ادب اور جنس کا موضوع اس قدر متنوع اور ہشت پہلو ہے کہ ایک مختصر سے مضمون میں اس کا پوری طرح احاطہ کرنا ممکن نہیں، لہٰذا میں اس موضوع کے صرف دو پہلوؤں کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کروں گا۔ اول یہ کہ ادب کی تخلیق میں جنسی جذبہ کس طرح اور کس حد تک صرف ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ ادب میں “جنس” کی بطور موضوع کس حد تک گنجائش ہے ؟
پہلے سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا ہے کہ جنسی جذبہ زندگی کے تنوع اور تسلسل کے لیے ناگزیر ہے اور کسی نہ کسی صورت میں پودوں، حیوانوں، پرندوں اور انسانوں میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ جذبہ موجود نہ ہوتا تو زندگی اپنی ابتدائی سادہ صورت سے آگے بڑھ ہی نہ سکتی مگر دلچسپ بات یہ ہے جب سے جنسی جذبہ معرض وجود میں آیا ہے، وہ محض ایک ہی مخصوص ڈیزائن کا حامل نہیں رہا بلکہ زندگی کے مختلف مظاہر میں مختلف انداز اختیار کرتا چلا گیا ہے۔ مثلاً پودوں میں جنس زیادہ تر لامسہ کو بروئے کار لاتی ہے اور حیوانوں میں لامسہ کے علاوہ شامہ اور سامعہ کو بھی۔ انسان کے ہاں اس نے باقی حسیات سے بھی فائدہ اٹھایا ہے مگر اس کا زیادہ جھکاؤ باصرہ کی طرف ہے۔
اب اسی مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے، لامسہ کا میدان عمل بہت محدود ہے، یہاں تک کہ وہ طالب و مطلوب کی درمیانی خلیج کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شامہ کا دائرہ کار اس سے زیادہ وسیع ہے کہ اس کو بروئے کار لانے کے بعد جنسی جذبے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ سامعہ کا میدان عملاً اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ باصرہ کی لپک نہ صرف جنسی جذبے کی زد کو مزید بڑھا دیتی ہے بلکہ اس کی نوعیت تبدیل کرنے پر بھی قادر ہے۔ وہ یوں کہ باصرہ کے ذریعے جنسی جذبہ لذت کے فوری حصول سے صرف نظر کر کے حسن کے ادراک کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ حسن محض محبوب کے سراپا میں فطرت کے حسن ہی کا عکس نہیں، مثلاً محبوب کی چال میں غزال کا خرام اور اس کے عارض کی دمک میں گلاب کا رنگ وغیرہ بلکہ فطرت کے حسن میں محبوب کے جسم کے خطوط کا پرتو بھی ہے ، مثلاً وادی کی بانہیں، شفق کا عارض، سبزے کا گداز، بادل کا آنچل اور چاند کا چہرہ وغیرہ۔ محبوب کے جسم کو فطرت کے حوالے سے جانچنے یا فطرت کو محبوب کے جسم کے حوالے سے پہچاننے کی یہ روش جنسی جذبے کی قلب ماہیت ہی کی ایک صورت ہے۔
مگر جنسی جذبہ اپنی کثیف، بوجھل، دم روکنے والی حیثیت میں ادب کا جزو نہیں بن سکتا۔ ایسی صورت میں یہ جذبہ اس قدر اندھا، بہرہ اور براہ راست ہوتا ہے کہ جسم کے بندی خانے سے باہر آ کر خیال کی کائنات میں داخل ہونے کی صلاحیت ہی اس میں موجود نہیں ہوتی۔ ادب میں صرف ہونے کے لیے جنسی جذبے کا لطیف اور سبک بار ہونا نہایت ضروری ہے اور یہ بات جبھی ممکن ہے کہ طالب اور مطلوب کا درمیانی فاصلہ کم از کم اتنا ضرور ہو کہ اسے طے کرنے کے لیے جذبے کو زقند لگانی پڑے۔ اگر یہ فاصلہ موجود ہی نہیں تو جنسی جذبہ برقی رو کی طرح بآسانی ایک تار سے دوسرے تار میں منتقل ہو جائے گا اور اسے زقند لگانے کے لیے اپنے بوجھ سے دست کش ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ مگر جب درمیان میں فاصلہ حائل ہو تو پھر جنسی جذبہ مجبور ہے کہ باصرہ ایسی حس کو بروئے کار لائے جس کی زد نہایت وسیع ہے اور یوں خود کو کثافت اور بوجھ سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل کرے۔
چنانچہ حسن کا ادراک بجائے خود فاصلے کا رہین منت ہے۔ زیادہ قریب سے تو اپنا چہرہ بھی بھیانک نظر آتا ہے یا شاید نظر ہی نہیں آتا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے ہاں حسن کا شعور صرف اس لیے ممکن ہوا کہ اس نے جنسی جذبے کو بصری علامتوں میں ڈھال کر اس کی زد کو وسیع کر دیا۔ چنانچہ اب محبوب کا جسم پوری فطرت پر حاوی ہو گیا اور خود محبوب کے جسم میں فطرت کی جملہ قوسین، خطوط اور رنگ سمٹ آئے۔ مراد یہ نہیں کہ جنسی جذبہ ادبی تخلیق میں صرف ہونے کی صورت میں خود کو لمس یا خوشبو وغیرہ سے بیگانہ کر دیتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس ترسیل میں جملہ حسیات کو بروئے کار لاتا ہے۔ چنانچہ ادب پارے میں لمس، خوشبو اور آواز وغیرہ کی بھی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ تاہم چونکہ انسان کے ہاں باصرہ کا عمل دخل نسبتاً زیادہ ہے، اس لیے جب کوئی ادب پارہ حسن کا احاطہ کرتا ہے تو اس میں محبوب کے نین نقش کی تصویر، لمس، خوشبو اور آواز کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کے ہاں آنکھ اور دماغ کی نمود اور ترقی نے اس کے جنسی جذبے کی بصری صلاحیت کو زیادہ توانا کر دیا ہے۔
چنانچہ جب یہ جذبہ ادب میں منتقل ہوتا ہے تو زیادہ تر بصری علامات ہی میں خود کو ڈھال کر ایسا کرتا ہے مگر چونکہ ادب تخلیق کار کی پوری ذات کا عکس ہے لہٰذا جس ادیب کے ہاں جنسی جذبہ محض بصری نہ ہو بلکہ جملہ حسیات سے وابستہ نظر آئے ، اس کی تخلیق میں دوسروں کی نسبت زیادہ توانائی اور کاٹ نظر آئے گی مگر میں اس بات پر زور دوں گا کہ جنسی جذبہ اپنی کثیف صورت میں تخلیق کا جزو نہیں بنتا بلکہ ارفع اور سبک سار ہو کر ایسا کرتا ہے اور اپنے عمل میں بوجھل، دم روکنے والے عناصر کو لطیف کیفیات میں ڈھال دیتا ہے۔ مثلاً جسم برفاب یا انگارے میں اور اس کی خوشبو نافے یا گلاب کی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس کے خطوط اور زاویے فطرت کے انگنت مظاہر میں اپنی مماثلت ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
فن کی تفریح کے سلسلے میں لن یو تانگ نے ایک مزے دار بات کہی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب کوئی فاختہ اپنی ترنگ میں درخت کی شاخ سے اڑ کر آسمان کی طرف جاتی ہے اور پھر اپنے پروں کو پھیلا کر ایک قوس سی بناتی ہوئی واپس کسی دوسرے درخت پر آ بیٹھتی ہے تو دراصل فن کے طریق کار کا مظاہرہ کرتی ہے، کیوں کہ جو قوس فاختہ کی پرواز میں ہے ، وہی فن پارے کی لپک میں بھی ہے۔ اس میں مجھے صرف یہ اضافہ کرنا ہے کہ فاختہ جس قوس کو وجود میں لاتی ہے یا فن پارہ جس قوس کو جنم دیتا ہے، وہ ہمیں اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ اس کا نہایت گہرا تعلق جنسی جذبے سے ہے۔ یہ جنسی جذبہ فن پارے کی تکمیل یافتہ صورت ہی میں نہیں بلکہ اس کے اجزا میں بھی خود کو سمو دیتا ہے۔ چنانچہ فن پارے میں جو تشبیہیں یا استعارے ہوتے ہیں، ان کی توانائی اور زرخیزی بھی زیادہ تر اس بات کے تابع ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک ایسی تصویریں بناتے ہیں جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ جنسی جذبے کی سیرابی سے ہے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی جو تصویر جنسی جذبہ کو براہ راست مس کرتی ہے ، فنی طور پر اس تصویر سے کم تر ہوتی ہے جو جنسی جذبے کو سبک سار، لطیف اور ارفع ہونے پر مائل کرتی ہے اور جس کا بظاہر جنسی جذبے سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
واضح رہے کہ میں اس بات کا موئد ہرگز نہیں ہوں کہ ادب محض جنسی جذبے کے اظہار کی ایک صورت ہے ، کیوں کہ ادب میں جنسی جذبے کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے مثلاً اس میں ایک ایسی پراسرار قوت کا جزرومد بھی موجود ہے، جسے نشان زد تو نہیں کیا جا سکتا مگر جس کی موجودگی کا احساس بہت سے مفکرین کو بار بار ہوا ہے۔ برگساں نے اسے “قوت حیات” کا نام دیا ہے۔ البتہ یہ کہنا غلط نہیں کہ جہاں تک “تخلیق” کے جسم کا تعلق ہے، اس پر ہمیشہ جنسی جذبے کا تسلط نسبتاً زیادہ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جنسی جذبہ کا نہایت گہرا تعلق ہماری پانچوں حسیات سے ہے اور یہی حسیات ادب کی تخلیق میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ لہٰذا جب وہ ادب کی تخلیق میں کام کر رہی ہوتی ہیں تو جنسی جذبہ انھیں کے ذریعے ادب میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ادب کے جسم کی تعمیر کرنے لگتا ہے۔ مگر میں پھر یہ عرض کروں گا کہ اگر ادبی تخلیق کا جسم جنسی جذبے کی گراں بار اور کثیف صورت کو خود میں سمونے کا اہتمام کرے تو اس کا فنی معیار بلند نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف جب جنسی جذبہ علامتی روپ اختیار کر کے تخلیق میں حلول کرے گا تو تخلیق کی جاذبیت اور توانائی میں اضافے کا باعث ہو گا۔
اور اب دوسرا سوال یعنی یہ کہ ادب میں جنس کی بطور موضوع کس حد تک گنجائش ہے ؟ یہ ایک نہایت نزاعی سوال ہے اور اس کے جملہ پہلوؤں کو متعدد بار زیر بحث لایا جا چکا ہے۔ ایک طبقہ ادب میں جنس کو بطور موضوع شامل کرنے پر بضد ہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کی نکتہ چینی یا احتساب کو آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتا ہے، دوسرا طبقہ اخلاقی قدروں کو بے راہ روی اور جنسی اشتعال انگیزی سے محفوظ رکھنے کا داعی ہے اور اس سلسلے میں احتساب کو ضروری سمجھتا ہے۔ غرضیکہ ادب میں جنس کو بطور موضوع شامل کرنے کے سوال پر ایک عجیب ہنگامہ جاری ہے۔
اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ عریانی اور فحاشی میں حد فاصل قائم کر لی جائے۔ عریانی فطرت کا عطیہ ہے جب کہ فحاشی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ عریانی، باغ بہشت کے مکینوں کو بطور تحفہ عطا ہوئی لیکن فحاشی کے شجر ممنوعہ کو انھوں نے اپنی مرضی سے منتخب کیا۔ عجیب بات ہے کہ بیش تر جانوروں اور پرندوں کو فطرت نے لباس سے نوازا ہے جب کہ انسان کو ننگا رکھنے پر اصر ار کیا ہے۔ مگر یہ ننگاپن انسان کے لیے ایک نعمت خداوندی ثابت ہوا ہے کیوں کہ علم الانسان کے ماہرین کے مطابق اگر انسان ننگا نہ ہوتا تو اس کا دماغ کبھی اس قدر ترقی کر کے جانوروں کے دماغ پر سبقت حاصل نہ کر سکتا۔ وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ ننگا جسم زیادہ حساس ہوتا ہے اور معمولی سی خارجی تحریک یا لمس بھی اسے متاثر کر دیتا ہے۔ پھر جب جسم کا کوئی حصہ متاثر ہوتا ہے تو عصبی نظام اس کی خبر فی الفور دماغ کو بھجوادیتا ہے ، چنانچہ جب انسان کے ننگے جسم نے لاکھوں برس تک اپنی زود حسی کے باعث دماغ کو خبروں کے ایک لامتناہی سلسلے کی آماجگاہ بنائے رکھا تو قدرتی طور پر انسانی دماغ کے سکریٹریٹ میں بھی توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی اور یوں لاتعداد شعبے بالخصوص یادداشتوں کو تصویری فائلوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے شعبے معرض وجود میں آ گئے جن کے باعث دماغ میں ماضی اور مستقبل کے ابعاد بھی شامل ہوتے چلے گئے۔
مگر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عریانی فطرت کا عطیہ ہے اور اس لیے جب فن اس عطیے کو سمیٹتا ہے تو فنی ارتقا کے عمل کو سامنے لاتا ہے۔ اجنتا، ایلورا کی تصویریں یا مغربی مصوروں اور مجسمہ سازوں کے فن کے نمونے اس کے ثبوت میں پیش کیے جا سکتے ہیں، جب کہ دوسری طرف ہندوؤں کے ہاتھ متھن کی روایت کا وہ حصہ جس کے تحت جنوبی ہندوستان کے مندروں کی دیواروں پر جنسی اتصال کے مناظر پیش ہوئے ہیں، فحاشی کے تحت آتا ہے۔ عریانی جب فن میں ڈھل کر ایک انوکھی لطافت اور ملائمت کی حامل بنتی ہے تو جنسی جذبے کو تہذیب کے عمل کو یقینا دو چند کر دیتی ہے۔ دوسری طرف فحاشی ہزار بہاروں کے باوجود جنسی جذبے کو مشتعل کرتی ہے اور اسے زقند لگانے یا فاختہ کی طرح قوس میں پرواز کرنے کے عمل سے منع کر کے براہ راست جسم سے لطف اندوز ہونے کے عمل پر اکساتی ہے۔ عام زندگی میں دیکھیے کہ کسی دریا کے کنارے غسل کرتی ہوئی دوشیزہ عریاں تو کہلا سکتی ہے، فحش ہر گز نہیں۔ مگر بھرے بازار سے گذرتی ہوئی کوئی چلبلی حسینہ اپنے بھاری لبادے کے باوجود فحاشی کا نمونہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا فن کے ضمن میں اس بات کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے کہ کسی فن پارے میں عریانی کا عنصر کہاں تک اپنی لطافت اور رفعت کو قائم رکھ سکا ہے اور کس مقام پر عریانی نے اپنی معصومیت اور تقدس کو تج کر فحاشی کے میدان میں قدم رکھ لیا ہے۔
یہ سوال کہ فحاشی، اخلاق اور قانون کے نقطہ نظر سے کس حد تک گردن زدنی ہے، میرا موضوع ہرگز نہیں۔ وجہ یہ کہ اخلاقی قدریں اور قوانین، زمان و مکان کی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مجھے فحاشی پر یا فحاشی کی زد میں آئی ہوئی عریانی پر اعتراض فن کے نقطہ نظر سے ہے ، کیوں کہ جب کوئی ادب پارہ جنسی جذبے کی براہ راست سیرابی کا اہتمام کرتا ہے تو دراصل جنسی جذبے کی تہذیب کے عمل کو روکتا ہے اور فن سے قوس کو منہا کر دیتا ہے۔ اس بات کی توضیح اردو افسانے کے حوالے سے با آسانی ہو سکتی ہے۔ آج سے کافی عرصہ پہلے عصمت چغتائی نے لحاف اور منٹو نے ٹھنڈا گوشت لکھا۔ دونوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے چلائے گئے۔ اس زمانے میں ابھی اردو افسانے میں فحاشی کی ابتدا ہی ہوئی تھی، اس لیے نوجوان طبقے کو ان افسانوں نے چونکا دیا۔ دوسرے طرف ہمارے ناقدین نے ان فسانوں کے مصنفین کو آزادی اظہار کے نام پر مبارک باد تک پیش کر دی۔
مگر آج پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ فحاشی کے جس عنصر نے آج سے کافی عرصہ پہلے ہمارے قارئین کو چونکا دیا تھا، وہ آج کی بے پناہ جنسی اشتعال انگیزی کے موسم میں محض بچوں کا کھیل نظر آتا ہے۔ مراد یہ کہ آج مغرب سے آنے والی اخلاق باختگی کی رو نے فلم، بلیو فلم، ناول اور افسانے وغیرہ کے ذریعے فحاشی کی حدود کو اس قدر پھیلا دیا ہے اور اس میں اتنی تیزی اور تندی پیدا کر دی ہے کہ اب “لحاف” یا “ٹھنڈا گوشت” ایسے افسانے اس سلسلے کی محض چند مبتدیانہ کاوشیں دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا اب حل طلب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ افسانے فن کے میزان پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔ مگر جب فن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہاں بھی ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ افسانے کسی طور بھی فن کے اعلیٰ نمونوں میں شامل نہیں کیے جا سکتے۔ یہ مثال میرے اس موقف کو سہارا دیتی ہے کہ عام لوگوں کے لیے افسانے میں فحاشی کا عنصر اس وقت تک ہی جاذب نگاہ ہے جب تک فحاشی کا فیشن تبدیل نہیں ہو جاتا یا فحاشی مزید “فحش” نہیں ہو جاتی۔ لہٰذا، کیا افسانے کو کسی ایسی اساس (مثلاً فحش) پر استوار کرنا جو ریت کی دیوار سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہو، خطرہ مول لینے کے متراد ف نہیں، کیوں کہ آخری فیصلہ تو بہرحال فن کے نقطہ نظر ہی سے صادر ہوتا ہے۔
آج اردو ادب ہی نہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب میں بھی جنس کو بطور موضوع پیش کرنے کی روش عام ہو چکی ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے، اس کے لیے کوئی موضوع بھی نامناسب نہیں، مگر ادب اس بات کا تقاضا ضرور کرتا ہے کہ جب کوئی موضوع ادب میں داخل ہو تو اپنا پرانا بوجھل لبادہ اتار کر آئے ورنہ فن پارہ اسے قبول کر نے کے لیے تیار نہ ہو گا۔ بالکل جیسے انسانی جسم میں جب غلط قسم کا خون داخل کیا جائے تو وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ مگر دوسری طرف صورت یہ ہے کہ بیسویں صدی نے انسان کو جنسی طور پر مشتعل کر دیا ہے اور اس اشتعال انگیزی میں اس کی بصری صلاحیت بیک وقت ایک نعمت بھی ہے اور المیہ بھی۔ نعمت یوں کہ بصری قوت اسے نہ صرف اشیا کو فاصلے سے گرفت میں لینے اور یوں ایک وسیع تناظر کا احاطہ کرنے کے قابل بناتی ہے بلکہ انسان کے تخیل کو مہمیز لگا کر اس کی زد کو وسیع بھی کر دیتی ہے، اس حد تک وہ پوری کائنات کا احاطہ کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
المیہ یوں کہ باصرہ کی فوری تسکین کے ذرائع میسر ہونے کے بعد انسانی تخیل کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر فلم کی آمد نے انسان کے تخیل کے راستے میں رکاوٹ سی کھڑی کر دی ہے۔ جب پردہ فلم پر کوئی متحرک تصویر نظر آتی ہے تو ناظر کو اس بات کی فرصت ہی نہیں دیتی کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے تلازمات کا ساتھ دے سکے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فلم ناظر کو اس طور اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جیسے شمع پروانے کو اور وہ اس کے گرد ایک پابہ جولاں قیدی کی طرف طواف کرنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ فلم خود ہی فلم بین کو ساری تفاصیل دکھانے کا اہتمام کرتی ہے اور اس کے تخیل کو متحرک ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ جنسی موضوعات کے سلسلے میں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فلم بینی تخیل آفرینی کے بجائے ذہنی لذت کوشی کی صورت اختیار کر گئی ہے اور یوں جنسی جذبے کی براہ راست تسکین کے مواقع مہیا کر رہی ہے۔
اگر کوئی ادب پارہ خود کو فلم کی اس سطح تک محدود کرے اور اس اشاراتی یا علاماتی انداز کو اختیار کرنے کے بجائے جو تخیل سے ہمیشہ وابستہ رہا ہے، جنسی واقعے کو اس کی صاف اور سپاٹ صورت میں پیش کرنے لگے تو اس کی حیثیت بھی ذہنی لذت کوشی سے مختلف نہ ہوتی۔ آج آزادی اظہار کے نام پر ادب میں جنس کا موضوع جس سپاٹ اور براہ راست انداز میں داخل ہوا ہے، وہ فن کے تقاضوں کی صریحاً نفی ہے۔ مگر چونکہ بیسویں صدی میں جنسی موضوعات سے بصری طور پر لطف اندوز ہونے کا رجحان روز افزوں ہے، اس لیے ادب نے بھی (فلم کی طرح) جنسی مناظر کی فوٹوگرافی کا منصب اپنا لیا ہے نہ کہ تخیل آفرینی کا جو اس کا اصل منصب تھا۔ اس کا ایک کاروباری پہلو بھی ہے جس شے کی طلب ہو گی، اس کی رسد بھی اس نسبت سے ہو گی۔ بصری لذت کی طلب نے ادیب کو بھی فحش تصویریں پیش کرنے پر مائل کر دیا ہے تاکہ فوری طور پر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ بھی کیا جا سکے۔ مالی فائدہ بھی ہو اور خود اس کے لیے ذہنی لذت کوشی کا سامان بھی مہیا ہو جائے۔ لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ عریانی اور فحاشی میں حد فاصل قائم کرنی چاہیے، نیز یہ کہ ادب کے لیے جنس بطور موضوع “ٹابو” نہیں ، وہاں مجھے اس بات پر بھی اصرار ہے کہ جب ادب، فلم یا فوٹو گرافی کی سطح پر اتر کر حقیقت نگاری اور آزادی اظہار کے نام پر محض جنسی لذت کے حصول کی طرف مائل ہوتا ہے تو اپنے اس منصب سے دستبردار ہوتا ہے جو تخیل آفرینی اور معنی خیزی کی بنیاد پر ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔
[“تنقید اور مجلسی تنقید”، مکتبہ اردو زبان، سرگودھا، جنوری 1976]