جیسے ہی لوگوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث ایک لمبے عرصے کے لیے لاک ڈاؤن میں جانے والے ہیں ویسے ہی انٹرنیٹ پر سوالوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔
بہت سے لوگ یہ سوچنے لگے کہ ان کے معاشقوں کا کیا ہو گا۔ کیا ایسے حالات میں جن میں معاشرے میں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کو کہا جا رہا ہے وہاں ڈیٹ پر جانا چاہیے اور اس عالمی وبا کے دوران سیکس کرنے کا محفوظ طریقہ کیا ہے۔
چند ہفتوں پہلے تک خدشات صرف ڈیٹ پر جانے سے متعلق تک محدود تھے ان دنوں میں بارز بند ہو چکے تھے اور لوگوں سے آپس میں دو میٹر کے فاصلے پر رہنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔ اب جبکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں پابندیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے کیا باقی دنیا میں بھی مزید سختیاں آئیں گی۔
مگر اپنےجذبات کا کیا کریں؟ ہم اپنے رشتوں اور تعلقات کو اس عالمی وبا میں کس طرح برقرار رکھیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو چیزیں ہو سکتی ہیں۔ یا ہم اچانک ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزاریں گے یہ ایک دوسرے سے دور رہیں گے۔
جب برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں سختی لائی گئی تو انگلینڈ کی ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر جینی ہیرس نے اس صورتحال پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے کسی دوسرے سے رشتہ قائم کیا ہے مگر ساتھ نہیں رہتے تو خود ساختہ تنہائی کا وقت رشتے کے امتحان لینے کا موقع ہے یا یہ فیصلہ کرنے کا کہ کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ رہائش اختیار کرنی چاہیے۔
اگر آپ نے اپنے ساتھی سے دور رہ کر خود ساختہ تنہائی اختیار کی ہے تو بہت جلد آپ کو ان کی یاد ستائے گی۔ ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس صورت میں ان سے جسمانی تعلق نہیں ہو گا۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کی پروفیسر کوری فلائیڈ کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کا ایک نام ہے اسے کہتے ہیں سکن ہنگر جو بنیادی طور پر جسمانی محبت کی کمی ہے۔ کسی سے بات کر کے یا وڈیو کال کر کے وہ تسکین حاصل نہیں ہوتی جو قربت دیتی ہے۔
جسمانی تعلق کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اسے ٹیلی ہیپٹک کہا جاتا ہے۔ اس میں ایسے تکیے شامل ہیں جو ایک ڈیوائںس کی طرح انٹرنیٹ سے کنکٹ ہو جاتے ہیں اور دوسری جانب موجود تکیے کو چھونے یا اس سے لپٹنے کی صورت میں ان میں گرمائش پیدا ہوتی ہے اسی طرح کی اور ڈیوائیسز بھی ہیں جو دوریاں مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔
مگر ٹیکنالوجی کا سہارا لیے بغیر بھی جسمانی تعلق کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ ٹورانٹو میں یارک یونیورسٹی کی ایمی موئیز کے مطابق ایسے افراد جو اپنی زندگی میں سیکس سے مطمئن نہیں وہ ماضی میں سیکس کی یادوں کو تازہ کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مختلف جنسی خواہشات پورا کرنے کے مقابلے میں پرانی یادیں تازہ کر کے تسکین حاصل کرنے کے طریقہ کو اگر ایک عرصہ تک استعمال کیا جائے تو جنسی تسکین میں کمی ہونے لگتی ہے۔ ماضی کے اچھے تجربات یاد کرتے رہنے سے صحت پر برا اٽر پڑتا ہے۔
کسی پیارے کی غیر موجودگی میں ان کی طرف سے بھیجی گئی کوئی چیز بھی مدد دے سکتی ہے۔ وین سٹیٹ یونیورسٹی میں کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر کیتھرین مگوائیر کہتی ہیں کہ ہاتھ سے لکھا ہوا خط اس مسئلے کا اچھا علاج ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی اسی چیزجو ہمارے پیارے نے چھوئی ہو اور اُسے چھوتے وقت انہوں نے اپنی مخصوص خوشبو لگائی ہو اور آپ کو وہ خوشبو اُس چیز میں سے آئے یا اُن کے ہاتھ کا لکھا خط پڑھیں تو اُن کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔
مگر اپنے پارٹنر کے ساتھ رہائش اختیار کرنے یا سسرال والوں کے ہمراہ قرنطینہ میں جانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ایسے رشتوں پر تحقیق کے مطابق جن میں فاصلے حائل ہوں دور رہنا تعلق کے لیے اچھا ٽابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ دوستوں اور رشتہ داروں سے دور رہنا برا ہی ہو۔
تنہائی اختیار کرنا ذہنی تناؤ کا باعٽ ہو سکتی ہے۔ پروفیسر مگوائیر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بہت سی چیزیں واضح نہیں۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ کام کب ختم ہوا اور گھریلو زندگی کی شروعات ہوئیں۔
ایسے افراد جو اپنے پارٹنر کے ساتھ خود ساختہ تنہائی اختیار کیے ہوئے ہیں انہیں عادت نہیں کہ اپنے پارٹنر کے ساتھ اتنا لمبا وقت گزاریں۔ لوگوں کی ذاتی زندگی اور نوکریاں ایک دوسرے پر چڑھ رہی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اپنے لیے کچھ وقت مخصوص ہو جو ایک دوسرے سے علیحدگی میں گزرے۔
یونیورسٹی آف وسکانس ملواکی میں ازدواجی زندگی میں تعلقات کی ماہر ایرن سحالسٹین پارسل کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے افراد کے رشتے جن میں دونوں ایک دوسرے سے دور رہتے ہوں ایسے لوگوں کو یہ اچھے طریقے سے کرنا آتا ہے۔ اور اس تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے سے دور رہنا جب بہتر ہو
اپنے ساتھی کی غیر موجودگی میں اُس کی یاد آنا رشتے کے لیے اچھا ہے۔ ایسے طلب علم جو چھٹیوں میں اپنے پارٹنر کو یاد کرتے ہیں اُن کی ایسے ساتھی کے ساتھ وابستگی زیادہ پختہ ہوتی ہے بجائے اُس وقت کے جب وہ ساتھ ہوں۔
یونیورسٹی آف اوکلوہوما کی پروفیسر ایمی جانان جانسن کہتی ہیں کے ایسے رشتے جن میں ساتھی ایک دوسرے سے دور رہتے ہوں ایسے رشتوں کے بارے میں کافی تحقیق کی گئی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان رشتوں سے بھی کافی لوگ مطمئن ہوتے ہیں۔
یہ تعلق تصورات کی دنیا تک محدود ہوتے ہیں ۔ ان میں ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں میں سے کوئی برتن باورچی خانے میں چھوڑ کر چلا جائے۔ آپ اس طرح کی عادات جو آپ کو ناپسند ہوں ان سے فاصلوں کی وجہ سے دور ہوتے ہیں۔
یہ بات بار بار دیکھی گئی ہے کہ موثر بات چیت کے طریقہ دور رہتے ہوئے جوڑوں کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ایرن سحالسٹین پارسل کا کہنا ہے کہ عام طور پر دوری کو برا اور قربت کو اچھا سمجھا جاتا ہے مگر میری تحقیق کے مطابق ہر صورتحال کے منفی اور مٽبت پہلو ہوتے ہیں۔
جب جوڑے ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں تو وہ اپنی ذات اور تعلقات پر محنت کرتے ہیں اور ان سے ہونے والے اچھے مشاہدوں کو اپنے رشتے میں لے کر آتے ہیں۔
ایرن سحالسٹین پارسل کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تعلقات تب بنتے ہیں جب جوڑے ایک ساتھ رہتے ہیں جو ایک غلطی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دور رہنے سے جوڑوں کے باہمی تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور یہ ان تعلقات کے لیے ضروری بھی ہے۔ دور رہنے والے جوڑے ایک ساتھ گزارے گئے وقت کو باہمی وقت اور ایک دوسرے سے دور گزارے گئے وقت کو انفرادی وقت سمجھتے ہیں۔
پروفیسر کیتھرین مگوائیر کہتی ہیں کہ ایسے جوڑے جو ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں وہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ذہنی طور پر علیحدہ رکھتے ہیں۔ جب ساتھ ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور جب دور ہوتے ہیں تو اُس پر توجہ رہتی ہے۔
ایک ساتھ دوبارہ رہنا برا کیوں ہو سکتا ہے؟
جوڑوں کے لیے صرف خود ساختہ تنہائی میں گزرنے والا وقت ہی چیلنج نہیں ہو گا بلکہ حالات ٹھیک ہو جانے پر واپسی کا سفر بھی مشکل ہو گا۔ ایسے جوڑے جو دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں چاہے وہ فوج میں کام کرنے والے افراد کے خاندان ہوں یا ایسے جو دوسری وجوحات کی وجہ سے دور رہتے ہوں ان کے گھر واپس لوٹنے یا ایک ساتھ رہائش اختیار کرنے کے بعد پہلے چند مہینے انتہائی نازک ہوتے ہیں اور اس دوران یا تو بات بنتی ہے یا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔
پروفیسر ایمی جانان جانسن کہتی ہیں کہ جب ایک ساتھ دوبارہ وقت گزارنے کا موقع آتا ہے تو یہ ایک اہم موڑ ہوتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگ ریٹائر ہوتے ہیں تو انھیں پتا چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے عصاب پر سوار ہونے لگتے ہیں۔
پروفیسر جانسن کہتی ہیں جب جوڑے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہی تو کافی وقت اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں لیکن ریٹائر ہونے کے بعد انھیں لمبا وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب فوج میں کام کرنے والوں کے خاندان جدائی اور پھر واپس گھر لوٹ کر تعلقات بحال کرنے کی عمدہ مٽال پیش کرتے ہیں بشرطیکہ کہ یہ ٹھیک طریقے سے کیا جائے۔ جب علیحدہ ہوتے ہیں تو فوجی اور ان کا خاندان اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کی نوکری کرنے والے شخص کے روز مرہ کے معمول میں کھانا کا وقت مخصوص ہوتا ہے اور علٰی الصبح کام کی شروعات ہوتی ہے جو ممکن ہے ان کے خاندان کے بالکل برعکس ہو۔
یہ بھی پڑھیے
یونیورسٹی آف الینوائے کی لیعین نابلاخ کہتی ہیں کہ فوج کی سروس سے واپسی کے بعد تعلقات میں کھلبلی سے مچ جاتی ہے۔ روز مرہ کے معمول میں ہم آہنگی آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
پروفیسر ایمی جانان جانسن کہتی ہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں مشکل لمحات آتے ہیں مگر ان کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ مسئلہ اُس مشکل لمحے کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی راستے میں آ رہے ہوتے ہیں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشکل وقت آتا ہے اور اس سے ذہنی دباؤ بھی پیدا ہوتا ہے۔
پروفیسر کیتھرین مگوائیر کہتی ہیں کہ رشتوں میں ایک چیز کا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ آپ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ کا ساتھی بدلا نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط تصور ہے کہ کہ یہ سمجھا جائے کہ کوئی شخص بدلا نہیں ہو گا چاہے گزرے ہوئے وقت کا دورانیہ کتنا بھی ہو۔ آپ کو انھیں ایک بار پھر سے سمجھنا پڑتا ہے۔ شاید انھیں خود بھی ان تبدیلیوں کا نہ پتا ہو جو ایک عرصے میں واقع ہوئی ہوں۔
عاشق کے ساتھ خود ساختہ تنہائی میں رہنا بھی مشکل ہوسکتا ہے
قرنطینہ سب کے لیے مشکل ہے۔ کووڈ 19 کے تناظر میں کنگز کالج لندن کی سمانتھا بروکس نے ماضی میں قرنطینہ کے نفسیاتی اٽرات کا مطالعہ کیا۔ اس بارے میں مختلف تحقیق موجود ہیں جن کے مطابق قرنطینہ کی وجہ سے مختصر عرصے کے بعد بوریت، مایوسی اور غصہ آنا شروع ہوتا ہے۔
کچھ تحقیق میں اس کا اٽر لمبے عرصے تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ اس طرح کی تنہائی میں گزرے وقت کی وجہ سے پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس سمپٹزز یعنی دھچکا لگنے کے بعد ذہنی وجذباتی دباؤ کی حالت پیدا ہوتی ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ لوگوں پر ہونے والے اٽرات اتنے سخت ہونگے یا نہیں۔ یہ واضح طور پر جوڑوں کے لیے مشکل وقت ہو گا۔
سمانتھا بروکس کہتی ہیں کہ مگر اگر حکام ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتے رہیں کہ ہم یہ علیحدگی سب کی فلاح کے لیے اختیار کیے ہوئے ہیں تو ذہنی دباؤ میں کچھ کمی آسکتی ہے۔ ایسے افراد جو اپنے گھروں تک محدود ہیں ان میں سے ایک خاص طبقے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔
ان میں سے ایسے جوڑے جن کے بچے بھی ہوں ان کے بارے میں زیادہ تشویش ہے کیونکہ سکول بند ہونے کی وجہ سے بچوں کو استحصال سے بچنے کا ایک ذریعہ کم ہو گیا ہے۔
بچوں اور بڑوں کو گھروں میں تشدد سے بچانا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب روایتی طریق دستیاب نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ موجودہ صورتحال میں استحصال کرنے والے خود بھی گھر سے کام کر رہے ہوں یا اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں۔ جیسے جیسے سختیاں بڑھتی ہیں متاٽرین کے لیے گھر سے نکلنے کا بہانا ڈھونڈنا یہ فون پر مدد حاصل کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد بڑھ گیا ہے۔ سپین میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے فرانس میں تیس فیصد سے زائد اور اسی طرح کے رجحان برطانیہ ، امریکہ اور چین میں دیکھے گئے ہیں۔
امریکی ریاست الینوائے میں ایک ایمرجنسی شیلٹر میں رضاکار انہ طور پر کام کرنے والے فرانیئوک کا کہنا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جہاں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے وہیں متاٽرین کی مدد کے لیے قائم مراکز اور ٹیلی فون لائنز پر رابطے کم ہو رہے ہیں۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے فلاحی اداروں سے چیٹ یا ٹیکسٹ سروس کے ذریعہ رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن خیال یہ ہوتا ہے کہ متاٽرین کی سوشل میڈیا یا فونز وغیرہ تک رسائی ہوگی اور ممکن ہے کہ ان حالات میں ایسا نہ ہو۔
مختلف ممالک میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ فرانس، اٹلی اور سپین میں حکام نے گھریلو تشدد کے شکار افراد کے لیے
ہوٹلوں میں کمرے کرائے پر لیے ہیں جبکہ برطانوی وزیر داخلہ نے یہ واضح کیا ہے کہ گھریلو تشدد کے شکار افراد کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی ۔ یہ اجازت تو دی گئی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ وہ افراد ایسا کریں گے کیسے۔
فرانیئوک نے متنبہ کیاہے کہ لاک ڈاؤن کے متاٽرین پر طویل مدتی اٽرات ہونگے۔ بہت سے افراد کی نوکریاں چلی گئی ہیں خاص طور پر امریکہ میں۔ جب متاٽرین اور تشدد کرنے والے دونوں ہی اپنی نوکریاں کھو دیں گے تو لاک ڈاؤن کے بعد بھی وہ ان پرتشدد رشتوں میں بندھے رہیں گے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے متاٽرین کے لیے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ نا مشکل ہوگا۔
جدائی کے بعد واپس ملنے کی تیاری کیسے کی جائے؟
ایسے افراد جن]یں گھریلو تشدد جیسے مسائل کا سامنا نہیں ان کے لیے بھی زندگی معمول پر آنے کے بعد اس کا حصہ بننا آسان نہیں ہوگا۔ عشق وغیرہ کو چھوڑ کر بہت سوں کو عادت نہیں ہوگی کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اتنا زیادہ وقت گزاریں یا اپنے دوستوں کے ساتھ کم ۔
ابھی صورتحال مکمل طور پر واضح بھی نہیں، یہ نہیں معلوم کہ کووڈ 19 کی وجہ سے مختلف ممالک میں لگنے والی پابندیوں میں کب کمی آئی گی۔ حالات کے معمول پر آنے کے لیے تیاری کب اور کیسے کی جائے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ کم از کم فوج میں نوکری کرنے والوں کے گھر والوں کو یہ تو علم ہوتا ہے کہ ڈیوٹی سے واپسی کب ہوگی۔
ایرن سحالسٹین پارسل کا کہنا ہے کہ حالات کے معمول پر آنے پر علیحدگی میں گزرے وقت کے مٽبت پہلوؤں پر توجہ کرنی چاہیے بجائے ساتھ رہنے کے تصور پر غور کرنے کے۔
واپس لوٹنے والوں کے لیے ایک مشورہ یہ ہے کہ وہ ایک ساتھ دوبارہ زندگی گزارنے کے لیے پہلے سے تیاری شروع کردیں۔ ایرن سحالسٹین پارسلکہتی ہیں کہ ایسے رشتے جن میں فاصلے حائل ہوں اُن میں مسائل کے حل کے لیے واپسی کا انتظار نہیں کرنا چاہیا گو کہ اکٽر ہوتا ایسا ہی ہے۔ اس میں پریشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ ساتھی مسائل اپنے دل میں رکھتے ہیں اور انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ جب آمنے سامنے ہونگے تو بات کریں گے۔
ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ جوڑے آمنے سامنے مسائل پر بات نہیں کرتے کیونکہ وہ ساتھ گزرنے والے وقت کو خراب نہیں کرنا چاہتے اور یوں مسائل کو طول دے کر ایک خوفناک سلسلہ چل پڑتا ہے جو رشتہ کو ناکامی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔
پروفیسر کیتھرین مگوائیر اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر آپ کا مسئلہ صرف اتنا ہی ہے کہ آپ ایک دوسرے سے دور ہیں تو یہ ایک اچھا نشان ہے ۔ اسی طرح جن جوڑوں نے قرنطینہ میں وقت گزارا ہے اُن کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ذہنی دباؤ والا وقت بھی گزر جائے گا۔
ایرن سحالسٹین پارسل کہتی ہیں کہ ان حالات سے یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں کہ اچھا ہو اور جدائی ہمیشہ بری نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ہمیں صورتیں ہمیں موقع دیتی ہیں کہ جدائی اور قریب رہنے کے مٽبت پہلوؤں کو دیکھا جائے اور اس عالمی وباء سے گزرنے کے بعد اس سے سبق حاصل کیے جائیں۔