں جب وطن کہ لئے پکارا جاتا ہے ان پڑھ آگے آگے ہوتے ہیں تو اس قُوم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو جس طرح چاہو استعمال کر سکتے ہو تو آج ہم ایک سروے کرنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ قوم سہی غلط کا فرق جاننا نہیں چاہتی یا پھر اس قوم کے پاس اپنے حق کے لئے لڑنے کا وقت نہیں؟
یا یہ قوم ڈرتی ہے سچ کہنے سے سچ سننے سے؟