کوئٹہ روانہ ہونے سے پہلے میں نے اخبار خرید ا کہ اخبار پڑھتے پڑھتے سفر آسانی سے کٹ جائے گا۔ اخبار میں بلوچستان کی جانب سے وفاق کو دیے جانیوالے 37 ارب روپے کے حوالے سے خبر پڑھی بہت دکھ ہوا کہ ہمارے اپنے صوبے میں بیروزگاری کی وجہ سے میں خود دوسرے صوبے میں اپنوں سے دور مسافروں کی زندگی گزار رہا ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان آج بھی بیروزگار ہیں اور ہزاروں نوجوان احتجاج پر ہیں۔ دن رات محنت کرنے کے باوجود مجھے صرف اتنی رقم ملتی ہے کہ اگر میں اسے گھروالوں کو دوں تو میری جیب خالی ہوجائے گی اور اگر یہی روپے میں اپنے پاس رکھوں تو گھر میں فاقے پڑ جائیں گے۔ سوچنے لگا بلوچستان میں تو اسی جماعت کی حکومت ہے جس نے تو فنڈز لیپس کو بہانہ بناکر پچھلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔
ایک ایک کرکے مختلف جماعتوں کی بلوچستان سے کی جانیوالی نا انصافیاں یاد آنے لگیں۔
میں نے نوے کے دہائی میں غریب لیکن معدنیا ت سے مالا مال صوبہ بلوچستا ن کے دارالحکومت کوئٹہ شہر میں آنکھ کھولی تھی۔ میں نے جس سرکاری سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی وہ کوئٹہ شہر میں ہوتے ہوئے بھی تمام سہولیات سے محروم تھا۔ ہم ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ہمیں یہ علم بھی نہیں تھا کہ طلباءکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور سکولوں کو سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
2002 تک میں سیاست سے بالکل ناآشنا تھا۔ ہمیں صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ فلاں شخص وزیراعظم اورفلاں شخص وزیراعظم ہے۔ پھر ایک دن ظفراللہ جمالی بلوچستان کے پہلے شخص تھے جو وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بلوچستان کے عوام نے ان سے بہتری کی امید رکھی تھی لیکن شاید وہ اپنے آبائی علاقے کے عوام کی امیدوں پر بھی پورا نہیں اترسکے ہوں۔ پرویز مشرف کے غلط فیصلوں کی وجہ سے صوبے میں وہ آگ بھڑ ک اٹھی جو آج تک بجھ نہیں سکی۔ صوبے میں ق لیگ کی حکومت تھی سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے کے دعوے ہم روز سنتے تھے لیکن میدان پرکچھ اچھا نظر نہیں آرہا تھا۔
2008 میں قوم پرست جماعتوں نے بلوچستان کے ساتھ نا انصافی کی۔ انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور صوبے کو ایک بار پھر لاوارث چھوڑا۔ وفاق اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو پیپلزپارٹی کے نظریاتی مخالف ہونے کے باوجود ق لیگ نے بلوچستان حکومت کا ساتھ دیا اور پھر مفادات حاصل کرنا شروع کیے۔ اسمبلی میں شامل سارے لوگ حکومت کا حصہ بنے۔ اسمبلی میں اپوزیشن موجود نہیں تھی۔ کرپشن وکمیشن اوراقربا پروری عام ہوگئی۔
بدامنی کے واقعات روز کا معمول بن گئے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں حقوق بلوچستان پیکیج دیا گیا جو صرف چند ہزارنوکریوں تک محدود رہا۔ ن لیگ اور قوم پرستوں کی حکومت بنی تو وہ بھی اسی روش پر چل پڑی۔ حکومت نے سی پیک منصوبہ شروع کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پرگامزن کرتا لیکن حکومت نے مغربی روٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ جب صوبے سے آوازیں اٹھنی لگیں تو سابق وزیراعظم نے ایک جعلی منصوبے کا افتتاح کیا اور اس طرح بلوچستان کو ٹرخایا گیا۔ بلوچستان میں کوئی منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف پنجاب میں موٹرویز کا جال بچھایا گیا۔ بجلی کے منصوبے لگائے گئے۔ میٹرو ٹرین کا منصوبہ مکمل کیا گیا لیکن بلوچستان کے لئے مانگی ڈیم کے علاوہ کوئی خاص منصوبہ شروع نہیں ہو سکا جبکہ اتحادی قوم پرست وفاقی حکومت کی وکالت کرنے لگے۔
ملک میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ آیا تو ملک بھر کے عوام کی طرح میں اور میرے خاندان والے بھی بہت خوش تھے۔ میں ہر روز دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے روشن مستقبل قصے سنا تا تھا۔ میں کہتا تھا کہ صوبہ ترقی کرے گا او ر میر ی طرح ہزاروں لوگ جو دوسرے ممالک اور علاقوں میں کام کرتے ہیں وہ اپنے ملک واپس آئیں گے میں سوچتا تھا کہ میں اپنے گھر سے سینکڑوں میلوں دور مزدوری کی بجائے اپنے والدین کی نظروں کے سامنے رہتے ہوئے کام کروں گا۔
حکمرانوں کی جانب سے مجھے نہ صرف یہ خواب دکھایا گیا تھا کہ میں ترقی کروں گا بلکہ یہ بھی تو ن لیگ کی حکومت نے بتایا کہ بلوچستان پورے خطے کی تقدیر بدلے گا۔ لیکن ایساکچھ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی میری مظلومیت پر بات ہوتی تھی بلکہ ایک کہانی عمران خان نے جس انداز میں سنائی میں نے سنی تو جلسے کے شرکاء کی طرف مجھے بھی رونا آیا۔ طاہرالقادری بھی اپنے دھرنے میں میری معدنیات پر بات کرتا تھا تو مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کہ ایک نہ ایک دن تو میں اس سے ضرور استفادہ کروں گا لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ میں ایسا خواب دیکھ رہا ہوں جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
نواز شریف نے ہمیں نظرانداز کیا تو میری ساری امیدیں عمران خان سے وابستہ ہوگئیں لیکن وہ بھی بہت جلد دم توڑ گئیں۔ وہ ایسا ہوا کہ امی نے فون کیا کہ بیٹے اب کچھ روپے زیادہ بھیجنا کیونکہ موجودہ حکومت آنے کے بعد پانی کا آنا مکمل طور پر بند ہوگیا ہے اب اس کو خریدنے کے لئے بھی روپے رکھنے پڑتے ہیں۔
قومی میڈیا تو بلوچستان کونظر انداز کرتا ہے اس لئے میں اس کی بجائے سوشل میڈیا کو زیادہ ترجیح دیتا تھا۔ سوشل میڈیا پر پتا چلا کہ ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد نے احتجاج شروع کیا ہے کہ کاروبار پر پابندی لگا کر انہیں بیروزگار نہ کیا جائے۔ یہ احتجاج پچھلے دنوں کمشنر مکران ڈویژن کی ٹریفک حادثے میں شہادت کے بعد ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی کے خلاف ہورہا تھا۔ مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ بیروزگاری کیا ہوتی ہے اور امیر صوبے کی بیروزگاری نے ہی تو مجھے مسافر بنایا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے پرمجبور کیا تھا۔
میں نے سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی دیکھی، میں نے خود بھی اس میں حصہ لیا کہ ہمارے صوبے کی شاہراہوں کو دو رویہ بناؤ کیونکہ یہ قاتل سڑکیں ہمیشہ ماؤں سے ان کے بچے، بیویوں سے ان کے سہاگ اور بچوں سے ان کے باپ کو الگ کرتی ہیں۔ بلوچستان کی قومی شاہراہیں اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ جب ہم سفر کرتے تھے تو ہمیں یہ ڈر لگتا تھا کہ اب حادثہ ہو گا، اب حادثہ ہو گا۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ تو بہت مصروف بھی ہوتی ہیں، اعداد و شمارکے مطابق وہاں روزانہ آٹھ ہزار سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن سڑک اتنی تنگ ہو ہے جیسے کسی دیہات کی طرف جانے والی سڑک ہو۔
ن لیگ نے تو روڈ کو دو رویہ بنانے کا منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل بھی کیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے کفایت شعاری کے نام پر اس کو نکال دیا۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک چھوٹی سی تحریربھی لکھی تھی کہ اگر کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دو رویہ بنایا جائے اور سی پیک کے مغربی روٹ پر آنے والی سڑک کو تعمیر کیا جائے تو پھر بلوچستان میں حادثات کی شرح بہت کم ہوسکتی ہے لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ اپنے صوبے کے ٹریفک حادثے میں شہید ہونے والے پیاروں پر روتے روتے ایک دن میں خود اسی قاتل سڑک کا شکار بن جاؤں گا۔
اب ایک بار ماضی کی روایت دوہرائی جائے گی کہ ایرانی تیل کی گاڑی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ حکومت اپنی غلطی کبھی نہیں مانے گی کہ اگر حادثے کی وجہ ایرانی تیل جانیوالی گاڑی ہے تو اس سے بھی بڑی وجہ سے سڑک کا تنگ ہونا بھی ہے۔ میرے والدین پر کیا گزرے گی یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کیونکہ میں نے صوبے کے بے شمار والدین کو قاتل سڑکوں کا شکار ہونیوالے پیاروں کی لاشیں اٹھا تے دیکھا ہے
میری لاش جب کوئٹہ کے ہسپتال پہنچائی گئی تو میرے سرہانے پر کھڑے ایک شخص نے پاس کھڑے نوجوان سے میری موت کی وجہ پوچھی تو اس نے بھی میری موت کی وجہ کو صوبے اور وفاق کی سابقہ وموجودہ حکومت کو قرار دیا۔ اس شخص نے پھر پوچھا کہ میں تو خبریں سن کر آرہا ہوں نیوز چینل پر ایسی کوئی خبر نہیں چل رہی تھی بلکہ برطانیہ کے الیکشن، لاہور واقعہ اور کرکٹ کا صرف ذکر ہو رہا تھا۔ نوجوان نے جواب کہ صاحب بلوچستان سے ان کو اشتہارات نہیں ملتے۔ جس میڈیا کو یہاں سے فائدہ نہیں ملتا تو وہ ہمارے دکھ درد کو کیوں اپنا موضوع بنائے