کلّو، کلوا، کالیا، کلموہی!
اگر آپ کا رنگ سانولا، گندمی یا کالا ہے اور آپ نے اپنی تمام عمر پاکستان یا انڈیا میں گزاری ہے تو غالب امکان ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں، کسی نہ کسی موقع پر آپ کو یہ نام ضرور سننے کو ملے ہوں گے۔
شہر شہر سڑکوں پر لگے رنگ گورا کرنے والے صابن کے قد آدم پوسٹر ہوں، گاؤں دیہات کے میڈیکل سٹورز پر بکنے والی فیئرنس کریمیں یا گلی محلوں میں کُھلے بیوٹی پارلروں میں کیے جانے والے بیوٹی ٹریٹمنٹس، یوں لگتا ہے کہ گندمی رنگت کی آبادی والے اس ملک میں سب ہی اپنا رنگ گورا کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔
تو کیا گورا ہونا کوئی بہت بڑا اعزاز ہے جو کالوں کو میسر نہیں؟
اس کا جواب پاکستانی فیشن ماڈل اور اداکارہ آمنہ الیاس نے سنہ 2015 میں دیا۔
ہاتھ میں بہترین فیمیل ماڈل کا لکس سٹائل ایوارڈ تھامے آمنہ نے ہزاروں کے مجمعے کے سامنے وہ سب کہہ دیا جو کہنے کی ہمت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
‘مجھے کہا گیا کہ آئے ہائے یہ تو کالی ہے۔ تو وہ تمام لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ میں صرف اس لیے بدصورت ہوں کیونکہ میرا رنگ سانولا ہے، یہ ایوارڈ ان سب باتوں کا جواب ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
آج چار سال بعد اس شام کو یاد کرتے ہوئے آمنہ بتاتی ہیں کہ وہ تقریر کوئی پبلسٹی سٹنٹ نہیں تھا بلکہ جو بات ایک عرصے سے ان کے دل میں تھی وہ ہی انھوں نے سٹیج پر کہہ دی۔
‘اس تقریب میں میں نے صرف اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے۔ اس کے بعد جہاں بہت سے لوگوں نے مجھے سراہا وہیں کئی نے مخالفت بھی کی جس کا مجھے مالی اور پیشہ وارانہ نقصان بھی ہوا۔’
بیسن میں لیموں
برصغیر کے پدر سری معاشرے میں صدیوں سے رائج منفی معاشرتی اقدار گورے رنگ کو ترجیح دیتے آ رہے ہیں۔ نسل در نسل پروان چڑھنے والے یہ نظریات آج کے جدید دور میں اب میڈیا کے ذریعے ترویج پا رہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں اور اشتہارات کے ذریعے ایک ایسی کامیاب عورت کی تصویر کشی کی جاتی ہے جو رنگت اور جسمانی اعتبار سے بے عیب ہوتی ہے۔
ماہر نفسیات رابعہ سعید اختر بتاتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ کچھ گھرانوں میں جیسے ہی عورت امید سے ہوتی ہے بڑی بوڑھیاں فرسودہ توہمات میں پڑ جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر حاملہ ماں کو دہی کھلایا جائے تو بچہ گورا پیدا ہو گا یا اگر کمرے میں کسی خوبصورت بچے کی تصویر لگا دی جائے تو ہونے والا بچہ بھی خوبصورت پیدا ہو گا۔
‘ہمارا معاشرہ سانولے رنگ سے اس قدر خائف ہے کہ بہت سی لڑکیوں کے رشتے صرف ان کی گندمی رنگت کی وجہ سے مسترد ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر لڑکی کالی ہو گی تو آنے والی نسلیں بھی کالی پیدا ہوں گی۔’
‘سانولی رنگت کی لڑکی کو رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں کی طرف سے ٹوٹکے بھی بتائے جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کمیٹیاں ڈال کر اپنی بیٹیوں کو گورے ہونے کے مہنگے ٹیکے لگوا رہے ہیں جن کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہیں۔’
کراچی جیسے شہر کے تعلیم یافتہ گھرانے میں پلی بڑھی آمنہ الیاس کو ایسی مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا لیکن طنزیہ جملے انھیں بھی سننے کو ملے۔
‘اکثر خالائیں، کزنز یا چاچیاں اور مامیاں جب کبھی گھر آتی تھیں تو ہلکا سا تبصرہ کر دیا کرتی تھیں کہ سکول جاتی ہے نہ اسی لیے لڑکی سانولی ہو گئی ہے۔ ایک خالہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ بیسن میں لیموں ڈال کر جلد پر لگایا کرو گی تو رنگت نکھرے گی۔’
‘میں بچی تھی اس لیے سمجھ نہیں پاتی تھی۔ حالانکہ رنگت کی بنا پر امتیاز ایک ایسا احساس ہے جو اکثر گھر کی عورتیں ہی پروان چڑھاتی ہیں۔ مثلاً بیٹا جیسا بھی ہو ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ بہو انھیں گوری چٹی ہی ملے۔’
پیدائش کا حادثہ
کسی بھی خطے میں بسنے والے افراد کی جلد کی رنگت کا تعلق اس علاقے کی جغرافیائی ساخت، آب و ہوا اور موسم پر منحصر ہے۔ ماہرین کے مطابق بلندی پر واقع ٹھنڈے علاقوں میں رہائش پذیر افراد کا رنگ سرخ جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا رنگ گہرا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خط استوا کے نزدیکی علاقوں میں دھوپ کی شدت کی وجہ سے بھی اکثر لوگ سانولی رنگت والے ہوتے ہیں۔
سماجی کارکن ملیحہ حسین بتاتی ہیں کہ قدیم زمانے میں برصغیر کے باہر سے آنے والے مقامی افراد کے مقابلے میں گوری رنگت رکھتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے جلد کے رنگ کو ہتھیار بنایا۔
‘اس طرح تشکیل پانے والے سماجی نظام میں گہرے رنگ والے کمتر جبکہ ہلکے رنگ والے اعلیٰ قرار پائے۔ جب انگریز یہاں آئے تو انھوں نے بھی اس نظریے کو تقویت دی۔ اب سفید رنگ حاکمیت اور کالا رنگ محکومیت کی پہچان بنا۔ رفتہ رفتہ یہ نظریہ عوام کے ذہنوں میں سرایت کر گیا اور اب بحیثیت معاشرہ یہ ہماری اجتماعی سوچ کا حصہ بن چکا ہے۔’
ملیحہ حسین کا خیال ہے کہ رنگت کا انسانی زندگی کے کسی پہلو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کوئی شخص کہاں پیدا ہوا اور اس کے آباؤ اجداد کا تعلق کہاں سے ہے۔؟
گورا کریں!
آمنہ الیاس کو حقیقی معنوں میں اپنی سانولی رنگت کا احساس اس وقت ہوا جب انھوں نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا۔ کلائنٹس کی ایک ہی تکرار کہ آمنہ کو گورا کریں انھیں آج بھی یاد ہے۔
‘فیشن میگزین کے فوٹو شوٹس کے لیے ماڈل کے غیر روایتی اور منفرد خدوخال اور نین نقش زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بطور فیشن ماڈل میں اپنا نام بنا پائی تھی۔’
‘لیکن جہاں کمرشل کام کی بات آتی تھی جیسا کہ کسی لان کی تشہیری مہم تو پھر میک اپ آرٹسٹ مجھے ٹو ٹون لائٹ کرتے تھے۔ یعنی میری اصل رنگت کے بجائے دو درجے ہلکے رنگ کی فاؤنڈیشن لگائی جاتی تھی۔ اس کے بعد فوٹو شاپ پر ان تصاویر کو مزید نکھارا جاتا تھا۔ کبھی جب میں اپنی تصویریں دیکھتی تھی تو خود کو پہچان نہیں پاتی تھی۔’
‘ان فیئر اینڈ لولی’
رنگت کی بنیاد پر امتیاز برتنے والے معاشرے میں رنگ گورا کرنے والی کریموں کی صنعت اربوں روپے کی انڈسٹری بن جائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہ کمپنیاں مہنگی اشتہاری مہم کے ذریعے اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں اور اس تاثر کی ترویج کرتی ہیں کہ گورا رنگ کامیابی کی ضمانت ہے۔
ماہرِ نفسیات رابعہ سعید اختر ان اشتہارات کے اخلاقی پہلو کی جانب نشاندہی کرتی ہیں۔
‘یہ مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ سانولے رنگ کو گورا بنا دیں گی تو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کریمیں کسی شخص کے رنگ کو نکھار سکتی ہیں وہ بھی بے انتہا سائیڈ افیکٹس کے بعد۔’
سماجی کارکن ملیحہ حسین کے مطابق کمپنیاں اور کاروباری افراد صارف کی طلب کو مدِنظر رکھ کر مصنوعات تیار کرتے ہیں۔
‘جب لڑکیاں یا لڑکے ٹی وی اشتہارات میں دیکھتے ہیں کہ مشہور اداکارائیں اور ماڈلز رنگ گورا کرنے کے لیے کریمیں اور صابن استعمال کر رہے ہیں تو وہ بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان ستاروں جیسا بن سکیں۔ لہذا شوبز سے وابستہ شخصیات کو معاشرتی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی مصنوعات کی اشتہاری مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔’
آمنہ الیاس کو کئی سال پہلے ایسے ہی ایک ٹی وی کمرشل کا حصہ بننے پر آج بھی پچھتاوا ہے۔
‘وہ میرے کریئر کا آغاز تھا اور مجھے بہت سی چیزوں کا علم نہیں تھا۔ جب میں وہ کمرشل شوٹ کرا رہی تھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو میں ہوں ہی نہیں۔ میک اپ آرٹسٹ میرے جسم کے ہر حصے پر فاؤنڈیشن لگا کر مجھے گورا بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔’
آمنہ بتاتی ہیں کہ اس دن کے بعد سے وہ اپنے رنگ روپ کے بارے میں بہت حساس ہو گئی تھیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اپنا جسم چھپانے لگیں۔
‘میں نے کریمیں اور بیوٹی سیلونز کی رنگ گورا کرنے والی سروسز استعمال کرنا شروع کر دیں لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ٹھیک یہ ہے کہ انسان کی جلد صحت مند ہو اور اسے کسی قسم کی بیماری نہ ہو۔’
آمنہ بتاتی ہیں کہ فیئرنس کریم کا وہ اشتہار ریکارڈ کراتے وقت انھیں اندازہ ہوا کہ یہ سب ایک دھوکہ ہے۔ اس وقت انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ کسی ایسے اشتہار کا حصہ نہیں بنیں گی جس کے ذریعے ایک جھوٹ کو بیچا جائے۔
ماضی میں بھی کئی پاکستانی اور انڈین اداکاروں اور اداکاراؤں کو رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی تشہیری مہم کا حصہ بننے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاہ رخ خان، دیپکا پاڈوکون، جان ابراہم سونم کپور، شاہد کپور اور سجل علی پر فیئرنس کریم کے اشتہارات کرنے پر سوشل میڈیا میں نکتہ چینی کی گئی۔
اس کے برعکس رنبیر کپور، انوشکا شرما، کنگنا راناوت، ابھے دیول اور کئی دوسرے فلمی ستاروں کو ایسے ہی کمرشلز کی پیشکشیں ٹھکرانے پر سراہا گیا۔
زہریلی کریمیں
پاکستان سمیت دنیا بھر میں رنگ گورا کرنے والی کریموں پر ان کے مضرِ صحت سائیڈ افیکٹس کی وجہ سے بھی تنقید کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اکثر کریموں میں انسانی استعمال کے لیے موزوں حد سے کہیں زیادہ کیمیکل ‘مرکری’ استعمال کیا جاتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
رواں سال جولائی میں حکومتِ پاکستان نے مضرِ صحت فیئرنس کریموں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ جن لوکل اور انٹرنیشنل کمپنیوں کی کریموں کو ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیجا گیا ان میں سے صرف تین ہی مقررہ معیار پر پوری اتریں۔
‘کالا ہے پر پیارا ہے’
دنیا بھر میں جلد کی رنگت کی بنا پر امتیاز کے خلاف اب آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ سنہ 2009 میں انڈیا میں ‘ڈارک از بیوٹی فل’ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد پڑی جس کا مقصد انڈین معاشرے میں رنگ کی تفریق کو ختم کرنا تھا۔ نامور انڈین اداکارہ نندیتا داس، جو خود بھی سانولی ہیں، اس مہم کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں بھی سنہ 2013 میں ‘ڈارک از ڈیوائن’ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد معاشرے میں خوبصورتی کے روایتی معیار کو تبدیل کرنا تھا۔
گوری اداکارائیں
پاکستان کے ٹی وی ڈراموں میں خواتین کرداروں کی منفی عکاسی پر اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ناقدین کے خیال میں ان ڈراموں میں ایک ایسی خوبصورت لڑکی کا تخیلاتی کردار تخلیق کیا جاتا ہے جو حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے۔ بڑی بڑی آنکھیں، گھٹنوں تک لمبے سیاہ بال اور گورا رنگ ٹی وی ڈراموں کے اکثر مرکزی کرداروں کی جان ہے۔
آمنہ الیاس کے بقول یہی وجہ ہے کہ ٹی وی کی صفِ اول کی اداکارائیں یا تو گوری ہیں اور اگر نہیں بھی ہیں تو اس دوڑ میں آنے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو شدید گورا کر لیا ہے۔
‘جب میں سیریلز کر رہی تھی تو اکثر ہدایت کاروں کو سنا کرتی تھی کہ آمنہ کی رنگت فریم میں موجود دوسرے اداکاروں سے نہیں مل رہی۔ مجھے یہ بات سن کر بہت عجیب لگتا تھا کہ دو مختلف لوگوں کی رنگت ایک کیسے ہو سکتی ہے۔ پھر اضافی لائٹس لگائی جاتی تھیں اور ایڈیٹنگ میں بھی رنگت نکھاری جاتی تھی۔’
ماہرِ نفسیات رابعہ سعید اختر کے خیال میں ٹی وی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز اس رویے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ڈرامہ رائٹرز سے ایسے کردار لکھوائے جائیں جو متنوع ہوں اور انھیں نبھانے کے لیے حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے اداکار کاسٹ کیے جائیں۔
‘ان کرداروں کی رنگت اور خدوخال ایسے ہونے چاہیں جن سے عام لوگ اپنے آپ کو وابستہ کر سکیں۔ اس طرح ایک ایسا معاشرتی رویہ پروان چڑھانے میں مدد ملے گی جس میں کوئی بھی شخص اپنے رنگ و روپ سے بالاتر صرف اور صرف اپنی صلاحیت کی وجہ سے جانا جائے گا۔’
گورے پن کے ٹیکے
آمنہ الیاس کے مطابق کسی شخص کے رنگ کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ الفاظ اس کی شخصیت پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ رویہ کتنی دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے۔
‘مثلاً ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس نے ذکر کیا کہ وہ ایک فلم بنا رہا ہے اور اس میں مجھے ایک رول دینا چاہتا تھا۔ اس نے انتہائی سرسری انداز میں بتایا کہ اس کردار کے لیے مجھے گورے ہونے کے ٹیکے لگوانے پڑیں گے۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ زیادہ بہتر ہے کہ تم اپنی فلم میں کسی گوری لڑکی کو ہی کاسٹ کر لو۔’
لیکن کچھ ہدایت کار اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بے شمار نئے فلمساز ہر قسم کی رنگت اور جسمانی ساخت کے اداکاروں کو مواقع دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آمنہ نامور ہدایت کار ثاقب ملک کی مثال دیتی ہیں۔
‘ثاقب نے اپنی فلم باجی میں مجھے اداکار عثمان خالد بٹ کے ساتھ کاسٹ کیا جو سرخ و سفید رنگت کے ہیں۔ پوری فلم میں مجھے میری اصل رنگت کے ساتھ عکس بند کیا گیا اور ایڈیٹنگ میں بھی کوئی فلٹر نہیں لگایا گیا۔‘
ثاقب کا کہنا تھا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا کیونکہ اس طرح میری سانولی اور عثمان کی سرخ رنگت کا ایک حسین مقابلہ بن رہا تھا۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ فلم میں لڑکا گورا اور لڑکی سانولی بھی ہو سکتی ہے اور ایسا دکھانے میں کوئی حرج نہیں۔’
نفسیاتی مسائل
رنگت یا جسمانی خدوخال کی وجہ سے امتیاز نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔ ماہرِ نفسیات رابعہ سعید اختر کے مطابق جس بچے کو بچپن ہی سے اپنی رنگت کی وجہ سے طعنے سننے کو ملتے ہیں اس کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے اور وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
‘جب والدین بھی بچے میں احساسِ محرومی پروان چڑھائیں گے تو اس کی شخصیت مزید متاثر ہو گی۔ ایسے بچے بڑے ہونے پر زندگی کے کسی شعبے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔’
اس صورت حال میں رابعہ سعید اختر ماہرینِ نفسیات کی مدد لینے کا مشورہ دیتی ہیں۔
‘اگر کسی بچے یا بالغ شخص کو اس کی رنگت یا کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا ہے تو ضروری ہے کہ وہ ماہرِ نفسیات کے پاس جائے۔ سکولوں میں کونسلنگ سیشنز بھی اس موضوع پر آگہی کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں۔’
تبدیلی گھر سے
ماہرین کے مطابق معاشرے میں رنگت کی بنا پر امتیاز کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی کارکن ملیحہ حسین کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی اتنی ہی اس معاشرتی برائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
‘والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ ایک سانولی یا کالی رنگت کی لڑکی یا لڑکا بھی اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ والدین اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ ان کی شخصیت پر اعتماد ہو اور چہرے کی رنگت ان کے لیے بے معنی ہو جائے۔
ماؤں اور گھر کی عورتوں کو بھی چاہیے کہ صرف اچھے رشتوں کے لیے اپنی بیٹیوں کی رنگت گوری کرنے کے چکر میں نہ پڑیں۔’
ادھر آمنہ الیاس بھی یہی سمجھتی ہیں کہ نئی نسل کی بجائے پچھلی نسل کے لوگوں میں رنگ کی بنا پر امتیاز کے بارے میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ آج کل کے نوجوان عموماً ان تعصبات کا شکار نہیں ہوتے۔
‘میری زندگی میں بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جب میں یہ سوچنے لگی تھی کہ میں بدصورت ہوں۔ اب میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی اور یہی چاہتی ہوں کہ میری جیسی رنگت کی دوسری لڑکیاں اپنے آپ کو بالکل بدصورت نہ سمجھیں۔