انٹرنیٹ پر ان دنوں کورونا وائرس کے بارے میں ڈھیروں معلومات شیئر کی جارہی ہے جس میں متعدد مشورے اور نسخے بھی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی معلومات پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے سے پرہیز کریں۔
تو آخر غلط معلومات کو پھیلنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟
ٹھہریے اور غور کیجیے
معلومات کو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک جلد از جلد پہنچانے اور ان کی مدد کرنے کی بے چینی قدرتی ہے۔
جب آپ کے پاس ای میل، واٹس ایپ، فیس بک یا ٹوئٹر پر کوئی پیغام آتا ہے تو آپ اسے اسی وقت فارورڈ کرنے یا آگے بھیجنے کی طلب محسوس کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا قدم ہونا چاہیے کہ اس پیغام کو اپنے پاس ہی رکھ کر سوچنا اور اگر اس میں کوئی غیر یقینی بات لگے تو اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور تجزیہ کریں۔
یہ بھی پڑھیے
ذریعہ کیا ہے؟
کسی بھی پیغام کو آگے بھیجنے سے پہلے اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ یہ پیغام کہاں سے آ رہا ہے؟
اگر پیغام بھیجنے والا کسی دوست کا دوست ہے یا کسی رشتہ دار کا جاننے والا ہے تو فوری طور پر معلومات کے درست ہونے پر یقین کر لینا ٹھیک نہیں۔
کہنے کا مطلب ہے کہ اگر آپ پیغام بھیجنے والے کو بہت نزدیک سے نہیں جانتے تو اعتبار مت کیجیے۔ کئی بار بہت تعلیم یافتہ افراد بھی غلط معلومات کو آگے بڑھانے یا وائرل کرنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
کئی بار اس میں سے کچھ معلومات صحیح ہوتی ہیں اور کچھ غلط۔ مثال کے طور پر ہاتھ دھونے سے وائرس کے پھیلاوٴ میں کمی آتی ہے، یہ بات صحیح ہے لیکن مرض کی تشخیص کے لیے سوشل میڈیا پر بتائے جانے والے متعدد طریقے غلط ہیں۔
برطانیہ کے فیکٹ چیک ادارے فُل فیکٹ کی ڈپٹی ایڈیٹر کلیری ملنے نے بتایا ’صحت کے عوامی ادروں کی جاب سے جاری کردہ معلومات سب سے زیادہ بھروسے کے لائق ہوتی ہیں۔’
ایسا نہیں ہے کہ ماہرین کو سب کچھ پتا ہے لیکن کسی دور دراز رشتہ دار یا کسی دوست کے دوست سے ملنے والی معلومات سے بہتر وہ ہے جو کوئی ماہر دے رہا ہو۔
کیا پیغام ’فیک’ یا جعلی ہو سکتا ہے؟
بظاہر کوئی بھی چیز دھوکا دے سکتی ہے۔ کسی معتبر ادارے کے اکاوٴنٹ کی نقل کرنا ممکن ہے۔
مثال کے طور پر بی بی سی نیوز یا حکومتی اداروں کے اکاوٴنٹس۔ کئی بار سکرین شاٹس دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ معلومات واقعی کسی معتبر ادارے سے آ رہی ہے لیکن جعلی سکرین شاٹس بنانا بھی ممکن ہے۔
ایسی صورت میں تصدیق شدہ اکاوٴنٹس اور ویب سائٹس پر معلومات حاصل کریں۔ اگر کسی پیغام سے متعلق معلومات آسانی سے حاصل نہ ہو سکے تو اس کی صداقت پر شک کرنا ضروری ہے۔
اگر کوئی ویڈیو، پوسٹ یا لنک گڑبڑ لگے تو ممکن ہے کہ وہ اصل میں ’فیک نیوز’ کا باعث ہو۔
کلیری کے بقول اگر کسی پیغام میں مختلف قسم کے فونٹ استعمال ہوئے ہوں تو وہ پیغام ممکنہ طور پر جعلی ہو سکتا ہے۔
صداقت پر شک ہو تو شیئر نہ کریں
کبھی بھی کسی پیغام کو یہ سوچ کر آگے نہ بھیجیں کہ وہ ممکنہ طور پر سچ ہو سکتا ہے۔ مشکوک پیغام کو آگے بھیج کر کے آپ فائدے کے بجائے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اگر آپ پوسٹ کو ایسی جگہ شیئر کر رہے ہیں جہاں طبی کارکنان اور ڈاکٹرز جیسے ماہرین موجود ہوں تو اس میں بری بات نہیں لیکن یہ یقینی بنائیں کہ آپ اپنے پوسٹ میں واضح کر دیں کہ آپ کو معلومات کے بارے میں کیا خدشات ہیں۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ جو تصویر یا پیغام شیئر کر ہے ہیں اسے بعد میں کسی اور جگہ کسی اور طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تمام معلومات کو انفرادی طور پر پرکھیں
واٹس ایپ پر ایک وائس نوٹ خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔ وائس نوٹ میں جس خاتون کی آواز سنائی دے رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص کے دوست کا مشورہ شیئر کر رہی ہیں جو ایک ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ یہ پیغام بی بی سی کو دنیا بھر سے بھیجا گیا ہے۔
اس پیغام میں دیے جانے والے مشوروں میں کچھ صحیح اور کچھ ایسے ہیں جنھیں درست ثابت کرنے کے کوئی سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں۔
جذباتی پیغاموں سے خبردار رہیں
بیشتر مواد ہمیں بے چین، افسردہ، خوش کرنے یا غصہ دلانے والا ہوتا ہے۔ ایسا مواد بہت آسانی سے وائرل ہو جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر غلط معلومات یا ’مس انفارمیشن’ سے نمٹنے میں صحافیوں کی مدد کرنے والے برطانوی ادارے فرسٹ ڈرافٹ سے وابستہ کلیری وارڈل نے بتایا ’غلط معلومات کو پھیلانے میں خوف سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے۔’
فوری طور پر اقدامات کی ضرورت کا احساس بے چینی بڑھاتا ہے۔
انھوں نے بتایا ’لوگ اپنے قریبی افراد کے تحفظ کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔ جب وہ وائرس سے نمٹنے کے طریقے جیسا کوئی پیغام دیکھتے ہیں، یا ایسا کوئی پیغام جو صحت یاب کرنے والی کسی چیز کے استعمال کا مشورہ دیتا ہو تو وہ فوری طور پر اس سے اپنے قریبی افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔’
جانبداری کے بارے میں سوچیں
کسی پیغام کو شیئر کرنے سے پہلے سوچیے کہ آپ اسے کیوں شیئر کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ اس پر متفق ہیں یا اس لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ وہ سچ ہے؟
برطانوی تھنک ٹینک ڈیموس کے سینٹر فاردا اینالیسس آف سوشل میڈیا کے ریسرچ ڈائریکٹر کارل ملر کہتے ہیں کہ ہم ایسے پیغام زیادہ آسانی سے شیئر کر دیتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات سے مشابہت رکھتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایسی صورت میں ہمیں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔