سورج ڈھل چکا تھا، اور ہم بیلہ سے آواران کے لیے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ سڑک بھی خستہ حال۔ یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان علاقائی نمائندوں کو یہ تکلیف کا یہ منظر کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ جوں جوں آگے بڑھے تو ہم نے بیلہ آواران روڈ کو بارونق پایا۔ ہوٹل کھلے ہوئے ملے۔ یہ سب زامیاد گاڑیوں کی آمدورفت اور تیل کے کاروبار کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ وہ روٹ جس پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ویرانی کا راج رہا اس خاموشی کو توڑنے کے لیے ایرانی زامیاد گاڑیوں کے کاروان اپنا کردار نبھا رہے تھے۔ راہوں کی اسی رونق نے مستقبل کے لیے امیدوں کی فضا باندھی مگر مختصر۔ ہم نے بیلہ سے آواران کا 132 کلومیٹر کا فاصلہ پانچ گھنٹوں میں طے کیا۔
جب شب کی تاریکی ڈھل چکی اور دن کے اجالے نے اس کی جگہ لے لی تو جس آواران ٹاؤن کا دیدار پانچ سال قبل ہم کر چکے تھے اسے ذرا مختلف پایا۔ وہی آواران جسے ستمبر 2013 کے زلزلے نے ملیامیٹ کر دیا تھا ایک بار پھر سے آباد نظر آیا۔ جگہ جگہ کھلی دکانوں نے ہمیں یہ باور کرایا کہ لوگ معاش کے حصول میں اب قدرے آسانی محسوس کر رہے ہیں۔ علی محمد جو کسی زمانے میں بے روزگاری کے دھکے کھا رہا تھا اب اس نے ایک ہوٹل کھول رکھا تھا۔ زامیاد گاڑیوں کی آمدورفت نے خوشحالی کا نیا باب کھول دیا تھا۔
جہاں پہلے کچے گھروندے نظر آتے تھے اب پکے مکانوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ 2013 کو جب آواران میں زلزلہ آیا تو لوگ بے گھر ہو چکے تھے۔ نقصانات کے سروے میں 27 ہزار متاثرین کے نام آئے۔ حکومتِ وقت نے زلزلہ متاثرین کے لیے 16 ہزار گھروں کی تعمیرات کا اعلان کیا۔ اسے آواران کی خوش قسمتی ہی کہیں کہ منصوبے کے لیے جب پراجیکٹ سربراہ کا انتخاب کیا جا رہا تھا تو عزیز احمد جمالی کا نام آیا۔ اول تو یہ کہ 2005 کو کشمیر زلزلے کے بعد بحالی منصوبہ میں انہیں کام کرنے کا چار سالہ تجربہ حاصل تھا اور ان کا تجربہ آواران منصوبے میں کام آیا؛ دوم یہ کہ مذکورہ افسر سماج سدھار کی سوچ رکھتا ہے۔
ان کی آمد سے ہوا یہ کہ محکمہ C&W کا تیار کردہ پی سی ون جس میں اس منصوبے کو ٹھیکداری نظام کے تحت چلانے کے عزائم تھے اس کی حوصلہ شکنی کی اور اسے عوامی انداز میں لانے کے لیے وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ کو قائل کیا گیا۔ اس طریقہ کار سے ہوا یہ کہ منصوبہ سیاسی قید سے آزاد ہو کر کمیونٹی منصوبہ بن گیا۔ اس طریق پر چلانے سے 16 ہزار گھرانے مستفید ہوئے۔ پیسے براہ راست ان کے اکاؤنٹ میں گئے جس سے لوگوں کو گھروں کی تعمیرات میں آسانی ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آواران میں پختہ مکانوں کے ڈھانچے وجود میں آنے لگے۔ آواران کے روایتی میر معتبر جن کے مفادات ٹھیکداری نظام سے وابستہ رہے ہیں سراپا احتجاج بن گئے مگر پراجیکٹ ڈائریکٹر اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
گھروں کے تعمیراتی منصوبے کو سائنسی بنیادوں پر چلانے کے لیے انہوں نے NED یونیورسٹی کراچی کی خدمات حاصل کی۔ ماڈل ہاؤس کا ڈیزائن یونیورسٹی کے تجربہ گاہ میں shaking table پر ٹیسٹ کیا گیا اور کامیابی کے بعد گھروں کی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ علاقے میں ہنرمند افراد کی قلت تھی۔ دیگر علاقوں کے مزدور اور مستری آواران آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لہذا علاقے سے 50 افراد کی ٹریننگ این ای ڈی یونیورسٹی اور یو این ڈی پی سے کرائی گئی۔ انہی افراد نے آواران میں تعمیرات کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی دیکھا دیکھی سیکڑوں اور ہنرمند بن گئے۔ آج کے آواران میں ہم نے دیکھا کہ جگہ جگہ بلاک کے تھلے قائم تھے اور مزدوروں کا وسیع حلقہ اس میں سر گرم عمل تھا۔ 15 ماہ کے قلیل عرصے میں 12000 مکان زمین سے چھت تک تعمیر ہو چلے۔
مکان مالکان کو تین اقساط میں مالی معاونت ملتی رہی۔ پہلا ایڈوانس کام شروع کرنے کو، دوسری قسط دیواروں کو مجوزہ ڈیزائن کے مطابق تعمیر کرنے کے لئے اور تیسری قسط چھت تعمیر کرنے کے لیے۔ incremental construction کے طریقہ کار نے گویا پورے ضلع کو مصروف و مشغول کر دیا تھا۔ کوئی پروجیکٹ دفتر سے پروگریس کی بنیاد پر چیک وصول کر رہا تو کوئی بینک سے پیسوں کا انتظام۔ کوئی تعمیراتی مٹیرئیل خرید رہا تو کوئی ٹرانسپورٹ، پانی اور مستری کا انتظام کر رہا۔ مزدوری تو سب مل کر خود بھی کر لیتے۔ عورتوں نے مردوں کا خوب ہاتھ بٹایا۔
اس منصوبے کو عالمی سطح پر پزیرائی بھی ملی۔ ٹوکیو جاپان میں منعقدہ کانفرنس میں آواران ہاؤسنگ پروجیکٹ کو ایشیا پیسفیک ایوارڈ فار سول انجینرنگ سے نوازا گیا۔
عزیز جمالی بطور پراجیکٹ ڈائریکٹر کے علاوہ ڈپٹی کمشنر آواران بھی تھے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ جو اعلانات ان کی تعیناتی سے قبل وفاقی وزرا، حکومتی اراکین اور اداروں کے سربراہاں کر چکے تھے ان کی فہرست منگوا کر کام شروع کیا۔ جام کمال خان جو اس وقت وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل تھے نے آواران میں گیس پلانٹ کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔ عزیز احمد جمالی ان کے پاس اسلام آباد گئے انہیں یاددہانی کروائی۔ گیس پلانٹ کی منظوری دی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ٹاؤن ایریا میں گیس کی سپلائی کا کام شروع ہو چکا ہے اور لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف زلزلے کے بعد آواران آئے اور ڈسٹرکٹ ہسپتال آواران کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے اور آواران کے نوجوانوں کو انٹرن شپ کی فراہمی کا اعلان کر گئے۔ مگر یہ فقط اعلانات ہی رہ جاتے اگر عزیز احمد جمالی ان سے خط و کتابت نہ کرتے۔ ان کے اس اقدام سے نہ صرف ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کا حلیہ بدل گیا بلکہ آواران ڈنڈار کے 550 بے روزگار نوجوانوں کو انٹرن شپ کے ذریعے روزگار ملا۔ ان نوجوانوں کو ماہانہ 20 ہزار روپے کی ادائیگی کا عمل 3 سال تک جاری رہا۔
بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے آواران میں ایک کالونی کے قیام کا اعلان کیا اس کی منظوری کے لیے ڈی سی آواران نے راولپنڈی میں واقع بحریہ ٹاون کے دفتر کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر رسائی نہیں ہو پائی۔ یوں ملک ریاض صاحب کا وعدہ وفا نہ ہوا جو وہ آواران کے زلزلہ متاثرین کے لیے کر چکے تھے۔ ضلعی انتظامیہ نے وہ زمین سوئی سدرن گیس کمپنی کو الاٹ کی جہاں اب گیس پلانٹ لگ چکا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آفس کمپلیکس جو کسی زمانے میں سبزہ سے عاری تھا اس میں ہم نے درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا۔ سوال کیا کہ تبدیلی کا سہرا کس کے سر ہے تو ہر زبان پر عزیز جمالی کا نام آیا۔
عزیز احمد جمالی مارچ 2014 سے اگست 2015 تک آواران میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل رہے اس دوران انہوں نے سعودی فنڈ کے سربراہ سے ملاقات کرکے انہیں آواران میں نئے گھروں کی تعمیرات کے لیے آمادہ کیا۔ سعودی حکومت نے آواران میں 8 ہزار مزید گھروں کی تعمیرات کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کی تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
البتہ وہ عناصر جنہیں اجتماعی مفادات سے بڑھ کر ذاتی مفاد پسند تھا وہ عزیز احمد جمالی کو برداشت نہیں کر پائے یوں ان کا تبادلہ سیاسی بنیادوں پر کرایا گیا۔
عزیز احمد جمالی ان دنوں پی پی ایچ آئی بلوچستان کے ساتھ بطور چیف ایگزیکٹیو افسر کام کر رہے ہیں۔ ادارے میں کام کرتے ہوئے انہیں 22 ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران وہ 12 سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے پی پی ایچ آئی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان جو سڑک حادثات کی زد میں رہا ہے سڑکوں کے آس پاس طبی امداد کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ ریسکیو 1122 ان ہی کی کوششوں نتیجہ ہے جسے صوبائی حکومت نے نہ صرف منظور کیا بلکہ پی پی ایچ آئی بلوچستان پر اعتماد کرکے بڑا منصوبہ ادارے کے سپرد کیا۔ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں کراچی کوئٹہ شاہراہ پر چھ ایمرجنسی سینٹرز قائم ہو چکے ہیں جہاں ایمبولینس اور تربیت یافتہ پیرامیڈکس کے ذریعے زخمیوں کو فوری طبی امداد مل جاتی ہے۔
بلوچستان کی بیوروکریسی کو شاید ہی عزیز احمد جمالی جیسا کوئی افسر نصیب ہوا ہو جس نے سماج کی فلاح کے لیے انقلابی اقدامات کے جھنڈے ہر جگہ گاڑے ہوں۔ بلوچستان کو سماج سدھار سوچ رکھنے والے سپوت پر فخر ہے۔