فروری 2011ء میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک مشتعل ہجوم نے سی بی ایس کی خاتون رپورٹر لارا لوگن کو کھلے عام بدترین جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ اب پہلی بار لارا لوگن اس معاملے پر بول پڑی ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والی سفاکیت کی کہانی دنیا کو سنا دی ہے۔
میل آن لائن کے مطابق لارا لوگن نے بتایا ہے کہ وہ مصری صدر حسنی مبارک کے استعفے کی کوریج کرنے کے لیے قاہرہ میں موجود تھی۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی تھیں کہ سڑک پر ایک مشتعل ہجوم، جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے، انہوں نے اسے پکڑ کر اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
لارا کا کہنا تھا کہ مجھے یہ امریکہ کا حامی گروہ لگ رہا تھا ۔ میرے ساتھ میرا مترجم میں بھی موجود تھا۔ وہ تھوڑے فاصلے پر تھا۔ اچانک وہ میرے پاس آیا۔ اس کے چہرے پر خوف سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آتے ہی اس نے چیخ کر مجھ سے کہا ’بھاگو، بھاگو۔‘ لیکن تب تک وہ لوگ مجھے گھیر چکے تھے۔ لارا لوگن نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بتایا کہ وہ درندے ہاتھ اورجھنڈوں کے ڈنڈے ان کے جسم میں داخل کرتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ قاہرہ کے تحریر سکوائر میں عرب بہار کے دوران پیش آیا تھا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ حسنی مبارک کے استعفے کے لیے احتجاج کر رہے تھے اور اس روز استعفیٰ آ جانے پر جشن منا رہے تھے۔
لارا نے بتایا کہ ”میرے ساتھ اس سلوک میں ایک وقت ایسا آیا کہ میں ہمت ہار گئی اور مجھے لگا کہ اب میری موت یقینی ہے لیکن پھر مجھے اپنے دو بچوں کا خیال آیا اور میں نے خود سے کہا کہ مجھے ان کے لیے زندہ رہنا ہو گا۔ میں نہیں جانتی کہ کتنے لوگ میرے اوپر چڑھ بیٹھے تھے۔ میرے سینے پر اتنا وزن تھا کہ سانس لینا مشکل تھا۔ وہ لوگ میرے اعضاء نوچ کر جسم سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ لوگ ایسے لڑ رہے تھے جیسے ان میں سے ہر ایک کو میرے جسم کا ایک ٹکڑا چاہیے ہو۔ بہت دیر تک وہ لوگ میرے ساتھ یہ حیوانیت کرتے رہے اور پھر اسی کھنیچا تانی میں نجانے کیسے میں اس حصے میں جا گری جہاں خواتین اور بچے تھے اور ان لوگوں نے مجھے بچا لیا۔
میں اس حصے میں جا کر ایک خاتون کی گود میں گری تھی۔ میں برہنہ تھی اور میرے اوسان خطا تھے۔ وہ لوگ پھر میری طرف لپکے لیکن کچھ لڑکے میرے اور ان لوگوں کے درمیان آ کھڑے ہوئے۔ نجانے کس نے کپڑے میری طرف پھینکے اور ایک مصری خاتون نے مجھے جسم ڈھانپنے میں مدد دی۔“
واضح رہے کہ لارا لوگن 2002 سے 2018ء تک سی بی ایس کے ساتھ منسلک رہیں اور اب وہ فوکس نیوز سے وابستہ ہو چکی ہیں۔