فضائیہ کراچی سکیم کی شرمندگی سے ایر فورس بچ سکتی تھی

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز شیئر ہوئیں جس میں عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد فضائیہ کراچی سکیم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین اس سکیم کے دفتر میں اپنی جمع کرائی رقم کی واپسی کے لیے اکٹھے تھے۔ ان لوگوں نے فضائیہ کے نام پر اعتماد کر کے اس سکیم میں رقم لگائی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے بھی اس سکیم میں سرمایہ کاری کی تھی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بھی کئی احتجاجی ویڈیوز شیئر ہوئیں۔ متاثرین نے اپنے تعیں ہر کوشش کرنے کے بعد یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔
ایر فورس نے یہ سکیم مارچ 2015 میں عام لوگوں کے لیے ”شاہینوں کے ساتھ زندگی“ کے نعرہ کے ساتھ شروع کی۔ لوگوں کا ایر فورس پر اعتماد اور مارکیٹنگ کے بھرپور استعمال سے مارچ کے مہینے میں ہی پچھتر سے اسی ہزار تک کے فارم ایر فورس نے بیچے۔ ہر فارم کی قیمت نا قابل واپسی ایک ہزار روپیہ تھی۔ بحریہ ٹاون کے طرزِ واردات کے مطابق ایک ہزار کا فارم بلیک میں پنتالیس ہزار تک کی قیمت پر بِکا [ 1 ]۔ شاہراہ فیصل پر ایرفورس کی بیس کے باہر فارم خریدنے والوں کے ہجوم نے ٹریفک کا نظام درہم بھرم کر دیا تھا۔
بڑی خوبصورت ویب سائیٹ بنائی گئی، ٹویٹر، فیس بک پیج، یو ٹیوب کے چینل بنا کر پیسے اکٹھے کیے گئے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے علیحدہ سیکٹر کا اعلان کیا گیا [ 2 ]۔ اس ویب سائیٹ پر آج بھی یہ ایر فورس کے پراجیکٹ کے طور پر مشتہر ہے۔ کئی مڈل کلاس خاندانوں بلکہ بیواوں نے فضائیہ کے نام پر اعتماد کر کے اپنی جمع پونجی اس سکیم میں لگا دی۔ لوگوں سے اقساط لی جاتی رہیں، مگر سالوں سکیم پر کام نہیں کیا گیا۔ عام لوگ کراچی فضائیہ سکیم کے دفتر اور افسران کے سامنے دربدر ہوتے رہے، مگر بے حسی کا ایک عالم رہا۔ مجبوراً ایر فورس سے محبت کے باوجود لوگوں نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا، جس کے بعد معاملہ نیب کے سامنے جا پہنچا ہے۔
نیب کے اعلامیہ کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوا ہے اور تیرہ بلین روپے یعنی تیرہ ارب روپے لوگوں سے ہتھیا گئے ہیں [ 3 ]۔ اتنی بڑی رقم کی ہیر پھیر میں کیا صرف ایر فورس کے ذمہ داران کی نا اہلی کو الزام دیں، یا کرپشن بھی اس کا حصہ ہے؟
بدقسمتی سے یہ پہلا معاملہ نہیں ہے جس میں ادارے کے ذمہ داران کی نا اہلی یا کرپشن کے بنا پر لوگوں کا اعتماد مجروح ہوا اور لوگوں کو نقصان اُٹھانا پڑا۔ مگر پچھلے معاملے میں چونکہ متاثرہ افراد فضائیہ کے اپنے ملازمین تھے سو اس بنا پر ان کی آواز اتنی نہیں اٹھی۔ یہ افراد سالہا سال گزرنے کے باوجود شاہین فاونڈیشن کی الحمرا نام کی ہاؤسنگ سکیم کے لیے جمع کرائی رقم کی واپسی کے انتظار میں ہیں۔
شاہین فاونڈیشن جوکہ فضائیہ کے ملازمین کی بہبود کے لیے بنائی گئی تھی اس نے 2005 میں لہتراڑ روڈ، زون 5 اسلام آباد میں فضائیہ کے ملازمین کے لیے حبیب رفیق کنسٹرکشن کمپنی کے اشتراک میں الحمرا نام کی سکیم کا اعلان کیا۔ اس سکیم کی فضائیہ کے ملازمین میں خوب ایڈورٹزمنٹ کی گئی۔ محکمے کے نام پر اعتماد کرکے بہت سے لوگوں نے اس سکیم میں اپلائی کیا۔ ان میں افسران کے علاوہ نچلے عہدہ کے ایرمین اور سویلین افراد بھی شامل تھے۔
لوگوں نے اپنی بچت، عزیز و اقارب سے قرض لے کر شاہین فاونڈیشن کو اقساط ادا کیں۔ 2009 میں ایک عالیشان تقریب زمین پر منعقد ہوئی جس میں بیلٹ کرکے پلاٹ نمبر الاٹ کیے گئے، مگر زمین پر کوئی ترقیاتی کام نہ ہوا [ 4 ]۔ چھ سال تک شاہین فاونڈیشن الاٹ کردہ افراد کو جھوٹی تسلیاں دیتی رہی۔ 2015 میں الاٹیوں کو بتایا گیا کہ الحمرا سکیم فراڈ کا شکار ہوگئی ہے اور معاملہ نیب کے حوالے کیا جارہا ہے۔
نیب کی پریس ریلیز کے مطابق ایر فورس کے سات سو افراد متاثر ہوئے، اور ایک ارب دو سو اٹھاون لاکھ روپے کا فراڈ ہوا [ 5 ]۔ نیب کی وجہ سے ان افراد کے پیسے کی ادائیگی اقساط میں طے پائی، اور یہ بھی طے پایا کہ جمع کروائی گئی رقم میں پچاس فیصد مزید ادا کی جائے گی۔ متاثرین کو کچھ اقساط ادا کی گئی ہیں، مگر اگلی ادائیگی کا کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب ادا ہوں گی۔ شاہین فاونڈیشن متاثرین کو رقم کی واپسی کا کوئی شیڈول نہیں دے رہی۔ اس کے علاوہ یہ بھی علم نہیں کہ شاہین فاونڈیشن جو متاثرین سے رقم وصول کرتی رہی، اس کا اس فراڈ میں کیا کردار تھا؟ اتنی بڑی رقم کا اکٹھا کرنا اور پھر کھو دینا آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔
اس مضمون کے لکھنے کے لیے شاہین فاونڈیشن کے ایم ڈی، پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی پراجیکٹ ڈائریکٹر سے بذریعہ ای میل تفصیلات پوچھی گئیں تاکہ ان کے موقف کو جان لیا جائے۔ پوچھا گیا کہ کتنے لوگوں کی ادائیگی کی گئی ہے؟ بقیہ ادائیگی کب کی جائے گی؟ اس فراڈ سے فضائیہ کے کتنے نچلے عہدے کے ملازمیں اور کتنے افسر متاثر ہوئے؟ اتنی بڑی رقم کے فراڈ کی کوئی انکوائری کی گئی تھی کہ نہیں؟ کیا شاہین فاونڈیشن کے ذمہ داران کی نا اہلی یا کرپشن اس فراڈ کا باعث تھی؟ کیا متاثرین سے معافی مانگی گئی ہے؟
کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کئی لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک افسر جو اپنی نو سالہ بیٹی کے کینسر کے علاج کے لیے اپنے دیے گئے پیسوں کی واپسی کی درخواستیں دے رہا ہے۔ ایک سویلین ٹیلیفون آپریٹر جس نے اپنے سعودی عرب میں کام کرتے بھائیوں سے پیسے لیے تھے، اور وہ اپنے بھائیوں سے منہ چھپاتا پھررہا ہے۔ ان متاثرہ افراد کی کہانیاں سنیں تو دل بھر آتا ہے، مگر دوسری جانب سے بے حسی ہی آشکار ہے۔
اگر 2015 میں اس واقعے کی بھرپور انکوائری کی جاتی اور ذمہ داران کو سزا دی جاتی تو فضائیہ آج کراچی میں شرمندہ نہ ہو رہی ہوتی۔
مذہبی ذمہ داری کے لحاظ سے امانت میں بددیانتی کا خیال اگر ہم ایک طرف بھی کر دیں تو بحثیت ایک پروفیشنل آرگنائزیشن کے بڑے بڑے سوال اٹھتے ہیں۔ اگر لوگوں سے لیے گئے ذاتی پیسے کے ساتھ ایسا سلوک ہورہا ہے تو قومی خزانے کے پیسے کے خرچ پر کئی خیالات آنا لازمی ہیں۔
کسی بھی آرگنائزیشن خصوصاً دفاعی ادارے کے لیے یہ بڑی شرم کی بات ہے۔ یہ معاملہ پاکستان سے نکل کر دنیا میں پاکستان ایر فورس کی جگ ہنسائی کا سبب بن گیا ہے۔ کوئی بھی نغمے، ڈرامے، پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ اس شرمندگی کا مداوہ نہیں کر سکتے۔ فضائیہ کو فوراً ایک شفاف انکوائری کرنی چاہیے اور قوم کی ایر فورس سے محبت اس چیز کی متقاضی ہے کہ اس انکوئری کا رزلٹ متاثرین کو بے لاگ بتایا جائے اور ذمہ داران کو عبرت انگیز سزا دی جائے۔
ایک کسی فلم کا گھسا پٹا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے، ”اگر پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو“۔ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو اور کچھ نہیں تو دردِ زہ سے تو بچا ہی جاسکتا ہے۔

References :
https://hamariweb.com/articles/70774
https://www.fazaiakarachi.org/
https://www.dawn.com/news/1519538
https://en.wikipedia.org/wiki/Al-Hamra_(Islamabad)
http://nab.gov.pk/press/new.asp?1389