نگانی سر۔ شاعر عطا شاد کا آبائی گاؤں۔ تربت سٹی سے ملحقہ علاقہ۔ مگر اس علاقے سے اچھی خبریں نہیں آتیں۔ ناپسندیدہ علاقہ قرار پایا ہے بھلا وہ کیوں۔ لفظِ منشیات سے جڑا ہوا ہے اس لیے۔ ایک عجیب سے بے کیفی ہے روح پر طاری ہے یہ لاتعلقی کا مظہر ہی تو ہے کہ ذہنوں پر پردے گرائے رہتے ہیں۔ چیزیں اپنانے سے ٹھیک ہوتی ہیں منہ موڑنے سے نہیں۔ خیر۔ اچھی خبر یہ ہے کہ جو ٹیگ سنگانی سر کو لگا دیا گیا ہے۔ چند نوجوان اس سے بالاتر ہو کر بلند حوصلوں کے ساتھ اس ٹیگ کو مٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔
لاتعلقی کی اس خلا کو یہ نوجوان شعور و آگاہی سے پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 150 بچے اور بچیاں کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان خود بھی علم حاصل کر رہے ہیں اور اس علم کو سیکنڈ ٹائم ان بچوں کے درمیان بانٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو سکول کے نظام سے دور ہیں۔ درین آرگنائزیشن کے چھتری تلے یہ تربیت گاہ آنے والے وقتوں میں مثبت ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔ ذمہ داریوں کا یہ پیمانہ دیکھ کر دل ہی دل میں دعا نکل آئی شاد رہیں آباد رہیں یونہی علم بانٹتے رہیں۔
ہم نے ڈاکٹر بدل خان اور ڈاکٹر امیربخش کا علاقہ ہیرونک دیکھنا تھا وقت کی قلت نے اس کے دیدار سے ہمیں قاصر کیا۔ البتہ ہم شیردل غیب اور امجد بلوچ کا علاقہ شاپک ضرور دیکھ آئے۔ شیر دل غیب کی شانتی نگر کو ہم ضرور دیکھ پائے مگر لاکھ کوششوں کے باوجود غیب کو اپنی نظروں سے اوجھل پایا۔ البتہ امجد بلوچ کا دیدار ضرور ہوپایا۔ امجد بلوچ طویل عرصے تک کوئٹہ میں رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم سے ماسٹر کیا۔ انگریزی اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے۔
گھر سے دوری برداشت نہیں کرپائے۔ ہمارا یہ دوست شادی شدہ ہو کر اب مکمل طور پر سری گونکی شاپک میں قیام پزیر ہو گیا ہے اور علم پھیلانے میں مصروف عمل ہے۔ بڑے بھائی راشد بلوچ کے ساتھ مل کر ایک پرائیوٹ سکول چلا رہا ہے۔ سکول میں 150 کے آس پاس بچے زیر تعلیم ہیں۔ درس و تدریس اور زمین سے جڑا دیکھ کر اس دوست کی دوستی پر ناز بھر آیا۔ کیچ کی سرزمین سے جڑے افراد حصول تعلیم کے بعد اپنی زمین سے جڑ جاتے ہیں یہی چیز انہیں ممتاز بنا دیتی ہے جو آنے والی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں راستہ فراہم کر رہے ہیں۔
البتہ راشد بلوچ ڈاکٹر برادری سے شکوہ کناں ضرور ہے کہ وہ علاقے سے معالج کی پوزیشن تو اٹھاتے ہیں مگر علاقے میں رہ کر خدمت کی انجام دہی ان کی ترجیح نہیں رہتی۔ جس کا خمیازہ یہاں کی غریب آبادی کو وسیع پیمانے کے اخرجات کی ادائیگی صورت میں بھگت کر ادا کرنا پڑتا ہے۔ بہرکیف یہ المیہ صرف کیچ کا نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا ہے۔
کیچ آئے ہو اور کوہِ مراد کی زیارت آپ سے رہ جائے یہ ہو نہیں سکتا ہم کوہِ مراد کی طرف نکل آئے۔ کوہِ مراد ذکری کمیونٹی کی عبادت کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ستائیسویں رمضان کی شب کو خصوصی عبادت ادا کرنے اور روحانی سکون کے حصول کے لیے بلوچستان بھر اور سندھ کے مختلف علاقوں سے زائرین کوہِ مراد کی طرف چلے آتے ہیں۔ ستائیسویں رمضان کی شب کو یہ چوگان اور حمد و ثنا کرتے ہیں۔ پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ گئے دنوں میں عبادت کے حصول کے لیے کوہِ مراد تک آنے کے لیے زائرین پیدل مسافت کا سہارا لیتے تھے۔
مگر اب ٹرانسپورٹیشن کا سہارا لیتے ہیں البتہ عقیدت مندوں کی ایک قلیل تعداد اب بھی پیدل مسافت پہ یقین رکھ کر پیدل چل کر کوہِ مراد آنے کو ترجیح دیتا ہے۔ مہدی کے پیروکار ہیں۔ ان کے خیال میں مہدی کا ظہور کوہِ مراد پہ ہوا تھا۔ بعض انہیں جونپوری اور ملا اٹکی سے جوڑتے ہیں۔ جبکہ بعض کے خیال میں مہدی کا ظہور آنے والے وقتوں میں یہیں پر ہو گا اور وہ ان کے امام کہلائیں گے۔
ہم کوہِ مراد کے ایریا میں داخل ہو چکے تھے۔ کوہِ مراد کو ہم نے ایک بہت بڑی آبادی کے حصار میں پایا۔ شریکِ سفر کے مطابق اس ایریا میں فقط عارضی طور پر وقت گزارنے کے لیے فقط جونپڑی بنانے کی اجازت تھی گھر بنانے کی ممانعت تھی۔ بعد میں لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کر گئے جو یہاں کے لیے منتظمین نے متعین کیا ہوا تھا۔ اس ایریا کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے زیارت کمیٹی وجود رکھتا ہے جس کی سربراہی ملا برکت کرتے ہیں۔
آبادی کو کوہِ مراد سے ایک ندی الگ کرتا ہے۔ ندی ”شیریں دوکرم“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ندی کو پار کرنے کے بعد ایک چڑھائی آتا ہے۔ پھر کوہِ مراد کا حدود شروع ہو جاتا ہے۔ باؤنڈری وال سے کوہ مراد کی چھوٹی کا فاصلہ 1000 میٹر بتایا جاتا ہے وہاں تک یہ فاصلہ ہم نے چپل اتار کر طے کیا۔ پہاڑی تک کا سفر جب ہم طے کر رہے تھے تو پتھریلے زمین کی وجہ سے مجھے پاؤں میں سخت چھبن محسوس ہورہی تھی۔ زائرین کی آسانی کے لیے راستے کو ہموار کیوں نہیں کیا جاتا؟
میرا سوال نعیم شاد سے تھا۔ ”اس لیے کہ اس میں مصنوعی پن آجائے گا۔ اور وہ جو ایک روحانی کنکشن پیدل چلتے ہوئے محسوس ہوتی ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ لوگ جب عبادت کے لیے آتے ہیں تو وہ زمینی صورتحال سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ایک روحانیت ان پر طاری ہوجاتی ہے۔ “ پہاڑی کے نیچے مختلف نقوش بنے ہوئے ہیں۔ جہاں سے گزرتے ہوئے لوگ اس حوض تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پینے کا پانی جمع رہتا ہے۔ البتہ پانی کو ہم نے بہت زیادہ ہی میلا پایا۔ پہاڑی کے اوپر چڑھ کرعقیدت مند اس مقام کی طواف کرتے ہیں جہاں ان کے خیال میں نور کا ظہور ہوا تھا۔
آبادی کے اندر مرد اور عورتوں کے لیے دو الگ الگ عبادت گاہیں بنی ہوئی ہیں جو ذگر خانہ کہلاتے ہیں۔ تاہم زیارت کے لیے آنے والوں کی جو تعداد ہمیں بتائی گئی اس تعداد کو جگہ فراہم کرنے کے لیے اس زمین کو ہم نے بہت مختصر پایا۔ عقیدت مندوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے عبادت گاہ کے اندر ایک لنگر خانہ بنا ہوا پایا۔ وہاں موجود ایک فرد نے ہمیں بتایا کہ جگہ کی کمی کے باعث کئی بار لنگر کو ہٹانے کی بات سامنے آئی تاہم ذکری پیشواؤں نے یہ کہہ کر ہٹانے سے منع کیا تھاکہ خواب میں ان کے آیا تھا کہ اس لنگرخانہ کو یہیں رہنے دیا جائے۔
عقیدت مندوں کے لیے جگہ جگہ جھونپڑے بنے ہوئے نظر آئے۔ تاہم غسل خانوں کی قلت اور کچرے کے ڈھیر نے صفائی کے نظام پر سوالات ضرور اٹھائے۔ قربانی کے لیے ایک جگہ مختص تھا۔ ”بر کہور“ کا ذکر ہم مبارک قاضی کی شاعری میں سنتے چلے آرہے تھے۔ اسے عبادت گاہ کے ساتھ ہی پایا۔ ذگرانہ کے اندر ہم نے ان کی مذہبی کتابوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہمیں نظر نہیں آئیں البتہ قرآن مجید کو ہم نے کثیر تعداد میں پایا۔
ذگرخانہ سے آگے ایک اور پہاڑی آتی ہے۔ جس پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں سیڑھیوں کو ماربل ٹائل سے آراستہ کیا جا رہا تھا۔ جس پر چڑھ کر ایک مختصر سا قیام گاہ آتا ہے جو سول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہاڑی کے اوپر چڑھ کر ہم نے چاروں اطراف نگاہیں دوڑائیں تو ہم نے کوہِ مراد کو پرسکون پایا۔