کوئی پچیس برس پہلے خشونت سنگھ کا ناول ’دہلی‘ پڑھنے کو ملا۔ ہڈالی خوشاب کے فرزند کی داستان گوئی میری، آپ کی داد سے بے نیاز ہو چکی۔ لفنگے صحافی اور خواجہ سرا بھاگ متی کی رس بھری کہانی میں خوشونت سنگھ نے دہلی کی تین صدیاں سمیٹ لی تھیں۔ سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے۔ لیجئے، جالب صاحب یاد آ گئے۔ حسب معمول پکڑے گئے بلکہ دھر لئے گئے تو شب فتنہ کو ایک مصرعے میں سمو دیا، اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری…. مگر بھائی، ہمارے حبیب جالب کے حصے میں لاہور کی گدائی اور بندی خانوں کی رسوائی لکھی تھی۔ اسے خوشونت سنگھ کی سی عافیت کہاں میسر تھی جو قبیلے کے سردار جیسی شان سے اپنے قلم کے زور پر خاکساروں کو اونچے سنگھاسن پر بٹھاتا تھا اور کشیدہ شملے والی دستاروں پر دھول ڈال کر شام ڈھلے جام بکف طلوع ہوتا تھا۔
’دہلی‘ کو پڑھتے ہوئے ایک خیال بار بار ستاتا رہا کہ ہم ہندوستان کی جو تاریخ پڑھتے رہے، وہ تو دہلی دربار کی زنجیر عدل سے بندھی ہے۔ لے دے کے کوئی چار سو میل کا قطر ہے ہماری تاریخ کا۔ اسی میں لال قلعہ، اسی میں چاوڑی، اسی میں پانی پت، اسی میں آگرہ۔ یہ تاریخ تو انہوں نے لکھی جو گردش فلک کے نقطہ الف پر تاریخ فرشتہ لکھتے تھے اور مطلع ثانی میں دربار عزازیل کا قصہ رقم کرتے تھے۔ تو ان زمیں زادوں کا جو آج بھی راجن پور اور عمر کوٹ میں رہتے ہیں، جو خاران کی خاک میں غلطاں ہیں یا باجوڑ کے دھندلے میں ہیں، ان کا کون پرسان حال تھا؟ یہاں دیکھتی آنکھوں پر جھوٹ کا پردہ ڈالا جاتا ہے، خبر کی سفاکی پر عصبیت کی دھول جھونکی جاتی ہے تو کہاں ہے ہمارے اجداد پر گزرنے والی قیامتوں کا حال؟ کہاں ہے زور آور کی من مانی کا احوال اور کمزور کی بے بسی کی دستاویز؟
لاہور میں ایک عقوبت خانہ ختم کیا اور معصوم دلوں میں ان گنت تھانے بٹھا دیے۔ قریب دو سو برس تک قانون کی تدوین اور منضبط حکمرانی کے تجربے کے بعد ہمارا یہ عالم ہے کہ عمرانی معاہدے کی حرکیات نہیں سمجھتے، ریاست اور شہری کا رشتہ نہیں جانتے، دستوری ادارے اور سررشتہ خدمات میں فرق نہیں کر سکتے۔ حکمرانی کی نوعیت اور عوام کے معیار زندگی میں تعلق کی پہچان نہیں رکھتے۔ اس موقع پر استاد محترم پوٹھوہاری لہجے میں فرمایا کرتے تھے کہ کابل میں یہ حال ہے تو سوچو، دلی پر کیا گزری ہو گی۔
کراچی شہر میں راہگیروں کی موجودگی میں ایک نوجوان خاتون بندوق کی نوک پر اغوا کی جاتی ہے۔ پولیس اور صحافت ہفتہ بھر ناکتخدا بچی کے کردار کی چھان پھٹک میں مصروف رہے۔ مغویہ کے لواحقین نے تاوان کی رقم ادا کر کے اسے بازیاب کرا لیا۔ اٹک کی اعلیٰ سرکاری افسر شہریوں میں مساوات اور رواداری کی ایک بے ضرر تلقین کی پاداش میں مجرم بنا کر ہجوم طفلاں کے حضور پیش کی جاتی ہے۔ قانون دانی کا دعویٰ رکھنے والے کسی ہم پیشہ وکیل کے ڈاکٹر سے جھگڑے پر غضب ناک ہو کر امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ متعدد مریض اس بلوے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اور اہل قانون اس جرم کا لاشہ میڈیا کے دروازے پر رکھ کے چور چور کا شور مچانا چاہتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ میڈیا بوجوہ زیر عتاب ہے۔
میڈیا ایسا کمزور فریق ہے جسے پاکستان میں دفن ہونے والے حملہ آور کی شناخت بتانے پر ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ برطانیہ کے انتخاب میں پندرہ ’پاکستانی نژاد ‘ امید واروں کی کامیابی کی شہ سرخی جماتا ہے۔ ملک کی اہم ترین خبر چیختی چنگھاڑتی خبروں اور بے آواز افواہوں کے انبار میں کہیں گم ہو گئی۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان ایک برس میں انسانی ترقی کے اشاریے میں ایک درجہ تنزلی پا کر 189 ممالک میں 152ویں نمبر پر آ گیا اور جنوبی ایشیا میں سب سے پیچھے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ درویش اس زبوں حالی پر کسی موجودہ یا سابق حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائے گا تو ایک دلچسپ حکایت سنیے:
چند برس ادھر کا قصہ ہے۔ ایک پارسا صحافی نے ٹیلی ویژن پروگرام میں اتہام اور دشنام طرازی کی حد کر دی۔ حسب قانون، پیمرا پنجاب کو شکایت درج کرائی، شواہد پیش کیے۔ صحافت کے سلطان سنجر کو طلب کیا گیا تو ہلڑ باز وکیلوں، باریش ریٹائرڈ ججوں اور تلنگوں کے ایک ہجوم کے ہمراہ پیمرا کے دفتر پہنچے اور کمیٹی کا اجلاس درہم برہم کر دیا۔ دھینگا مشتی سے گھبرا کر صدر مجلس نے معاملہ پیمرا اسلام آباد روانہ کر دیا۔ معلوم ہوا کہ پیمرا کا چیئرمین خود کھدیڑا جا رہا ہے۔ وزیر اطلاعات سے فریاد کی۔ وہ شریف آدمی ایک خبر ’رکوانے‘ میں ناکامی پر برطرف کر دیے گئے۔ انصاف کی یہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے درویش کی سانس پھول گئی۔ ایک آس باقی تھی کہ دستور نے وزیر اعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو قرار دیا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وزیر اعظم ایک متنازع عدالتی فیصلے کی مدد سے ڈنڈا ڈولی کر دیے گئے۔
یہ کہانی اس لئے عرض کی کہ ہم نے اس ملک میں کسی منصب کا وقار باقی نہیں رہنے دیا، کسی ادارے کا دامن بے داغ نہیں رہنے دیا۔ تمدن کی کوئی قدر ایسی نہیں جس کی بنیاد نہیں کھودی۔ اقتدار اور اختیار کے متوازی دھارے ہر گام پر قبرستانی صلیبوں کی طرح یوں گڑے ہیں جیسے کسان کھیتوں سے پرندے اڑانے کے لئے بڈاوے کھڑے کر دیتا ہے۔ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کون حقیقی ہے اور کون محض عکس، کون شاطر ہے اور کون مہرہ، کون تیر انداز ہے اور کون ہدف؟ ہم سازش اور اسکینڈل کے دوشاخے پر مصلوب کر دیے گئے ہیں۔ اس پر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ حکومت پنجاب کی مستعدی سے لاہور میں بڑا سانحہ رونما ہونے سے بچ گئے۔ مختار صدیقی کی نظم ’باز یافتہ‘ کی آخری سطریں یاد آ گئیں :
طوفاں میں جو ناﺅ کھو گئی تھی
پھر آن لگی ہے اس کنارے
یوں تو ہے خدا کا شکر واجب لیکن کسے ناخدا پکارے