بکھرتے سماج کی نشانیاں


ریاستیں بکھرتی ہیں تو دوبارہ بن جاتی ہیں ،لیکن اگر سماج بکھر جائیں تو ان کا دوبارہ بننا ایک مشکل اور طویل المدّت عمل ہے۔جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد دنیا کے نقشے پر لا تعداد ایسی ریاستوں نے جنم لیا،جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،بشمول پاکستان،جس پر ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ایک ناممکن کام تھا۔1940 ء تک پاکستان کا تصور ایک یوٹوپیائی تخیل تھا۔جنگ عظیم اول کے بعد متعدد نئی ریاستیں ابھریں،خصوصا مشرق وسطیٰ میں اور متعدد اس کی نذر بھی ہوگئیں،جیسے آسٹروہنگری ایمپائر اور عثمانی سلطنت،لیکن مٹنے والی ریاستوں کے سماج نہ بکھر پائے۔ابھی دو دہائیاں قبل سوویت یونین تحلیل ہوئی،جو دنیا کی دوسری بڑی سیاسی و عسکری طاقت رکھنے والی ریاست تھی،جس کی سرحدیں یورپ اور ایشیاء تک پھیلی ہوئی تھیں،یہ ریاست ایسے تحلیل ہوئی کہ ریاست کے آخری حکمران میخائل گورباچوف کو بھی علم نہ تھا،کہ جس ریاست کے پایہ تخت میں وہ بیٹھا ہے،وہ ریاست وقت کے دھارے کے ساتھ تحلیل ہونے جارہی ہے،لیکن دلچسپ بات یہ ہے سویت یونین بکھر گیا،مگر سماج نہیں بکھرا،سماج نے ایک نئی ریاست قائم کرلی۔نظام بدل گیا،لیکن سماج ٹوٹا نہ بکھرا۔روس اور اس کی فیڈریشن پر پھیلے خطوں میں بسنے والے انسان ایک نئے سیاسی نظام کے تحت رہنے لگے،اگر سماج بکھر جائیں تو ان کا نئے سرے سے منظم ہونا مشکل ترین کام ہے۔اہم بات یہ ہے کہ جدید سیاسی تاریخ میں متعدد ایسی ریاستیں میں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جہاں ریاستیں قائم ہیں،لیکن سماج بکھرے پڑے ہیں۔ریاست کی کمزور رِٹ بکھرتے سماج کی طاقت ہوتی ہے۔سماج دولت مند گروہوں،خاندانوں،طاقتور مافیا اور مسلح گروہوں کے مرہون منت ہوجاتی ہے۔ریاستی طاقت کمزور اور گروہی طاقت زور پکڑ جاتی ہے۔دولت پر گرفت رکھنے والے اور بندوق اٹھائے گروہ ،ریاست اور سماج کو اپنے ارادوں کے تحت چلانے لگتے ہیں۔کہیں ریاست طاقت برقرار رکھتی بھی نظر آتی ہے،لیکن سماج بکھر جاتا ہے۔انسانوں کا اجتماعی اتحاد کمزور پڑ جاتا ہے۔معاشرتی قدریں ٹوٹ جاتی ہیں۔قانون کو طاقتورخاندان اور مسلح گروہ جھٹکے پر مجبور کردیتے ہیں،حتیٰ کہ سماج میں چلتے پھرتے افراد بھی سڑکوں ،شاہراہوں اور اداروں کے نظم و ضبط کو چیلنج کرتے نظر آنے لگتے ہیں۔قانون طاقت وروں کو تحفظ دینے اور کمزوروں پر گرفت کرنے لگتا ہے۔بکھرا ہوا سماج ٹریفک قوانین سے لیکر ریاست کے تمام نظم و ضبط تک چیلنج کرنے لگتا ہے۔
درحقیقت سماجی انارکی ایک مسلسل قیامت ہوتی ہے۔جتنے لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں ،اتنے ہی لوگ ٹریفک کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بھی ہلاک ہوتے ہیں اور ایسے ہی بیماریوں اور علاج کی سہولیات میسر نہ ہونے سے،حتیٰ کہ غلط علاج اور جعلی ادویات سے اور اپنی جہالت کے سبب لاتعداد بیماریاں بھی ان کا مقدربنتی ہیں ۔ایک بکھرتے سماج میں اپنی جہالت پر غرور کرنے والا سماج کن کن تباہیوں کا شکار ہوتا ہے،اُس سماج میں بسنے والوں کو اس کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا۔توہم پرستی اور رجعت پسندی دونوں مذہبی انتہائیں اس بکھرتے سماج پر راج کرنے لگتی ہیں۔لوگ توہم پرستی اور رجعت پسندی سے اپنے گناہوں کا کفارہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔منطق،استدلال،توازن،عدم برداشت،امن وقانون کی بالا دستی،آبادی کا سیلاب،گندگی کے ڈھیراور ان گندگی کے ڈھیروں پر کھانے پینے کی اشیاء سے سجے بازار،اس بکھرتے سماج کی بڑی علامتیں ہوتی ہیں ۔گند اور غلاظت سے اٹے شہر اور قصبات ،بکھرتے سماج میں اونچی آواز میں shout (شور) کرنے والوں کو عام لوگ کبھی بھی اپنا نجات دہندہ تصور کرنے لگتے ہیں ۔بکھرتے سماج میں سرمائے کی آمد و رفت Movement of Capital کھلی نظر آتی ہے۔اندرونِ مُلک بھی اور بیرون ملک بھی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتے ہیں اور منافع باہر لے جاتے ہیں اور مقامی سرمایہ کار ان کے منافع کے حصہ دار بنے،وکیل بنے پھرتے ہیں۔
بکھرتے سماج میں ادب اور علم کا زوال اس قدر ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بونے،بڑے قدآور نظر آتے ہیں ۔بکھرتا سماج اپنی تباہی کا ذمہ دار بیرونی طاقتوں کو ٹہراتا ہے اور دعوے کرتے ہیں کہ ہم دنیا پر راج کرینگے ،بلکہ ہمیں پیدا ہی دنیا کی قیادت کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔وہموں وسوسوں مغالطوں اور مبالغوں میں رچا بسا سماج بری طرح بکھرا ہوا ہوتا ہے۔طوفان،بارشیں،سیلاب ،خشک سالی ان کے ہم وطنوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کردیتی ہے۔ایسے بکھرتے سماج کے پاس سوائے شور شرابے کے کوئی حل نہیں ہوتا۔پانی کی وافر مقدار عذاب،پانی کی قلت عذاب،دھوپ عذاب تو بادل بھی عذاب۔قدرتی نعمتیں بھی عذاب بن جاتی ہیں ۔ ایسے بکھرتے سماج میں کیونکہ بکھرا سماج،اجتماعی ترقی اور اجتماعی فکر و عمل سے دور ہوجاتا ہے،ہر کوئی اپنے لیئے جینے کی راہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔زیادہ سے زیادہ مبلغین یہ کہہ کر تسلیم تسلی دے دیتے ہیں کہ ہم عذاب ہے،اپنے گناہوں کا ۔بیرونی طاقتوں کے خوف کا شکار بکھرتا سماج در حقیقت اپنے ذمہ دارویوں سے عہدہ برآ ہونے سے کتراتا نہیں،بلکہ اس پر زور ڈالتا ہے کہ ہمارے اندر تمام خرابیوں اور ناکامیوں کے پیچھے بیرونی طاقتیں ہیں ۔اپنی نااہلیت اور اپنی ناکامی کا ذمہ دوسروں پر ڈالنا ،ایسے بکھرتے سماج کی نشانی ہوتے ہیں ۔اپنے تضادات اور نا اہلیوں کا شکار سماج ایسی ریاست سے زیادہ کربناک ہوتا ہے ،جو بکھر جائے،لیکن اپنی راکھ سے نئی ریاست کو جنم دیدے۔بکھرتے سماج میں استحصال کی تِہیں ہوتی ہیں ،اوپر سے نیچے تک استحصالی نظام کی تہیں اپنے سے کمزور کو اپنے تحت کرنے کا استحصالی نظام ۔ذرا توجہ دیں ،ایسے سماج آج کی جدید دنیا میں کہاں برپا ہیں؟جو ان بکھرتی قدروں سے اَٹے نظر آتے ہیں اور غور کریں وہ اپنی جہالت پر کس قدر تکبر کررہے ہیں۔