کورونا وائرس کا آخری شکار کون سا ملک بنے گا؟


تین ماہ پہلے تک کورونا وائرس صرف چین تک محدود تھا اور چین سے باہر اس وائرس کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔
مگر جلد ہی یہ وائرس عالمی مسئلہ بن گیا۔
جاپان، جنوبی کوریا اور امریکہ سے پہلے تھائی لینڈ میں کورونا کا ایک کیس سامنے آیا۔ اور پھر دنیا بھر میں متاثرین کی بھرمار ہو گئی۔ اب دنیا میں نیپال سے لے نیکاراگوا تک کورونا وائرس کے دس لاکھ سے زیادہ متاثرین موجود ہیں۔
لیکن جیسا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہسپتالوں میں رش بڑھ گیا ہے تو کیا اب بھی کوئی ایسی جگہ موجود ہے جہاں کورونا وائرس نہیں پہنچا؟
حیرت انگیز طور پر شاید اس کا جواب ’ہاں‘ ہے۔
اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 193 ہے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق دو اپریل تک دنیا میں 18 ممالک ایسے تھے جہاں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ نہیں ہوئے تھے۔

Presentational grey line

کورونا وائرس سے پاک 18 ممالک
کوموروس، کیریباتی، مارشل آئزلینڈ، ماکرونیشیا، شمالی کوریا، پالاؤ، سموا، ساؤ ٹوم، پرنسپ، سولومون آئزلینڈ، جنوبی سوڈان، تاجکستان، ٹونگا، ترکمانستان، تووالو، وانواتو اور یمن۔

Presentational grey line

کچھ ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شمالی کوریا میں ممکنہ طور پر غیر رپورٹ شدہ متاثرین موجود ہوں۔ جنگ زدہ ملک یمن کی طرح شمالی کوریا میں بھی سرکاری سطح پر کورونا کیسز کی تعداد صفر بتائی جاتی ہے۔
لیکن کچھ ممالک ہیں جہاں ابھی یہ وائرس نہیں پہنچا۔ ان میں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں کم ہی لوگ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی 10 ایسی جگہوں، جہاں بہت کم لوگ جاتے ہیں، میں سے سات ایسی ہیں جہاں کورونا وائرس ابھی تک نہیں پہنچا۔

کورونا


کورونا

آج سماجی دوری کے اصولوں کے درمیان ان جزیروں میں بسنے والی قومیں خود ہی ذاتی طور پر الگ تھلگ رہنا پسند کرتی ہیں۔
بحیرہ اوقیانوس میں نورو نامی علاقہ بھی ہے جو کہ بانابا نامی جزیرے سے 320 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس علاقے کا قریب ترین شہر برزبن ہے جو کہ اس کے جنوب میں 2500 میل کے فاصلے پر ہے اور وہاں براہ راست فلائیٹ جاتی ہے۔
یہ اقوام متحدہ کی فہرست میں دوسرا سب سے چھوٹا جزیرا نما ہے۔ یہاں کی آبادی فقط 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
یہ بھی کرہ ارض کی ان جگہوں میں شامل ہے جہاں بہت کم لوگ جاتے ہیں۔ وہاں کے ایک ٹور آپریٹر نے بتایا کہ ان کے ملک میں ہر سال فقط 160 سیاح آتے ہیں۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ دور دراز کی اس جگہ کے لوگوں کو مزید دوری کی ضرورت نہیں ہے؟
لیکن ایک ایسا ملک جہاں صرف ایک ہی ہسپتال ہو اور کوئی بھی وینٹیلیٹر نہ ہو اور نرسوں کی کمی ہو وہ اس قسم کے چانس نہیں لے سکتا۔ اب تک اس علاقے کی انتظامیہ نے کورونا سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے ہیں۔
  • دو مارچ کو چین، جنوبی کوریا اور اٹلی سے آنے والے مسافروں کے یہاں آنے پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ پانچ دن بعد ایران کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا
  • مارچ کے وسط میں نورو ائیر لائنز نے فجی، کریباتی اور مارشل کے جزیروں کو جانے والی اپنی فلائٹس معطل کر دیں۔اب صرف برزبن ہی واحد راستہ تھا اور وہاں کی فلائٹس کو بھی ہفتے میں تین کے بجائے ایک مرتبہ کے لیے کر دیا گیا
  • اس کے بعد وہاں کی حکومت نے آسٹریلیا سے واپس آنے والے اپنے شہریوں کو مقامی ہوٹلوں میں 14 دنوں کے قرنطینہ میں رہنے کا حکم سنایا
نورو کے صدر لایونل اینگیمیا کا کہنا ہے کہ قرنطینہ کی اس پالیسی کو ’پکڑو اور روکو‘ کہا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم معاملات کو سرحدوں پر ہی محدود کر رہے ہیں۔‘
جو لوگ قرنطینہ میں ہیں ان کی روزانہ جانچ ہوتی ہے۔ جب کسی کو بخار ہو جاتا ہے تو اسے کووِڈ 19 کی مزید جانچ کے لیے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ تمام ٹیسٹ آسٹریلیا بھیجے جاتے ہیں تاہم اب تک تمام رپورٹس منفی ہی آئی ہیں۔

شمالی کوریاتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionجنگ زدہ ملک یمن کی طرح شمالی کوریا میں بھی سرکاری سطح پر کورونا کیسز کی تعداد صفر بتائی جاتی ہے

صدر کا کہنا ہے کہ بحران میں زندگی گزارنے کے باوجود عام شہری ’پرسکون اور متحد‘ ہیں۔ صدر دوسرے ممالک بشمول آسٹریلیا اور تائیوان کی حمایت کے مشکور و ممنون ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک نے ان کے ملک کی کافی مدد کی ہے۔
انھوں نے کہا جب ہم نے ’پکڑو اور محدود کرو‘ کی پالیسی پر عمل کیا تو میں خدا سے رجوع کیا۔ خدا نے مجھے ایک صحیفہ دیا، جو کہ چند آیات ہیں جنھیں میں نے یاد کر لیا۔ یہ آیات ہمیں موجودہ دور، جسے بائبل میں ’موت کی وادی‘ کہا گیا ہے، سے گزرنے میں تقویت پہنچاتی ہیں۔
جہاں وہ نارو میں کووڈ-19 کے کیسز کو صفر رکھنے میں کامیاب ہیں وہاں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کے باقی ممالک ان کے ملک جتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب بھی ہم کووڈ 19 کے نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں خسرے کی وبا پھوٹ پڑی ہے، نقشے پر ہر جگہ سرخ نقطے نظر آتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اسی لیے ایک قوم کے طور پر ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں۔۔۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری دعائيں اس مشکل وقت میں تمام دنیا کے ممالک کے حق میں بہتر ثابت ہوں گی۔‘
صرف نارو ہی بحر الکاہل کا چھوٹا سا ملک نہیں ہے جس نے قومی ایمرجنسی کا اعلان کر رکھا ہے بلکہ ٹونگا، وانوتو اور چند دوسرے ممالک نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ جنوبی بحرالکاہل میں نیو کے ڈاکٹر کالن ٹوکیوٹونگا کا کہنا ہے کہ یہ درست پالیسی ہے۔
انھوں نے نیوزی لینڈ سے ہمیں بتایا کہ ’بلاشبہ بہترین چارہ یہ ہے کہ اس خونی چیز کو باہر ہی رکھا جائے۔ کیونکہ اگر یہ اندر آ گئی تو پھر آپ واقعی پھنس گئے۔‘
ڈاکٹر ٹوکیوٹونگا عوامی صحت عامہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کے سابق کمشنر بھی ہیں اور اب وہ آکلینڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں ایسوسی ایٹ ڈین ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان مقامات پر صحت کا نظام مضبوط نہیں ہے۔ ’وہ (ملک) چھوٹے ہیں، کمزور ہیں، اور بہت سی جگہ وینٹیلیٹر نہیں ہیں۔ اگر وبا پھیلتی ہے تو یہاں سے آبادی ختم ہو جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ بحر الکاہل کے بہت سے جزائر میں رہنے والوں کی صحت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ ’یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں میں ذیابیطس کی شرح اور دل اور سینے کی بیماریاں زیادہ ہیں۔ اور پہلے سے درپیش یہ حالات کسی بھی وائرس سے زیادہ سنگین ہیں۔‘
’اگر کسی بھی چھوٹے پیسفک ملک میں وبا پھیلتی ہے تو انھیں اپنے مریضوں کو بیرون ملک بھیجنا ہو گا۔ لیکن ایسے میں جب دوسرے ممالک اپنی سرحدیں بند کر رہے ہیں تو یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔‘
اس لیے ڈاکٹر ٹونگا کہتے ہیں کہ ان کے لیے بہترین یہی ہے کہ وہ جب تک ہو سکے ملک میں کیسز کی تعداد صفر رکھی جائے۔
ایک بڑے سمندر کے گرد چھوٹی آبادیوں کی تنہائی، جو ہمیشہ ان کے لیے مسئلہ ہوا کرتی تھی آج وہی ان کے لیے تحفظ کا باعث بن رہی ہے۔
بہت کم تعداد میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کی زمینی سرحدیں بھی ہیں تاہم وہ کورونا وائرس سے بچے ہوئے ہیں۔
جمعرات کو مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں پہلا کیس سامنے آیا ہے، ملاوی کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ ہے۔ اس ایک کیس نے وہاں کی حکومت کو وبا سے نمٹنے کے لیے تیار کر دیا ہے۔

نوروتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionنورو

ملک نے ریاستی سطح پر ہنگامی صورتحال کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے، تمام سکول بند ہیں اور 20 مارچ سے قبل جاری کیے جانے والے تمام ویزے مسوخ کر دیے گئے ہیں۔
لیور پول کے ٹراپیکل میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر میکفرسن ملاوی میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملاوی حکومت سکریننگ میں اضافہ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک دو ہفتے تک ہمیں تیار رہنا ہو گا کیونکہ یہ وقت انتہائی اہم ہے۔‘ ڈاکٹر میکفرسن کو پورا یقین ہے کہ ملاوی حکومت اس صورتحال سے نمٹ لے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم گذشتہ 30 برسوں کے دوران ایڈز اور ٹی بی کی وبا سے بہت متاثر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ملاوی میں بنیادی صحت کے نظام کا ڈھانچہ کافی مضبوط اور متاثر کن ہے جبکہ وہاں ضلعی سطح پر بہت سے صحت کے پروگرام پہلے ہی سے چل رہے ہیں۔
ڈاکٹر میکفرسن کا کہنا ہے کہ شواہد بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس ہر ملک میں آئے گا۔ اور اگر یہ ملاوی نہیں ہے تو وہ کون سا ملک ہوگا جو کہ دنیا کا آخری ملک ہو گا؟
یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹم میں وبائی امراض کے پروفیسر اینڈی ٹیمٹم کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر یہ جنوبی بحرالکاہل کے بہت ہی چھوٹے اور دور دراز کے جزائر ہوں گے۔ میں اس پر شرط لگا سکتا ہوں۔ لیکن اس گلوبل ویلیج میں میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کوئی بھی جگہ اس وائرس سے بچ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ نارو میں جس طرح لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے وہ کامیاب ہو سکتا ہے لیکن اسے ہمیشہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’زیادہ تر ایسے ممالک کو بیرونی دنیا سے کچھ نہ کچھ درآمد کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ خوراک ہو یا دوسرا سامانِ تجارت یا پھر سیاحت۔ یہ ممکن ہے کہ وہ مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر لیں لیکن یہ نقصان دہ ہوگا اور انھیں بالآخر اپنی سرحدیں کھولنا ہوں گی۔‘
اس کے ساتھ ہی وہ متنبہ کرتے ہیں کورونا وائرس کو ابھی اپنی بلند ترین سطح تک پہنچنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بیشتر حکومتوں نے لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اسی لیے ہماری بڑی آبادی اس سے اب تک بچی ہوئی ہے۔
’یہ صحت کے نظام کے لیے اچھی بات ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اس کی زد میں آنے والے بہت سے لوگ ہیں۔ ہمیں اس وائرس کے ساتھ خاصے عرصے تک رہنا پڑ سکتا ہے۔‘