کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں افراد اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تبدیلیاں عارضی ہوں گی۔ لیکن تاریخ میں بیماریوں کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں – خاندانوں کے زوال سے نوآبادیاتی نظام میں اضافے اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں بھی۔
14ویں صدی کی بلیک ڈیتھ اور مغربی یورپ کا عروج
1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔ جس کے باعث زمینداروں کے لیے مزدوری کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں سودے بازی کی طاقت زیادہ بڑھ گئی۔
لہٰذا یہ سوچ دم توڑنے لگی کہ لوگوں کو پرانے جاگیردارانہ نظام کے تحت کرایہ ادا کرنے کے لیے کسی مالک کی زمین پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس نے مغربی یورپ کو جدید، تجارتی، اور نقد پر مبنی معیشت کی طرف دھکیل دیا۔
جب لوگوں کو کام کے لیے ملازمت پر رکھنا مشکل ہو گیا تو کاروباری مالکان نے لوگوں کی ضرورت کو تبدیل کرنے کے لیے لیبر سیونگ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ یہاں تک کہ یہ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں کہ وبا پھیلنے کے بعد یورپی سامراج کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔ سمندری سفر اور مہم جوئی کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا تھا لیکن گھر میں طاعون کی وجہ سے موت کی شرح اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ طویل سفر پر جانے کے لئے زیادہ رضا مند ہونے لگے۔ اور اس سے یورپی نوآبادیات کو وسعت دینے میں مدد ملی۔ لہذا، معیشت کو جدید بنانے، ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور غیر ملکی توسیع کی حوصلہ افزائی سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں سے مغربی یورپ کو دنیا کے ایک طاقتور ترین خطے میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔.
امریکہ میں چیچک کی ہلاکتیں اور موسمیاتی تبدیلی
امریکہ کی 15ویں صدی کے آخر میں نوآبادیات نے اتنے لوگوں کو ہلاک کیا جو شاید دنیا کی آب و ہوا کو تبدیل کرنے کا باعث بنا ہو۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپی توسیع کے نتیجے میں اس خطے کی آبادی ایک سو سال میں صرف پانچ یا چھ ملین رہ گئی ہے۔ان میں سے بہت سی اموات نوآبادیاتی نظام کے علمبرداروں کی طرف سے متعارف کروائی جانے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوئیں۔ سب سے بڑا قاتل چیچک تھا۔ دیگر مہلک بیماریوں میں خسرہ ، انفلوئنزا، بوبونک طاعون، ملیریا، ڈیپتھیریا، ٹائفس اور ہیضہ شامل تھے۔ لیکن اس خطے میں جانوں کو تباہ کن نقصان اور خوفناک انسانی مصائب کے علاوہ، پوری دنیا کو اس کے نتائج بھگتنا پڑے۔
زندہ رہ جانے والے کم افراد کی تعداد کے باعث کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والی زمین کم ہو گئی اور جنگلات میں تبدیل ہونے لگی۔ فرانس یا کینیا جتنا بڑا خطہ جو کہ تقریباً پانچ لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا، تبدیل ہو گیا۔ پودوں اور درختوں کی اس زبردست نشوونما کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی واقع ہوئی اور اسی وجہ سے دنیا کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت بھی گر گیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کے ساتھ ہی بڑے آتش فشاں پھٹے اور شمسی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سےایک ایسا عرصہ شروع ہوا جسے “لٹل آئس ایج” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بد قسمتی سےسب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک یورپ تھا، جسے فصلوں میں شدید نقصان اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔.
زرد بخار اور ہیٹی کی فرانس کے خلاف بغاوت
ہیٹی میں پھیلنے والی وبا سے فرانس کو شمالی امریکہ سے باہر نکالنے میں مدد ملی ، اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے سائز اور طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اٹھارہ سو ایک میں یورپی سامراجی طاقتوں کے خلاف غلاموں کی طرف سے ہونے والی بغاوت کی تحریک کے بعد ٹوساں لو ویختےیو نے فرانس کے تعاون سے اپنی حکومت قائم کی۔بعد ازان فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے اسے زندگی بھر کے لئے گورنر مقرر کر دیا۔ اس نے جزیرے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے دباو کی غرض سے ہزاروں فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ میدان جنگ میں ، کم از کم ، وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔
اگرچہ اگرچہ زرد بخار کا اثر تباہ کن تھا ، اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا پچاس ہزار فوجی ، افسرا ، ڈاکٹر اور ملاح ہلاک ہوگئے تھے اور صرف تین ہزارمرد زندہ فرانس لوٹے تھے۔ افریقہ سے پھوٹنے والی اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی افواج کو میں کوئی قدرتی مدافعت موجود نہیں تھی ۔ اپنی فوجوں کی شکست اور بد نظمی دیکھ کر نپولین نے نہ صرف ہیٹی بلکہ شمالی امریکہ میں فرانس کے نوآبادیاتی عزائم کو بھی ترک کردیا تھا۔ ان کی افواج کے ہیٹی بغاوت کو کچلنے کے ناکام مشن کے آغاز کے صرف دو سال بعد ، فرانس کے رہنما نے 2.1 ملین مربع کلومیٹر اراضی امریکی حکومت کو بیچ ڈالی ، جسیے” لوزی اینا پرچیز” کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس فرخت کے بعد ملک کا سائز دوگنا بڑھ گیا تھا۔
افریقہ میں پایا جانے والا جانوروں کا طاعون اور افریقہ میں نو آبادیاتی توسیع
جانوروں کو متاثر کرنے والی ایک مہلک بیماری نے افریقہ میں یورپ کے نوآبادیات کو تیز کرنے میں مدد فراہم کی۔ یہ کوئی وبا نہیں تھی جس نے لوگوں کو براہ راست ہلاک کیا ، بلکہ ایک ایسی بیماری تھی جس نے جانوروں کو مار ڈالا۔ 1888 سے 1897 کے درمیان رینڈرپیسٹ وائرس ،جسے مویشیوں کے طاعون کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، نے افریقی مویشیوں کو نوے فیصد تک ہلاک کیا۔ یہ ہلاکتیں افریقہ ، مغربی افریقہ اور جنوب مغربی افریقہ کے ہورن کی کمیونٹیز میں ہوئیں جہاں اس نے تباہی مچا دی۔ مویشیوں کے نقصان سے افلاس ، معاشرے میں خرابی اور مہاجرین کے فرار ہونے کے کئی واقعات ہوئے۔ .
یہاں تک کہ فصلوں کے اگانے والے علاقوں پر بھی اثر پڑا ، کیونکہ بہت سے لوگوں نے زمین پر ہل چلانے کے لئے بیلوں پر انحصار کیا۔ اس بیماری کی وجہ سے افراتفری کے باعث یورپی ممالک کو انیسویں صدی کے آخر میں افریقہ کی بڑی آبادیاں آباد کرنا آسان ہوگیا۔ ان کے منصوبے رینڈرپسٹ یا جانوروں کے طاعوں کی وبا پھوٹنے سے چند سال قبل شروع ہوا تھا۔اٹھارہ سو چوراسی سے اٹھارہ سو پچاسی میں برلن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، پرتگال ، بیلجیئم اور اٹلی سمیت یورپ کے 14 ممالک نے افریقی علاقے پر اپنے دعوؤں پر بات چیت کی ، جس کو باقاعدہ شکل دے کر نقشہ سازی کردی گئی۔ براعظم پر اس کا اثر زلزلہ خیز تھا۔
اٹھارہ سو ستر کی دہائی میں ، افریقہ کا صرف دس فیصد حصہ یورپی کنٹرول میں تھا ، لیکن انیس سو تک یہ بڑھ کر نوے فیصد ہوچکا تھا۔ اور اس اراضی پر قبضہ رینڈرپسٹ پھیلنے کی وجہ سے افراتفری کی مدد سے ہوا۔ اٹلی نےاٹھارہ سو نوے کی دہائی کے اوائل میں اریٹیریا کا رخ کیا ۔ اقوام متحدہ کی افریقہ کی ایک تاریخ بیان کرتی ہے کہ کس طرح نو آبادیاتی نظام اس علاقے میں آیا جہاں پہلے ہی معاشی بحران تھا۔”.
چین میں طاعون اور منگ خاندان کا زوال
منگ خاندان نے تقریبا تین صدیوں تک چین پر حکومت کی ، اس دوران اس نے مشرقی ایشیاء کے ایک وسیع حصے پر بہت بڑا ثقافتی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم کیا۔ لیکن طاعون کی وباء کی وجہ سے یہ سب کچھ تباہ کن انجام تک پہنچا ۔سولہ سو اکتالیسں میں ایک وباء شمالی چین پہنچی ، جس سےکچھ علاقوں میں بیس سے چالیس فیصد کے درمیان آبادی ہلاک ہوگئی۔طاعوں اس وقت پھیلا جب خشک سالی اور ٹڈی دل کا بھے سامنا تھا۔ .
. کھیتوں میں فصلیں تباہ ہو گئیں، اور لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے وبا سے مرنے والے افراد کی لاشوں کو کھانا شروع کردیا تھا۔ یہ بحران شاید بوبونک طاعون اور ملیریا کے امتزاج کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمال سے آنے والے حملہ آور اپنے ساتھ لائے ہوں ، جو بالآخر عظیم منگ خاندان کو ختم کرنے کا سبب بنی۔
ڈاکوؤں کے حملوں کے بعد کنگ راج کی طرف سے منچوریا کی جانب سے منظم یلغار ہوئی ، جس نے بعد میں منگ خاندان کی جگہ لے لی، اور اپنی وہ سلطنت قائم کرلی جو صدیوں تک جاری رہی۔ اس وقت کی منگ قیادت میں بہت سے ایسے معاملات تھے جن میں بدعنوانی اور قحط بھی شامل تھا ،لیکن یہ مہلک بیماری انکے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔