زندگی نشیب و فراز کے ایک ایسے اندھے کنویں کے گرد گھومتی رہتی ہے جس میں خواہشات اور خوشیوں کے حصول کے لیے انسان کو اپنا وجود تو ایک بار اس کنویں کے سپرد کرنا پڑتا ہے اس کنویں کا پانی بعض لوگوں کے لئے تو آب حیات ثابت ہوتا ہے اور کچھ بدقسمت لوگ اپنی پیاس کی شدت کو اتنا بڑھا لیتے ہیں کہ وہ انہیں سراب کرنے کی بجائے موت کی وادی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
موت کی یہ قسم جسمانی موت کے مقابلے میں کس قدر شدید ہے اس کا اندازہ وحشتوں میں مبتلا وجود ہی لگا سکتا ہے۔ محض سانسوں کی لڑکی کا جسم کے ساتھ تعلق ہی تو زندگی کی علامت نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ کوئی کسی کے لئے نہیں مرتا ہر انسان اپنے حصے کی زندگی جی کر ہی اگلے جہان کو کوچ کرتا ہے۔ مگر اس زندہ لاش کو قبر تک کا سفر کرنے کے دوران کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے یہ سب کچھ ناقابل بیان ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب زندگی میں ہر خوشی اور مسرت سے تانا بانا ٹوٹا ہوا نظر آتا ہے یہ انسان کی زندگی کا وہ باب ہوتا ہے جب انسان مایوسیوں کی انتہا پر پہنچ کر اپنی توجہ لاشعوری طور پر زندگی میں رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات کی طرف مبذول کر لیتا ہے جبکہ خوشگوار واقعات اور لمحات نئی نویلی دلہن کی طرح کسی کھڑکی سے سرٹکاے ُ ایک نظر الفت کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔
اس نادان لڑکی کی زندگی میں ایک رات ایسی بھی گزری جب اسے لگا کہ اس کے محبوب کا کچھ بھی بتائے بغیر جدا ہونا ناقابل بیان حد تک اذیت کا مرحلہ ہے۔ بلکہ سچ پوچھو تو یہ لفظ ”اذیت“ ان احساسات کی ترجمانی کرنے کے لیے نہایت بے وقعت سا ہے جو کسی ایسے اپنے کو کھو دینے کے بعد محسوس کی جاتی ہے جس سے بچھڑنے کا تصور کرنا بھی محال ہو۔
اسے ہر سفر ہر مرحلہ تنہا اور وحشت سے بھرپور لگتا تھا۔ ان آنکھوں نے خوابوں سے منہ موڑ لیا تھا اور اگر کوئی خواب بھولے سے پلکوں کے راستے آنکھوں میں اتر بھی آتا تو وہ اس کی زندگی کی طرح ہر طرح کے خوشبو اور رنگوں سے سے ماورا ہوتا۔ دکھوں اور اذیتوں کو الفاظ کی شکل میں بیان نہ کرنے سے بڑی بھی کوئی اذیت ہو سکتی ہے؟ اس بات کا اندازہ کرب میں مبتلا وجود کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا۔
اسے تنہائی کے آسیب سے نفرت تھی۔ تنہائی بھی خوشی، غم کی طرح ایک کیفیت کا نام ہے اس میں محبت جتنی رومانیت نہیں مگر یہ شدتوں میں محبت جیسے جذبے سے بھی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ہر وہ تعلق جو اذیت بن کر روح کو لہولہان کرنا شروع کردے اس کا آغاز تنہائی کے عالم میں بْننے والے خوابوں سے ہی ہوتا ہے۔ تنہائی کا وجود اس پر ہنستا تھا۔ اس کی روح کو تپتے انگاروں پر رقص کرنے پر مجبور کردیتا تھا وہ اس اذیت میں مبتلا روح کو دیکھ کر کسی مدہوش تماشبین کی طرح سرور حاصل کرتا تھا۔
اس کے کمرے میں موجود گھڑی کی سوئیاں تنہائی میں الٹے پیر دوڑنے لگتی تھیں۔ اور نہ چاہتے ہوے ُ خوابوں کے جہان میں پہنچا دیتی تھیں جس کی تعبیریں اس مرد کی قربت کے ساتھ ہی منسوب تھیں۔ ہر رات گھڑی کی مانوس آواز اور بے آواز آنسوؤں کے ساتھ وہ آخری پہر تک روتی رہتی اس امید کے ساتھ کہ شاید اس کی روح کا رابطہ اس سنگدل مرد کی روح کے ساتھ استوار ہو جائے کاش اس تک ان اذیتوں کا کوئی سرا پہنچ جائے۔ وہ آرزووُں کی شجر سے ٹیک لگائے پہروں اس کے زندگی میں دوبارہ سے داخل ہونے کا انتظار کرتی رہتی۔
ہر نئے دن روشنی سے لبریز سورج کی کرنیں ہر رات چاند کی چاندنی سے بھیگے لمحات اسے نئے سرے سے اس خوش گمانی میں مبتلا کردیتے کے شاید چاندنی رات میں گزرے اس کی قربت اور ساتھ کے لمحات کسی حسین یاد کی صورت میں اس مرد کے ذہن میں بھی جگنو کی طرح جگمگائیں۔ اس کی کوئی ادا اس پتھر دل کے کندھوں پر جھول کر اس کارخ بی کبھی اس کی جانب پھیر سکیں۔ مگر حقیقی دنیا کہاں اتنے خوشنما ہوتی ہے اس پر ستم یہ کہ دل اب بھی ہر دھوکے پر آنکھیں موندے اس مخالف جنس کی ذات کی اچھائیاں تلاش کرکے خود کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں مگن رہتا ہے۔
دماغ ان بیوقوفیوں پر قہقہے لگاتا ہے۔ افسانوں سے محبت کرنے والی لڑکیاں آخر میں ایسے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں شکست کھاتی ہیں مگر وہ نادان لڑکی شاید اس لیے منفرد ہو کہ اس کے اندر حقیقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو قبول کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے وہ تو بس اس سوچ میں مگن رہتی ہے آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کا طوفان اگر کبھی تنہائی میں کسی صورت ٹل بھی بھی جائے تو دنیا داری کے لیے چہرے پر سجائے جانے والے رنگین قہقہے تمام رنگوں سے آزاد ہو جائیں گے اس کے اندر کی حالت کو سب کے سامنے عیاں کردیں گے۔
اس کی یادوں کے نرم جھونکے میں موجود بے وفا ُیوں کے گرم تھپیڑے نجانے اس لڑکی کو اذیت میں کیوں نہیں ڈالتے آنسوؤں کے طوفان کا ٹل جانا محبت سے دستبرداری کا نہیں بلکہ انسان کی بے بسی کی انتہا کا اعلان ہے۔ اس کے آنگن میں جلنے والے اس خوبصورت ماضی کی یادوں کے چراغ اگر کبھی بجھ گئے تو زندگی میں مسرتوں سے بھرپور یادیں بھیانک اندھیروں کی شکل اختیار کر لیں گی اور افسوس کے اس نادان لڑکی کی کی کل حاصل مسرتوں کی یادیں بدقسمتی سے اس بے وفا مرد کے وجود کے ساتھ ہی منسوب ہیں۔