”عالمی وبا کوویڈ 19“ ، جسے ”کرونا وائرس وبائی مرض“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس بیماری کا پہلا کیس آج سے چھ ماہ قبل، دسمبر 2019 ءمیں چائنہ کے شہر ووہان میں رپورٹ ہوا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے نا صرف چائنہ کو بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبائی مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لئے پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں لوگ گھروں میں رہ رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن پہلے سے موجود زہریلے معاشرتی اصولوں اور صنفی عدم مساوات، وبائی امراض کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی دباؤ، محدود نقل و حرکت اور معاشرتی تنہائی کے اقدامات کے ساتھ، خواتین پہ تشدد کے معاملات میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
بہت سی خواتین معاونت خدمات سے منقطع ہونے کے دوران گھر میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں کے ساتھ ”لاک ڈاؤن“ میں ہیں۔ اس وبائی مرض نے تشدد اور زیادتی کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے درپیش آنے والی مشکلات کا سب غصہ مرد اپنی بیویوں پر تشدد کی صورت میں نکال رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق، دنیا بھر میں تین میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں کسی نا کسی وقت گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عالمی سطح پر بھی لاک ڈاؤن لازمی اقدامات کے دوران گھریلو تشدد میں ہونے والے اضافے نے نا صرف ڈبلیو ایچ او کو اس کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس وبائی مرض کے دوران ”حکومتوں کو خواتین کی حفاظت کو بھی اولین ترجیح دینے“ پر زور دیا۔
پاکستان میں تو لاک ڈاؤن سے پہلے بھی خواتین کو آئے دن گھروں میں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (ڈی ایچ ایس) ( 2017۔ 18 ) کے مطابق، پاکستان میں 56 فیصد خواتین نے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے، اور نا صرف یہ بلکہ، انھوں نے کسی سے مدد کا مطالبہ بھی نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی سے تشدد کے خلاف مزاحمت یا روکنے کے بارے میں بات کی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جو عورتیں ازدواجی زیادتی کی اطلاع دیتی ہیں یا قانونی ازالہ کرتی ہیں ان کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں، اگرچہ باضابطہ طور پر تو کچھ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے، لیکن (پی ڈی ایچ ایس ) کے مطابق سرکاری ریکارڈ، ”پری کرونا وائرس“ سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی 28 فیصد خواتین / لڑکیوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 3 فیصد نے تشدد کی وجہ سے اسقاط حمل، اسقاط حمل یا دیگر صحت سے متعلق دشواریوں کا سامنا کیا ہے۔ عام قسم کی چوٹوں، کٹوتی، چوٹ کا درد 22 فیصد اور آنکھوں کی چوٹیں، موچ، جلنے کے 12 فیصد کیس سامنے آئے ہیں۔ گہرے زخموں، ٹوٹی ہڈیوں اور ٹوٹے ہوئے دانتوں کو شامل کرنے کے لئے سنگین چوٹوں کی اطلاع 6 فیصد بتائی گئی ہے۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دوران لاک ڈاؤن خواتین کو کس قدر نا قدری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا۔ نا صرف عورتوں پہ ہونے والے تشدد کے واقعات بلکہ، بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے کیسز بھی عام حالات کی طرح آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
عام حالات میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے باعث متاثر ہونے والی خواتین تک رسائی خاصی مشکل ہے۔ جسمانی زیادتی کے لئے طبی امداد کی ضرورت پڑنے پر ہسپتال جانے سے گریز کیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور گھر میں رہنے کے علاوہ دوسری راہ نہیں ہے۔ گھریلو زیادتیوں کو آج بھی ایک ذاتی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ ہمارا معاشرتی نظام ہے جہاں گھریلو زیادتیوں پر آواز اٹھانے اور اس کے لئے کسی قسم کے قانونی اقدام کو نامناسب سمجھا جاتا ہے وہاں لاک ڈاؤن کے باعث ویسے بھی تھانوں اور عدالتوں تک رسائی مشکل ہے۔
میری حکومت سے گزارش ہے کہ حکومت کو بڑھتی غربت و بے روزگاری، گرتی معیشت جیسے دیگر معاملات کہ ساتھ ساتھ خواتین پہ ہونے والے معاملے کو بھی زیرغور لانا چاہیے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی 49 فیصد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور ان کے حقوق کی عدم فراہمی اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر پاکستان کبھی بھی حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔