بیٹی کے اسکول میں اینٹی بلینگ ویک منایا گیا جس کے لیے اس نے بڑی محنت سے مقابلے میں حصہ لینے کے لئے خوبصورت رنگین پوسٹر بنایا جس نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
جب ہمارے سب سے بڑے بیٹے نے نیا نیا اسکول جانا شروع کیا تو ہر وقت سننے کو ملتا ”فلاں نے میری فیلنگ ہرٹ کر دی“ ”کسی کی فیلنگ ہرٹ نہیں کرتے“ ”میں اس لیے رویا تھا کہ میری فیلنگ ہرٹ ہو گئی“۔ ہم خوب ہنستے کیونکے ہماری لغت میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہم جس معاشرے میں پروان چڑھے وہاں کون کسی کی فیلنگ کو پوچھتا ہے بلکے مزہ لینے کے لئے دانستہ اور نا دانستہ خوب خوب ایک دوسرے کی فیلنگ ہرٹ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں پلنے بڑھنے والے بچے خاصے صاف گو اور حساس ہوتے ہیں اور یہی بات کبھی کبھی کافی خطرناک بھی ثابت ہوتی ہے۔ مغربی معاشروں میں یہ خبریں عام ہیں کہ بچے کی کسی چیز کا مذاق اڑایا گیا اور اسنے خود کشی کر لی۔ کہاں بچوں کو بچپن سے سکھائی گئی حساسیت اور انسانیت انہی کے لئے مشکل بن جاتی ہے اور کہاں ہم جیسے مشرقی اقدار میں پروان چڑھے پکّے بچے جو بلینگ اس کی بھٹی میں پک پک کے کندن بن جاتے ہیں۔
مار پیٹ، چھینا جھپٹی، دھکے دینا، کسی کی چیزیں قصدا توڑنا پھوڑنا اور کسی بھی طور سے جسمانی تکلیف پہنچانے کے علاوہ مذاق اڑانا، طعنہ زنی، جملے کسنا، کسی کو بڑے القابات سے پکارنا، کسی کی جسمانی ساخت یا رنگت کی بنا پہ الٹے سیدھے نام رکھنا، کسی کے بارے میں افواہیں پھیلانا، کسی کو دانستہ شرمندہ کرنا، لوگوں کے درمیان کسی کی بے عزتی کرنا، کسی کے خلاف اکٹھا ہو کے اس کو اکیلا کر دینا، کسی کو چڑانے کے لئے اس کی ناپسندیدہ بات کو اس کے سامنے بار بار دھرانا، کسی سے اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں ناگوار گزرنے والے سوال کرنا، حتیٰ کہ بلا وجہ کسی کے ساتھ سخت لہجہ اپنانا سب بلینگ کے زمرے میں آتا ہے اب کوئی پوچھے تو اگر یہ سب نہ ہو تو رہ کیا گیا زندگی میں؟
، ہمارے معاشرے میں ایسی فیلنگ ہرٹ نہ کرنے کی احتیاتیں برتی جانے لگیں تو زندگی بالکل ہی پھیکی سیٹھی ہو جائے۔ ہمارے ہاں تو گھر سے لے کے اسکول اور آفس تک اور میڈیا سے لے کے حکومت اور سیاستدانوں تک سب ہی بلینگ میں مصروف ہوتے ہیں۔ اگرچے آہستہ آہستہ آگہی آ رہی ہے لیکن اب بھی ہم سمجھداری کی سطح سے کافی اوپر ہیں۔ بچوں کو تو پھر بھی ایسی باتیں سمجھائی جا سکتی ہیں لیکن بڑوں کا کیا کریں؟ اور بچے چونکہ سمجھانے سے زیادہ اپنے اپنے بڑوں کا مشاہدے کر کے سیکھتے ہیں تو آخر میں جو پروڈکٹ بنتی ہے وہ انہی ”bully“ قسم کے بڑوں کا چھوٹا ماڈل ہوتی ہے۔
پچھلے سال بچی کے بال سیٹ کروائے، بس تھوڑی لمبائی کم ہوئی تھی بہت زیادہ اسٹائل نہیں تھا، کسی کے گھر جانا ہوا تو خاتون بالوں کو چھو کے کہنے لگیں، کیا اماں نے خود ہی پکڑ کے کاٹ دیے بال، ہم مسکرا کے چپ ہوگئے۔ گھر آئے تو بیٹے صاحب کو کُچھ خیال آیا۔ ”انھونے جسطرح فاطمہ کے بالوں کو کہا آپ کو پتا ہے وہ آپ کو“ موک ” ( طنز یا مذاق اڑانا ) کر رہی تھیں؟ “، ہماری ہنسی چھوٹ گئی، اب ایسی باتوں کو سوچنے اور دل سے لگانے بیٹھ گئے تو گزر گئی زندگی، یہاں تو ہر کوئی دوسرے کو موقع ملتے ہی موک کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
جب آپ کسی سے کسی خوشی کے موقع پہ ملتے ہیں تو آپ کو چنداں اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کے چند جملے یا عام انداز میں پوچھے گئے کُچھ فضول سوالات کسی خوشی باش اچھے کپڑے پہنے اچھا محسوس کرتے آدمی کا موڈ کس طرح برباد کر کے اس کا مورال کتنا ڈاون کر سکتے ہیں جو دراصل اچھا وقت گزارنے کے خیال سے محفل میں موجود ہے۔ آج کے دور میں یہی حال سوشل میڈیا پہ کمنٹس کا بھی ہے۔ میرے پاس اپنی ایک چھوٹی سی مثال ہے، کُچھ عرصہ پہلے کسی نے میری شاعری پہ کمنٹ کیا کہ آپ نثر بہتر لکھتی ہیں اس کا نادانستہ طور پہ اثر یہ ہوا کہ شاعری سے ایک دم دل اچاٹ سا ہوگیا اور سال دو سال میں کچھ نہیں لکھ سکی حالانکہ کمنٹ ایک بہت ہی عام سا اور ایک عام فرد کا تھا۔
تو الفاظ کی صورت میں جو نفرت کے تیر تلوار چلائے جاتے ہوں گے وہ کیا کیا نہ قیامت ڈھاتے ہوں گے اس لیے کچھ برا کہہ کے یا لکھ کے منفیت پھیلانے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ جب آپ کے الفاظ کسی کو آگے بڑھنے یا پیچھے گرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں تو کیوں نہ کسی کی آگے بڑھنے میں مدد کی جائے؟
کُچھ باتیں اور سوال جو مہذب معاشروں میں نامناسب سمجھے جاتے ہیں اب بھی ہمارے ہاں بہت عام ہیں جن کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مثلا
* اتنی موٹی کیوں ہوگئی ہو؟
* بچے نہیں ہوئے ابھی تک؟
*بس لڑکیاں ہیں؟
*ایک بیٹا بھی کر لو
* اس بچے کا نقشہ کس پہ چلا گیا؟
*یہ کیسے کپڑے پہن لیے؟
*کچھ اور پہن لیتیں
*کچھ کھلاتے پلاتے نہیں ہو بچوں کو؟
*اسکا رنگ کس پہ چلا گیا
*تمہارے بہن بھائیوں کا قد تو اچھا ہے تمہیں کیا ہوا؟
*تنخواہ کتنی ہے
*یہ بالوں کو کیا ہو گیا؟
*گھر اچھا ہے بس تھوڑا چھوٹا ہے
یہ ایک مختصر سی لسٹ ہے کمنٹ میں آپ اپنے نا پسندیدہ سوالات اور جملوں کا اضافہ کر سکتے ہیں شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہمارا لہجہ اور انداز کسی بھی سوال کے پس منظر میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کچھ باتیں محبت، اپنائیت اور رسان سے کی جاتی ہیں جن کا مقصد تکلیف پہنچانا نہیں ہوتا اس لیے وہ تکلیف بھی نہیں دیتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی نیتوں اور مقاصد کو خود بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صاف گوئی کے زعم میں مبتلا ہو کر خوب خوب نشتر چلاتے ہیں اس بات سے بے خبر کہ لوگوں کو ان کی صاف گوئی کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس سے متعلق مجھے بچوں کی ایک ناول اور مووی
کا ایک جملہ بہت اچھا لگتا ہے
WHEN GIVEN THE CHOICE BETWEEN BEING
RIGHT OR BEING KIND، CHOOSE KIND۔
R۔ J۔ Palacio، Wonder
(یعنی اگر آپ کو مہربان ہونے یا صحیح ہونے میں سے ایک کو چننا پڑے تو ”مہربان ہونے“ کو چنیں )