مجھے افسوس ہے کہ میں اس زمانے میں زندہ ہوں جب خلیل الرحمن قمر جیسے مرد بھی زمیں کا بوجھ ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اس معاشرے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں مرد کے نام پر خلیل الرحمن قمر جیسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ بہت سی عورتوں نے تمہاری لکھی ہوئی فلم ”میں پنجاب نہیں جاؤں گی دیکھی کیونکہ انہیں تمہارے اندر چھپی غلاظت کا علم نہیں تھا۔
مجھے افسوس ہے کہ میرے ملک کا میڈیا تم جیسے لوگوں کو ایسی قدر و منزلت کی نظروں سے دیکھتا ہے جن کے تم کسی طور مستحق نہیں ہو۔
مجھے سخت ہمدردی ہے ان سب عورتوں سے جنہیں ماں بہن اور بیٹی سمیت کسی بھی رشتے میں تم جیسے گنوار سے واسطہ پڑا۔
یہی کہا ہے نا تم نے کہ پانچ مرد عورت کا گینگ ریپ کر سکتے ہیں مگر پانچ عورتیں مرد کا گینگ ریپ نہیں کر سکتیں سو وہ کس طرح سے برابری کا دعوی کر سکتی ہیں؟
ہمیں شرم آئی، حجاب آیا اور تم سے کراہت محسوس کی۔ واہ کیا شان فضلیت ڈھونڈی ہے تم نے مرد کی! کیا آنکھ میں غرور بھر کے تم نے مرد کی طاقت کی شان بیان کی ہے۔ کیا گردن اکڑا کے تم نے یہ حقارت آمیز لفظ کہے ہیں۔ برتری کا یہ تصور بتاتا ہے کہ تم بیمار بلکہ مجرمانہ ذہن کے مالک ہو۔ تم جرم کو برتری کی دلیل قرار دیتے ہو۔
تمہارے الفاظ ہیں یا زہر بھرے تیر جو ہر کسی کا دل چھید گئے۔ کیا انہی زہر بھرے الفاظ سے کہانیاں لکھتے ہو؟ ایسا شقی القلب ہوتے ہوئے تم اپنے آپ کو رائٹر کہتے ہو؟ لکھنے والے کا دل تو موم سے بنا ہوتا ہے جو کوئی بھی نا انصافی دیکھ کے پگھل جاتا ہے۔ مگر تمہاری انگارے اگلتی زبان تو کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔
اگر پانچ عورتوں کے ایک مرد کو گینگ ریپ کرنے سے عورت برابر یا برتر ثابت ہوتی ہے تو سنو ہمیں ایسا مقام نہیں چاہیے۔ ہمیں ایسا کوئی رتبہ نہیں چاہیے جہاں ہم انسانی جان کی تحقیر کریں۔ جہاں اپنے اندر کے حقیر کیڑے کی تسکین کے لئے کسی دوسرے انسان کے احترام کو روندا جائے۔ جہان انسان کو جسم سے ناپا جائے۔ جہاں ہوس کا درندہ ایک مظلوم پھول کی پتیوں کو نوچ نوچ کے پھنک دے۔ جہاں اپنی بے لگام طاقت کو ایک کمزور پہ آزمایا جائے۔ جہاں طاقت کا نشہ سر پہ چڑھ کے بولے اور کسی کی زندگی مرد کی ٹھوکروں کا نشانہ بنے۔ ایسی بڑائی، ایسی برابری، منوانے کی خواہش سے ہم باز آئے، ایسا بے رحم مقابلہ لڑنے کا ہمیں کوئی شوق نہیں۔ تمہیں تمہاری جہالت مبارک ہو۔
جسے تم مقام سمجھتے ہو وہ قعر مذلت ہے
جسے تم نے غرور جانا ہے، وہ تمہارے اندر چھپی اپنی بے وقعتی کی ٹیس ہے۔
جسے تم بڑائی کہتے ہو، وہ ایک اسفل مقام ہے۔
تمہیں ایک بے مایہ لوتھڑے کے نام پر اپنی برتری مبارک!
ہمارے پاس جو حساس دل ہے، وہ دھڑکتا ہے اور ظلم پہ خون کے آنسو روتا ہے۔ ہماری آنکھ سے جو آنسو ٹپکتا ہے، وہ بھی ان مول ہے۔ تم کئی جنم بھی اور کاٹ لو نا تو وہ دل اور وہ آنکھ نہیں پا سکتے۔ پتھر سے بنے ہوئے شقی القلب کو ہیرے اور موتی کی کیا قدر۔
سو جان لو تم، کہ ہمیں تم سا نہیں بننا!
اور تم یہ بھی سن لو کہ ایک مذموم گناہ اور انسانیت سے گرے ہوئے عمل کو تم فخر سے بیان کرتے ہو۔ کیا تمہاری مردانگی کا یہی معیار ہے کہ گینگ ریپ کرنے والے افضل ٹھہرتے ہیں؟ سنو ہمارے پاس تمہارے جیسی وحشی طاقت نہیں مگر عقل تو ہے۔ تم اپنی اس جسمانی ہیئت کے ساتھ اس اخلاقی جرات سے عاری ہو جس سے ننگے سر بی بی زینب شام کے دربار میں ظلم کو للکارتی ہے۔ تم نے اس ملک میں چار دہائیاں گزار دیں، کوئی ایک دن ایسا جب تم نے بوڑھی فاطمہ جناح کے لہجے میں آمریت کو بے نقاب کیا ہو۔ کوئی ایک لمحہ تمہارے مقدر میں ایسا نہیں جو بے نظیر بھٹو کی اس عظمت کو پہنچ سکے جب وہ ایک شفیق ماں کی صورت اپنے بچوں کی انگلی پکڑے انہیں باپ سے ملوانے جیل لے جاتی تھی۔ کوئی ایک ساعت تمہارے اعمال نامے میں نہیں جب تم نے کلثوم نواز کی طرح تن تنہا سڑک پر آمریت کا مقابلہ کیا ہو۔ تم جیسے ذہنی غلام، روایت کے پجاری پاکستان کی عورت عاصمہ جہانگیر کی عظمت کو سمجھ ہی نہیں سکتے جس کے ایک لفظ سے ہیبت ناک آمر لرزہ براندام ہو جاتے تھے۔ تمہیں کیا معلوم کہ سترہ برس کی ملالہ یوسف زئی کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر نسل انسانی کا غیرمشروط احترام ملتا ہے۔ تمہیں کیا معلوم کہ بندوقوں والی کسی نہتی لڑکی سے کیوں ڈرتے ہیں؟
کیا خیال ہے اگر تمہارے جیسے پانچ دس مردوں کے کھانے میں زہر ملا دیا جائے تو دنیا تھوڑی سی بہتر ہو جائے گی۔ نہیں، تمہیں وقت کی الگنی پر لٹکا دینا چاہیے، تم وقت آنے پر کوئی نشان چھوڑے بغیر غبار ہو جاؤ گے۔ تاریخ انسانی کی محضر ملامت میں بھی تم جیسوں کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ تاریکی کے بلیک ہول سے ضیا کی کرن نہیں گزرتی۔
میں نے سنا ہے تم کہیں ادب پڑھتے پڑھاتے رہے ہو۔ تکبر تو تممہارے لہجے میں ایسا ہے گویا تم ہنرک ابسن کے ہم سر ہو۔ کیا تم نے A Doll ’s House پڑھا؟ اور اگر پڑھا تو کیا سمجھا بھی؟ تمہارے قلم کو اسٹرنبرگ کا ایک مکالمہ نصیب نہیں ہو سکتا۔ تمہاری اسکرپٹ پر گاؤں کے ٹاکی سنیما میں جاہلوں کی آوازے تو بلند ہو سکتے ہیں لیکن تمہیں برگماں اور اسپیل برگ کا ایک شاٹ نہیں مل سکتا کیونکہ تمہیں یہی معلوم نہیں کہ اسفوکلیز سے لے کر شیکسپیئر تک دنیا بھر کے ڈرامائی ادب میں عورت کا کردار ہمیشہ مرد سے مضبوط دکھایا گیا ہے۔
طاقت کے کھیل میں تھوڑی سی عقل بھی شامل کر جائے تو کیا حرج ہے اور اسی کی تم جیسوں کے پاس شدید کمی ہے۔
سنو! عورت نے کبھی مرد جیسا ہونے کی خواہش نہیں کی۔ صرف یہ کہا کہ عقل اور صلاحیت میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ تم اپنی کم سوادی سے یہ ثابت کرنے پر تلے ہو کہ تم مردوں میں بھی اسفل السافلین کے درجے سے تعلق رکھتے ہو۔ کوئی تمہارے برابر کیوں ہونا چاہے گا۔ تم کوشش کرو، شاید تمہیں انسان ہونے کا وہ لمحہ نصیب ہو سکے جو ماں کے پیٹ سے خاص اعضا لے کر برامد ہونے سے نہیں، کردار سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تم نے کہا کہ سچی اور اصلی عورت وہ ہے جس میں حیا اور وفا ہو۔ عورت وہ جو اپنی مٹھی نہ کھولے۔ حیا اور وفا کی بحث تمہارے اخروٹ جتنے دماغ میں بس اتنا بھیجا ہے کہ تم حیا کو لباس میں محدود سمجھتے ہو اور وفا کا تصور تم نے غلاموں کی کسی منڈی سے لیا ہے۔ تمہیں فلم اور ڈرامہ لکھنے کی بجائے کسی ایسی جگہ روزگار ڈھونڈنا چاہیے جہاں دماغ کی بجائے جسم سے روٹی کمائی جا سکے۔
تمہارا مرد کی حیا اور وفا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تم ان مردوں میں سے ہو جو عورت کو کھونٹے سے باندھ کے خود کو تمام بے وفائیوں اور بے حیائیوں کے لئے آزاد سمجھتے ہیں۔ تمہیں بہت فخر ہے نا باہر سے روزی روٹی کما کے لانے کا، کبھی سوچا کہ عورت سارا دن کتنی کھٹنائیوں سے گزرتی ہے۔ کس طرح سارا دن ایک بازی گر کی طرح تنے ہوئے رسے پہ چلتی ہے۔ اور اس کے بعد اس کے دامن میں تم جیسا مرد آ گرتا ہے جس کے پاس اپنے شاؤنزم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جسے عورت صرف حیا اور وفا کے ساتھ شام کو بند زبان کے ساتھ کھونٹے سے بندھی ملنی چاہیے۔ جس کے پاس مرد کی تھکاوٹوں اور بے چینیوں کے لئے دامن وا ہو اور اس کا دل کیسے دھڑکتا ہے، یہ جاننا مرد کا کام نہ ہو کہ اس کی ہوس کے کئی اور ٹھکانے ہوں۔
دوسری عورت کیوں زندگی میں آ جاتی ہے یہی کہا نا تم نے۔ کیوں پھر ایک اور مرد کی جھوٹی دام الفت میں پھنس جاتی ہے۔ جب تم جیسے شکاری ہر طرف پھندا لے کر گھوم رہے ہوں، جب عورت کے دامن میں میں اپنے گھر سے نارسائیوں کی آگ ہو، تو تم جیسے مرد جال بچھایا ہی کرتے ہیں اپنی خود ساختہ مظلومیت کی کہانیاں سنا سنا کر۔
اور عورت کے جذبات اور احساسات کی بات کیوں نہ کی جائے؟ پروردگار نے آدم و حوا کا جوڑا بنا کے بتا دیا کہ یہ ہے کائنات کا پہلا اور مضبوط ترین اور چاہا جانے والا رشتہ، مرد اور عورت۔ سو اگر ضرورت ہے تو دونوں طرف، جذبات ہیں تو دونوں طرف، احساسات ہیں تو دونوں طرف۔ حیا، وفا، اور شرم کے خود ساختہ غلاف جو کچھ بھی تم عورت کے سر منڈھ رہے ہو، اس کی ضررورت دونوں طرف ہے۔ مرد و عورت ایک ایسی تخلیق ہے پروردگار کی جس میں نہ کوئی افضل ہے اور نہ کوئی کمتر۔ اجزائے ترکیبی ایک ہی ہیں دونوں کے۔
تم نے برصغیر کا نام لیا نا! مان لیا تم واقعی برصغیر سے تعلق رکھتے ہو، عورت کو پاؤں کی جوتی اور بھیڑ بکری سمجھ کے برتنے والے، عورت کو شرم و حیا کے کفن میں لپیٹنے والے، عورت کو گھر کے اندر قید کر کے باہر داد عیش دینے والے۔ پھر بھی وفا کے تقاضے؟
تم عورت کی عزت نفس کو ٹھوکریں مار کے اپنے آپ کو رائٹر سمجھتے ہو۔ اپنے جیسے کچھ مردوں کا حال سن کے اسے مظلوم گردانتے ہو۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ تمہیں ایک چابی سے چلنے والی گونگی گڑیا چاہیے جس کو تم اپنی ہوس کے لئے تو استعمال کرو مگر وہ کیا چاہتی ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں۔
تم ایک تعفن زدہ معاشرے کی پیداوار ہو اور تمہارے لب ولہجے میں وہی مرد بولتا ہے جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق قرار دیتا ہے۔ تم نے شادی شدہ مرد وعورت کی بے وفائی کی بات کی ہے تو لکھو نا کہ جب دونوں ایک دوسرے کو برداشت نہ کر سکیں، جب ایک دوسرے سے گھن آنے لگے تو سچ کو درمیان میں لائیں اور آزاد کر دیں ایک دوسرے کو۔ کیوں تمہارا اصرار ہے کہ عورت نفرت کی صلیب میں مصلوب ہو اور پھر بھی تمہارے معیار کے مطابق وفائیں بکھیرتی پھرے۔ کیوں جھوٹے رشتوں سے آزاد نہ ہو۔ بہتر ہو گا کہ تم دوسروں کو اپنی انا کی ٹکٹکی سے آزاد کرنا سیکھو تاکہ خود بھی اپنے بھیتر کے عذاب سے آزادی پا سکو۔
اور سنو، عورت کی برابری کرنا چاہو گے تم؟ عورت کے پاؤں تلے جنت خریدنا چاہو گے تم؟ چلو ذرا حاملہ عورت کی طرح نو مہینے ہی گزار کے دکھا دو۔ اصلی حمل اٹھانا تو تمہارے بس کی بات نہیں، ذرا پیٹ پہ بارہ کلو وزن باندھ لو اور نو مہینے کام کاج کر کے دکھاؤ، جس میں تم جیسوں کے چونچلے بھی اٹھائے جائیں۔ اور نارمل نہ سہی، پیٹ کاٹ کے سیزیرین ڈلیوری کا درد کا تو تمہیں تجربہ کروایا جا ہی سکتا ہے۔
ذرا تم بھی تو جانو کہ گینگ ریپ کرکے عورت نے تمہارے مقام تک آنا ہے یا تم نے ماں بننے کی تھوڑی سی ریہرسل کرکے اس مقام کا اندازہ لگانا ہے۔ اور اس ساری اذیت کے بعد اگر کوئی تم جیسا گود میں آ ٹھہرے تو ماں کی گود انگاروں سے بھر جایا کرتی ہے۔
چلو اگر نو مہینے کا وزن نہیں اٹھا سکتے تو ایک مہینے اپنی ٹانگوں میں صبح شام ایک پیڈ ہی باندھ لو اور اسی کے ساتھ اپنی تمام مصنوعی کہانیاں لکھو۔ تجربہ تو کرو کہ عورت کن کن مراحل سے گزرتی ہے اور پھر تم جیسوں کے زہر بھرے الفاظ سن کے زخمی ہوتی ہے۔
بگڑے ہوئے جنسی معاملات برتری یا کمتری کا معیار نہیں لیکن شاید افضل نامی لفظ تمہارے غلیظ خیالات میں اس قدر گھس گیا ہے کہ تم ہر جذبہ، ہر رشتہ اور ہر انسان کو اس پہ تولنے کھڑے ہو جاتے ہو۔
تم اسی ملک پاکستان کے رہنے والے ہو نا؟ سنو، اس ملک میں کوئی کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ باقی سب کی طرح تمہارے بچپن کی ناکامیوں سے لے کر جوانی کی خرمستیوں کی تک سب داستانیں زبان خلق پر ہیں۔ لیکن انہیں دہرا کے اپنی تحریر کو آلودہ نہیں کرنا چاہتی اور یہ بھی نہیں چاہتی کہ ان نیک عورتوں کے نام پر کوئی حرف آئے جنہیں کسی بھی رشتے میں تم جیسے نابکار سے واسطہ پڑا۔ عورت کی عظمت اسی میں ہے کہ اس کا نام تم جیسے ناکردہ کار نمونوں سے منسوب نہ ہو۔
عورتوں کے خلاف تمہاری غلیظ گفتگو کے بعد کسی عورت کو تمہارا لکھا ہوا نہ کوئی ڈرامہ دیکھنا چاہیے اور نہ تم سے کوئی انٹرویو کرنا چاہیے۔ صرف عورتیں ہی نہیں تمام صاحب عقل عورتوں اور مردوں کو تمہارا سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تم اسی قابل ہو کہ تمہیں اپنی مردانگی کی بے معنویت میں تنہا چھوڑ دیا جائے جہاں تم جھنجھلاہٹ کی خود کلامی میں فنا کے گھاٹ اترنے کا انتظار کرو۔ جہاں تم گینگ ریپ کے صحرا اور خلاف وضع فطری کے جزیرے میں ایسے مکالمے لکھو جو نفسیات کے کسی طالب علم کے کام آ سکیں گے۔ بے شک تم لاعلاج ہو لیکن طبی تحقیق میں تم جیسوں سے بھی کچھ کام لیا جا سکتا ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔