امریکہ کی ایک چھوٹی ریاست کا شہر، کمپنی کے تقریباً چار ہزار ملازمین اور ان میں سے نصف کا تعلق ہندوستان سے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرت یہ کہ زیادہ تر کا تعلق چھوٹے شہروں سے، دور دراز کے علاقوں سے تھا۔ خواتین ابھی تک تیل چپڑے بالوں کی چوٹی بنائے دفتر آ رہی تھیں اور مرد حضرات بھی عام حلیےمیں۔ وہ نہ تو بڑی نامور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے اور نہ ہی اعلیٰ انگریزی بولتے تھے۔ مگر ایک زبان پہ انہیں قدرت حاصل تھی اور وہ تھی کمپیوٹرکی زبان اور اسی لئے وہ وہاں موجود تھے”
ہماری صاحبزادی امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کر چکی تھیں اور ماسٹرز کرنے سے پہلے تجربہ حاصل کرنے کی چاہ میں نوکری کی تلاش میں تھیں۔ اسی جستجو میں ایک امریکن کمپنی تک جا پہنچیں، جس کا زیادہ کام کمپیوٹرسے متعلق تھا۔ صاحبزادی یونیورسٹی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر کےکمپیوٹر میں نام کما چکی تھیں سو نوکری مل گئی۔ اور نوکری کے شروع میں ایسے ہی کسی دن اس نے دوران گفتگو اپنی حیرت کا اظہار کیا!
ہندوستان کا ٹیکنالوجی میں عروج کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گوگل اور بہت سی اور کمپنیوں کے سربراہوں کو سبھی جانتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اہم ہتھیار کو صحیح وقت پہ استعمال کرتے ہوئے افراد کے جم غفیر کو ریاست کے لئے عفریت بننے کی بجائے قیمتی دولت میں تبدیل کرنا ان کا وہ کارنامہ ہے جس پہ ہم جیسےاپنی کم مائیگی کو دیکھتے ہیں، آہ بھرتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ کرنے پہ قادرنہیں۔
نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں وطن عزیز میں ڈش اینٹینا متعارف ہوا اورمستفید ہونے والوں میں ہم بھی تھے۔ عرصہ دراز تک پی ٹی وی کے کچھ پروگرام دیکھنے والوں کے لئے یہ یقیناً جہان حیرت تھا۔ دنیا کی رنگ برنگی داستانیں گھر کے دروازے تک آن پہنچی تھیں اور محظوظ کرتی تھیں۔ ایک طویل تعلیمی دور کے بعد کی فراغت تھی، ازدواجی سفر شروع ہو چکا تھا، سو ڈش اینٹینا کی عیاشی دل کھول کے کر رہے تھے۔ کبھی ہالی ووڈ جا پہنچتے تو کبھی بالی ووڈ کے چٹخارے لیتے۔ کبھی زی ٹی وی میں مشہور شیف سنجیو کمار کی ترکیبیں نوٹ کرتے تو کبھی گھریلو سیاست پہ بنے ہوئے ڈراموں سے حظ اٹھاتے۔
آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ کئی ڈراموں میں ایک لفظ بار بار استعمال ہوتا اوراکثر اوقات ڈرامے کا مرکزی خیال ہی اس لفظ کے اردگرد بنا ہوتا۔ ہمیں قطعی سمجھ نہ آتی کہ یہ کیا لفظ ہے اور بیشتر ڈراموں کا تھیم کیوں ہے؟ ایک آدھ دفعہ کسی سے پوچھا بھی لیکن خاطر خواہ جواب نہیں پایا۔ انٹرنیٹ اور گوگل کی دنیا تو تھی نہیں کہ فوراً سوال ٹائپ کرو اور کھٹاکھٹ جواب حاضر۔
آج جب پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا۔ بہت سی دنیا اس لفظ کے گرد نئی کہانیاں لکھ چکی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی۔ آج وہ لفظ بھی یاد آتا ہے، اس کے معنی بھی سمجھ میں آتے ہیں اور دل کو پھر سے ایک خلش دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے،
وہ لفظ تھا ” سلیکون ویلی “
کائنات کے ارتقاء میں بہت سے نام سننے کو ملتے ہیں، پتھر کا زمانہ، فولاد کا زمانہ اور برونز کا زمانہ۔ یہ زمانے بیتے صدیاں گزر چکیں۔ لیکن کیا کہیے کہ ہماری اور آپ کی زندگی میں ایک اور ارتقائی موڑ کی زیارت لکھی تھی جس نے دنیا کا کھیل ہی بدل کے رکھ دیا،
” سلیکون کا زمانہ”
سلیکون ایک کیمیائی عنصر ہے جو کائنات میں اکثریت سے پایا جاتا ہے۔ سلیکون کو سویڈش سائنس دان جیکب برزیلیس نے 1823 میں دریافت کیا۔
سیلیکون کو استعمال کرتے ہوئے جدید الیکٹرونکس کی بنیاد ایک مصری سائنسدان محمد عطا اللہ نے بیل لیبارٹریز امریکہ میں کام کرتے ہوئے رکھی۔ ایک بنیادی بلاک Mosfet بنایا گیا جو کمپیوٹر اور دوسری ٹیکنالوجیز کا بنیادی بلاک بنا اورالیکٹرونکس کی دنیا کی سب سے اہم ایجاد جانا گیا۔
“سلیکون ویلی” کا نام امریکی جریدے الیکٹرونک نیوز میں ڈان ہوفلر نے 1971 میں لکھا اور یہ نام اسی کی دہائی میں بہت مقبول ہوا جب IBM کے کمپیوٹر اوردوسری ٹیکنالوجی کی چیزیں مارکیٹ میں آئیں۔ دنیا بھر میں وہ علاقہ جہاں دنیا کی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں اس کو علامتی طور پہ سلیکون ویلی پکارا گیا۔ امریکہ میں یہ کیلیفورنیا کے پاس سینٹا کلارا ویلی کا علاقہ ہے جہاں دنیا کی بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں، گوگل، فیس بک وغیرہ کے صدر دفتر ہیں۔
کیلیفورنیا کے علاوہ دنیا میں کچھ اور شہر بھی سلیکون ویلی کے نام سے پہچانےجاتے ہیں اور ان میں ایک شہر ہندوستان کا شہر بنگلور ہے جہاں ڈھائی سو کمپنیاں کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ بنگلور نے سلیکون ویلی بننے کا عمل اسی کی دہائی میں شروع کیا۔
دنیا میں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیاں اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سلیکون ایج کے نام سے پکاری گئی کہ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں ایک انقلاب برپا ہونے کو تھا اور زمانه قدیم کی ماضی بن جانے والی ایجز کےبعد ایک ایج ہمارے نصیب میں دیکھنا بھی لکھی تھی، لیکن صرف دیکھنا ہی لکھی تھی۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کو بھانپنا اور اپنی قوم کو اس ڈگر پہ چلانا ہم نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
لیکن ہندوستان میں بیٹھے منصوبہ ساز اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ مولانا آزاد کا لگایا ہوا پودا انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی توموجود تھا ہی، سلیکون ایج کا اس قدر چرچا کیا گیا کہ اس کا خیال ٹی وی ڈراموں تک آ پہنچا۔ وہاں کے عام شہری کو بھی سلیکون ایج سے نہ صرف آگہی ہوئی بلکہ سب نے اس دوڑ میں شریک ہونے کے لئے کمر کس لی۔
جب ہمارے ہمسائے میں اور ہم جیسے لوگوں میں ایک نئے زمانے کو فتح کرنے کا جنون تھا، ہم نوجوانوں کو جہاد کی امنگ بانٹنے میں مصروف تھے۔ ہماری سوچ اس نظریے کے گرد گھومتی تھی کہ دنیا میں علم و فن کیا سیکھنا، جنت کمانا ہی توہمارا مطمح نظر ٹھہرا۔ اب قران کے مطابق کائنات کی پیچیدگیوں میں غوروفکر کرنا اور سربستہ رازوں کو حاصل کر کے علم بانٹ کے جنت کمانا تو ذرا طویل تھا اور ہماری قوم ٹھہری شارٹ کٹ کی شوقین سو جہاد ہماری اولین ترجیح بنا۔ ویسے بھی بنا ہینگ اور پھٹکری کے رنگ چوکھا تھا۔
جب روسیوں کو بھگا کے اور افغان آگ میں ہاتھ جلا کے جہاد سے فارغ ہو بیٹھے تب یاد آیا کہ غم روزگار سے بھی نبٹنا ہے اور بنا کسی ہنر و فن کے دنیا کےبازار میں اکیلے کھڑے ہیں۔
ارباب اختیار کے جب سر پہ پڑی تو شارٹ کٹ کے شوقینوں کو پیلی ٹیکسی بانٹنےکا خیال سوجھا۔ سو جب ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کو ٹیکنالوجی سکھائی جا رہی تھی، ہم عوام میں ٹیکسیاں بانٹ رہے تھے۔
اس میں بھی غریب عوام کو تو کم ہی فائدہ ہوا، زیادہ تر دوسروں نے ہی بہتیگنگا میں ہاتھ دھوئے۔ چشم فلک نے میانی صاحب کو جانے والی سڑک پہ دو رویہ دوکانوں پہ لگا بورڈ دیکھا ‘یہاں لفظ ٹیکسی مٹانے کا انتظام موجود ہے ‘. یعنی ناجائز امیدوار بن کے ٹیکسی لینا جائز ٹھہرا لیکن سر عام اقرار شان کے خلاف ہوا۔ چنانچہ تٰکسی کے نام پر خریدی کار پر سے لفظ ٹیکسی مٹایا جا رہا تھا۔
آج سلیکون ویلی کے فاتح دنیا میں اپنے ملک کو کثیر زر مبادلہ بھیج کے اس کی ترقی میں برابر کے شریک ہیں اور ہم جیسے جب اس پہ اپنی قوم کی آنکھیں کھولنےکی کوشش کرتے ہیں تو فوراً ہی ہم پہ احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا الزام جڑ دیا جاتا ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ کاش آپ احساس کمتری کا شکار ہو کے ہی کچھ سبق سیکھ لیجیے اور سوشل میڈیا پہ کاغذی شیر بن کے گرجنے کی بجائے میدان عمل میں اتریے۔