کیا پاکستانی معاشرے میں عورت کی کامیابی کے لیے اس کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے؟


’طلاق میری زندگی کا اہم موڑ تھا، شاید میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ مجھے طلاق ہونا تھا۔ مجھے کہا گیا دوبارہ شادی کر لو، آدمی کے بغیر نہیں رہ پاؤ گی لیکن میں ایک شادی سے نکل کر دوسری میں نہیں جانا چاہتی تھی۔‘

’میں بہت پریشان تھی لیکن میرا دماغ اتنا کام کر رہا تھا کہ اس وقت دوبارہ شادی کا فیصلہ درست نہیں۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری زندگی ایک شادی نہیں بلکہ معاشی خودمختاری بچا سکتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ شادی یا کسی مرد کا آپ کے ساتھ ہونا آپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں۔‘

یہ کہنا ہے 33 سالہ خدیجہ رحمان کا جو ایک سنگل مدر ہیں۔

بی بی سی نے خدیجہ سمیت چند خواتین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا ایک خاتون کی کامیابی کے لیے اس کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے، غیر شادی شدہ خواتین کو کس قسم کے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیا سنگل خواتین خود کو کامیاب سمجھتی ہیں یا نہیں؟

کمیونیکیشن کے شعبے سے وابستہ اسلام آباد کی ثنا زبیری، جنھوں نے ابھی تک شادی نہیں کی، کہتی ہیں کہ خواتین کا کرئیر اور تعلیم ہونے کے باوجود بھی ان کی شادی کو سب سے اہم چیز سمجھا جاتا ہے۔

ثنا زبیری
ثنا زبیری

’بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ شادی کیوں نہیں کی، ایسا کیا ہو گیا، کیا مسئلہ ہے، تو کبھی کبھار اس کا جواب نہیں ہوتا۔‘

کچھ ایسا ہی ہمیں 38 سالہ آمنہ یاسر نے بھی بتایا جو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔

آمنہ بتاتی ہیں کہ شادی سے پہلے وہ ملازمت پیشہ خاتون تھیں اور ان پر بھی شادی کے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

’میری فیملی، رشتہ داروں اور دوستوں کی جانب سے دباؤ تھا کہ عمر زیادہ ہو رہی ہے شادی ہونی چاہیے لیکن میں اپنی زندگی سے مطمئن تھی، میں کام کر رہی تھی اور خود مختار تھی، مجھے شادی کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔‘

غیر شادی شدہ خواتین کو کن معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ثنا کہتی ہیں ’کچھ لوگ آپ کو بہت بے چارا سمجھتے ہیں، شاید ان کی نیت اچھی ہوتی ہے لیکن بہت عجیب لگتا ہے جب کوئی آپ پر ترس کھا کر بات کرتا ہے۔ کچھ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ بہت مشکل انسان ہیں، آپ کے معیار بہت بلند ہیں۔‘

’بے شک آپ اپنی زندگی میں خوش ہوں، آپ کامیاب ہیں، آپ بہت سی ایسی چیزیں کر رہی ہیں جو دوسرے نہیں کر پاتے لیکن معاشرہ آپ کو بار بار یہ بات یاد کراتا ہے تو آپ خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید مجھ میں کوئی رہ گئی ہے اور لوگ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اس کمی کو محسوس کریں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ اپنی عمر کی 20 کی دہائی میں تھیں تو انھیں بہت عجیب و غریب مثالیں دی جاتی تھیں۔

خدیجہ رحمان
خدیجہ رحمان

انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا ’مجھے کہا گیا آپ کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے، دیر کر دی تو بہت دیر ہو جائے گی، آپ ایک گوبھی کے پھول کی طرح ہوتے ہیں اگر زیاہ وقت گزر جائے تو آپ مرجھا جاتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ معاشرہ لڑکی اور اس کے والدین میں ایک خوف ڈال دیتا ہے کہ اگر ابھی شادی نہ ہوئی تو کبھی نہیں ہو گی۔

دوسری جانب خدیجہ بتاتی ہیں کہ طلاق کے بعد انھیں لوگوں کے اصل چہرے دکھائی دیے۔

’طلاق کے بعد آپ کو جو باتیں سننا پڑتی ہیں اللہ نہ کرے وہ کسی کو سننی پڑیں۔ یہ سب اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن آپ کو تنہا اس سے گزرنا پڑتا ہے۔‘

’لوگ ایک سنگل عورت کو کھلی تجوری کی طرح دیکھتے ہیں کہ اس تک رسائی آسان ہے اور ہر کوئی باآسانی اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔‘

’لوگ آپ پر ترس کھاتے ہیں کہ آپ کو طلاق ہو گئی، آپ کو مشورے دیے جاتے ہیں کہ دوبارہ شادی کر لو، کیونکہ ان کے نزدیک جو شوہر کر سکتا ہے وہ تم نہیں کر پاؤ گی۔‘

شادی زیادہ اہم یا کرئیر۔۔۔؟

ثنا کہتی ہیں ’ہماری سوسائٹی میں عورت کو برابر سمجھا ہی نہیں جاتا، ہم نے معاشرے میں اس کے کردار کو معین کر دیا ہے کہ اس کا کام کچن میں رہنا، اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچوں کا خیال رکھنا ہے جبکہ اس کا کرئیر بہت بعد میں آتا ہے۔‘

’لوگوں کو خود مختار خواتین پسند نہیں ہوتیں، وہ ان کی ذہنی آزادی سے پریشان ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں شادی کے خلاف نہیں ہوں لیکن چاہتی ہوں کہ جس سے میری شادی ہو اس سے میری مطابقت ہو۔ سمجھوتہ شادی کے بعد ہونا چاہیے، آپ کو کبھی ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ آپ کی شادی ہی ایک سمجھوتہ ہے۔‘

لیکن آمنہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں ’آپ پروفیشنل زندگی میں کبھی بھی واپس آ سکتے ہیں، لیکن بچوں کے ساتھ گزارا وقت واپس نہیں آ سکتا لہذا میں نے انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے بچوں کو وقت دینا ہے۔‘

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ورکنگ خواتین اپنے بچوں پر بھرپور اندز میں توجہ نہیں دے پاتیں، کیونکہ آٹھ نو گھنٹے دفتر میں گزارنے کی وجہ سے بچوں کی پرورش میں کمی رہ جاتی ہے۔

دوسری جانب خدیجہ رحمان کے لیے شادی کا نہ ہونا یا طلاق یافتہ ہونا بڑا مسئلہ نہیں رہا۔

وہ کہتی ہیں ’زیادہ تر لڑکیاں طلاق کے بعد سمجھتی ہیں کہ اب بس سب ختم ہو گیا لیکن ایسا نہیں ہے، عورت کو چاہیے کے وہ خود اپنی حوصلے افزائی کریں۔‘

آمنہ یاسر
آمنہ یاسر

آمنہ یاسر کے مطابق: ‘میری فیملی، رشتہ داروں اور دوستوں کی جانب سے دباؤ تھا کہ عمر زیادہ ہو رہی ہے شادی ہونی چاہیے لیکن میں اپنی زندگی سے مطمئن تھی، میں کام کر رہی تھی اور خود مختار تھی، مجھے شادی کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔’

ثنا اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور خود کو ایک کامیاب انسان سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’میں بہت اچھا پڑھ چکی ہوں، میرے کام کا تجربہ بہت اچھا ہے، میرے پاس ٹیلنٹ ہے تو انفردی طور پر خود کو کامیاب سمجھتی ہوں، میں مکمل ہوں۔‘

دوسری جانب خدیجہ بھی کچھ ایسا ہی سوچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’طلاق کے باوجود میں خود کو ناکام نہیں سمجھتی، میرے لیے روز ایک نیا دن ہوتا ہے، کسی دن میں میں بہت زیادہ کامیاب ہوتی ہوں اور کسی دن میں کوشش کر رہی ہوتی ہوں، ہاں لیکن میں ناکام نہیں ہوں۔ مجھے اپنی زندگی اب بہتر لگتی ہے، شاید اس سارے مرحلے سے گزر کر ہی مجھے یہاں تک پہنچنا تھا۔‘

لیکن ان دونوں خواتین کے برعکس آمنہ یاسر شادی کے بعد خود کو زیادہ کامیاب سمجھتی ہیں۔

’میرے لیے میری ترجیح میری فیملی اور بچے ہیں۔ میرے نزدیک آپ کامیاب تب ہی ہیں جب آپ شادی شدہ ہیں اورآپ کے بچے آپ سے مطمئن ہیں۔ میں شادی کے بعد خود کو زیادہ کامیاب سمجھتی ہوں۔‘

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے سسرال کی جانب سے ان پر جاب کرنے یا نہ کرنے کا کوئی دباؤ نہیں لیکن وہ اس چیز کی بہت تعریف کرتے ہیں کہ میں نے پروفیشن کی بجائے اپنے بچوں اور فیملی کو ترجیح دی ہے۔