رابی پیرزادہ اور ذوق جمالیات


حیف ہے اس قوم پر جس کا ذوق جمالیات ہی بگڑ جائے اور اسے اس زیاں کا احساس بھی نہ ہو۔جب سے ہم نے خوب صورتی کو سیرت اور کردار سے ہٹ کر فقط جسم کی سطح پہ دیکھنا شروع کیا ہے عجیب عجیب واقعات سے واسطہ ہے۔ کبھی “میرا” فخر سے اپنے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی نظر آ تی ہے تو کبھی “وینا ملک” دھڑلے سے کہتی ہے کہ یہ میرا خوب صورت جسم ہے اور اس کی نمائش میرا حق ہے۔ داد ہے میرے حق پرست ہم وطنوں کو کہ جنہوں نے اس کے حسین بدن کے صدقے اس کی بد زبانی کو نظر انداز کیا۔
کسی عورت کے پاس اگر علم نہیں، عقل نہیں، شعور اور کردار نہیں تو کیا ہوا؟
معمولی چیزیں ہیں۔ پرانی باتیں ہیں۔ لعنت بھیجیے صاحب! کون دیکھتا ہے۔
فگر ایک دم ٹائٹ ہونا چاہیے لڑکی کا۔ ایسا آبنوسی کہ آپ چٹکی نہ کاٹ سکو۔ اور اتنا تراشیدہ کہ “وینس” اپنا آ دھا برہنہ دھڑ شرمندگی سے ڈھانپ لے۔ اور اب ایسا جسم بنا لینا کون سا مشکل کام رہ گیا ہے۔ سب پیسے کا کھیل ہے۔ آپ کے پاس پیسہ ہے کہیں سے بھی پتلے ہوجائیے اور کہیں سے بھی وزنی۔
کچھ عرصہ پہلے “صوفیہ احمد” ڈرامہ ایکٹرس کی ویڈیو لیک ہوئی تھی۔ کسی چاہنے والے پہ اندھا اعتماد کرکے صوفیہ نے بھیجی تھی۔ لیکن چاہنے والے نے لیک کردی۔ ذرا سوچیے ایک ماڈل اور ایکٹرس کو جو شخص افورڈ کر سکتا ہے وہ کس طبقے سے ہوگا۔ اب اس طبقے کی اخلاقیات کا سوال ہے۔ مگر اٹھائے گا کون؟
ارے چھوڑیے بھئی۔ کیا اخلاقیات کا درس لے کے بیٹھ گئی ہو۔ ان عورتوں کا کوئی کردار ہوتا ہے کیا؟ تھوڑی ہی ان کی عزت ہوتی ہے۔
آ ج ایک دوست سے بحث ہو گئی۔
میں نے کہا۔ رابی پیرزادہ اس واقعے سے ٹینشن میں تو آ گئی ہوگی؟
دوست نے کہا۔ ارے نہیں بھئی! “میرا” آ پ کو یاد نہیں کہ کس دھڑلے سے اس نے فلم “باجی” بنائی ہے۔
اس جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
“میرا” تو “میرا “ہے۔ اس کے سر میں تو دماغ ہی نہیں۔ میں نے “سنی لیون” کو اکثر خبروں میں غصے اور ٹینشن میں دیکھا ہے۔ بالی وڈ اور ہالی وڈ کی ایکٹریس اور ماڈلز باقاعدہ ڈیپریشن میں رہی ہیں ایسے سکینڈلز پہ۔ کسی عورت کے لیے یہ چیزیں آ سان نہیں ہوتیں اور پھر اس معاشرے اور اس وطن میں جس وطن کی خاتون اول سر تا پا حجاب کرتی ہو۔
وہاں یوں کسی عورت کی عزت اچھال دینا ہم اس قدر آ سان کیسے لے سکتے ہیں۔
ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ یہ وڈیوز اس کا ذاتی ڈیٹا چرا کے نکالی گئی ہیں تو پھر تو گلوگارہ یقیناً بے حد صدمے میں ہوگی اور ممکن ہے اپنی جان لینے کی کوشش بھی کرے۔ لیکن ساتھ ہی آ پ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ بہت آ رام سے اپنی زندگی اسی طرح بہت مزے سے انجوائے کرتی رہے گی جیسے کررہی ہے اور لوگ بہت جلد بھول جائیں گے تو یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان میں کوئی ربط قائم نہیں ہو رہا کیونکہ  میشا شفیع نے می ٹو کی مہم کے ذریعے بڑی مشکل سے عورت کو اس کا حق دلوانے کی جنگ لڑی ہے۔ جس کا فوری نتیجہ ہمارے ایک کولیگ “محمد افضل لیکچرر انگلش” کی خود کشی کی صورت میں نکلا ہے۔ جن پر ایک طالبہ نے الزام لگایا تھا کہ سر بہت گھور گھور کے دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف “رابی پیرزادہ” ہیں جنہوں نے بذات خود قوم کو گھور گھور کے دیکھنے کا سامان فراہم کر دیا ہے۔
اب یہ کام من کی موج نے دکھایا ہے یا رابی پیرزادہ اور کسی ظفر مند نے مل کر کیا ہے۔ اس پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیوں کہ شنید ہے کہ رابی پیرزادہ  خود ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
اور صاحبو! بات یہ ہے کہ آ دمی جتنا بھی گرا ہوا اور گیا گزرا ہو کم سے کم اپنی بیٹی کا لباس نہیں اتارتا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔