’حمل کے آٹھویں مہینے میں اگر بچے کی پیدائش ہو جائے تو خدانخوستہ بچہ زندہ نہیں بچتا اس لیے بہت احتیاط کرنا۔ آٹا نہیں گوندھنا، جھکنا نہیں، جھاڑو نہ لگانا، سیڑھیاں نہ چڑھنا، ورنہ بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، ستوانسا (حمل کے ساتویں مہینے میں پیدا ہونے والا بچہ) زندہ رہتا ہے لیکن اٹھوانسا (حمل کے آٹھویں ماہ پیدا ہونے والا بچہ) نہیں۔‘
یہ الفاظ سعودی عرب میں مقیم کراچی سے تعلق رکھنے والی سیدہ افشاں حسن کو اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد اپنی ساس اور والدہ کی جانب سے سننے کو اس وقت ملے جب انھوں نے اپنے امید سے ہونے کی خوشخبری گھر والوں کو سنائی۔
حمل کے دوران کی جانے والی احتیاط سے متعلق بے شمار مشوروں کے دوران کانوں میں پڑنے والے ان جملوں نے انھیں خوشی کے ان لمحات میں بھی انتہائی محتاط بنا دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کروٹ سے سونے سے منع کیا جاتا ہے، جھک کر کچھ اٹھانے کے بجائے آرام سے بیٹھ کر اٹھانے کی احتیاط بتائی جاتی ہے، اس وقت اتنی باتیں سُن کر پریشانی اور بے چینی بھی ہو جاتی تھی کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں بچہ پیدا کرنے پر کتنا خرچ آتا ہے؟
پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟
’دوران حمل ذیابیطس کنٹرول میں نہ رہنے سے بچے کی موت بھی ہو سکتی ہے‘
’حمل کے تمام ماہ ایک طرف اور آٹھواں مہینہ ایک طرف‘
حمل کے دوران آٹھویں مہینے کی احتیاط سے متعلق ماؤں کی جانب سے ایسے مشورے صرف افشاں کو ہی سننے کو نہیں ملے بلکہ برصغیر کے تقریباً ہر روایت پسند گھرانوں کی ماں بننے والی لڑکیوں کو عموماً سننے کو ملتے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی چار بچوں کی والدہ حنا ظفر کا بھی اپنے پہلے حمل سے ہی نسل در نسل منتقل ہونے والے ان مشوروں سے خوب واسطہ رہا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’زچگی کے سارے مہینے ایک طرف اور آٹھواں مہینہ ایک طرف۔ اس مہینے سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے، چاروں طرف سے ہم پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ آپ کو کام نہیں کرنا، آپ کو واک نہیں کرنی، کہیں جانا نہیں ہے، آپ کو درد نہیں ہونا چاہیے۔ بڑے ڈر خوف کے ساتھ یہ مہینہ گزر رہا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی جہاد پر آئے ہوئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں کیا نہ کریں، یہ آٹھواں مہینہ بڑا کٹھن گزرتا ہے۔‘
حنا ظفر کے مطابق میکہ، سسرال اور سہیلیوں کی جانب سے ملنے والے بھانت بھانت کے مشورے تخلیقی عمل سے گزرنے والی عورت کو بعض اوقات خائف کر دیتے ہیں جس سے طبیعت میں چڑچڑا پن ہونے لگتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب پہلی بار ایک لڑکی ماں بنتی ہے تو ایک تو وہ اپنی حالت سے بہت زیادہ پریشان ہوتی ہے کیونکہ حمل میں طبیعت بالکل مختلف ہو جاتی ہے، کھایا پیا نہیں جاتا، نیند پوری نہیں ہوتی، میکہ سسرال سے الگ ہدایتیں مل رہی ہوتی ہیں،دوست الگ مشورے دیتے ہیں۔ تو اس وقت ہر طرف سے باتیں سن سن کر اچھی چیز بھی بری لگتی ہے۔‘
حمل ٹھہرنا کوئی بیماری نہیں
طبی ماہرین کے مطابق خواتین میں حمل ٹھہرنا ایک بالکل نارمل جسمانی حالت ہے جس میں بچہ پیدا کرنے کی اور اس کو دودھ پلانے کی صلاحیت قدرتی طور سے موجود ہوتی ہے، اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حمل ٹھہرنا کوئی بیماری نہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر عورت دوران حمل ایک طرح محسوس نہیں کرتی۔ اس لیے حمل کے دوران اگر جی متلانے، قے ہونے سمیت کوئی طبی شکایت ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے آپ اپنے معمولات میں تبدیلی لائیں۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے شعبہ زچہ و بچہ میں بطور گائنی کنسلٹنٹ کام کرنے والی ڈاکٹر نابیہ طارق کے مطابق خصوصاً پہلی بار ماں بننے والی خاتون کو گھر میں موجود بزرگ اور دیگر خواتین اپنے اپنے تجربات سے آگاہ کرتی ہیں تاہم ہر عورت کی حالت اور علامات حمل کے دوران مختلف ہوتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں ہے کہ ’آپ چاہے خاتون خانہ ہوں یا ورکنگ ویمن اپنے روز مرہ کے معمولات میں آپ کو بہت زیادہ تبدیلیاں لانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صرف کچھ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ پریگنینسی کو کس طرح محسوس کر رہی ہیں۔‘
’ستوانسا بچ جائے گا اٹھوانسا نہیں‘ میں کتنی حقیقت ہے؟
ڈاکٹر نابیہ کا کہنا ہے کہ ’ساتویں اور آٹھویں مہینے کا مفروضہ ہم بھی سنتے آ رہے ہیں، بچے کے (قبل از وقت پیدائش) میں بچنے کا انحصار بچے کی میچورٹی پر ہوتا ہے۔ ماں کے پیٹ کے اندر بچہ جتنے دن گزارے گا، وہ دن جتنے بڑھتے رہیں گے بچے کے لیے بہتر ہوں گے، اور یہ کہ ساتویں مہینے میں بچہ بچ جائے گا اور آٹھویں میں نہیں بچے گا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر نابیہ طارق کے مطابق حاملہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت صرف بستر پر رہ کر مستقل آرام کرے۔ حاملہ خواتین اپنے روز مرہ کے کام جاری رکھیں ماسوائے ان خواتین کے جنھیں ڈاکٹر ان کی جسمانی صحت کے مد نظر بستر پر آرام کی ہدایت کرے۔
دوران حمل خواتین اپنے روزمرہ کے معمولات میں کیا تبدیلیاں لائیں؟
حنا ظفر بتاتی ہیں کہ شادی کے دو ماہ بعد ہی ان کی طبیعت بوجھل رہنے لگی، بار بار متلی ہوتی تھی اور بلڈ پریشر کم ہوتا تھا، حمل کا ٹیسٹ کیا تو مثبت آیا اور خوشی کی اس خبر کے ساتھ ہی ان کے میکہ اور سسرال کی خواتین کی جانب سے مستقل احتیاط کرنے کے مشوروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں سر فہرست مشورہ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے میں مستقل احتیاط اور وزن نہ اٹھانے کا تھا۔
’سب اپنے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں، بڑی کشمکش والا وقت ہوتا ہے، ڈر بھی لگتا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘
ڈاکٹر نابیہ طارق کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران جسمانی ورزش بالکل منع نہیں بلکہ کم از کم 30 منٹ تک معمول کی ورزش حمل کے نو مہینے کے دوران پرسکون رہنے کے لیے ضروری ہے، البتہ حمل کے دوران کام کا دباؤ کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ فزیکل ایکٹیویٹی نہیں کریں گی تو ایک تو آپ کا وزن بڑھ جائے گا۔ حمل کے دوران خون جمنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔اور اگر آپ اس دوران ضرورت سے زیادہ بستر پر وقت گزاریں گی تو آپ کو ٹانگوں میں خون جمنے سے مختلف مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے حمل کے دوران پورے نو ماہ تک جسمانی ورزش بہت ضروری ہے۔
خواہش ہو نہ ہو، دگنی مقدار میں کھانا کھانے کا مشورہ
افشاں حسن کو حاملہ ہونے کے ساتھ ہی اپنی والدہ اور ساس کی جانب سے ہدایات ملیں کہ ان انھیں وقت پر اور پہلے سے زیادہ کھانا کھانے کی ضرورت ہے، بلکہ بھوک لگنے سے پہلے ہی کچھ اچھا اور قوت بخش کھا لیا جائے تاکہ بچے کی نشوونما پر اچھا اثر پڑے۔
حنا نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ کھانے کی خواہش نہ ہونے کے باوجود گھر کے بڑے بوڑھوں کی جانب سے دوران حمل کھلانے پلانے پر ہی سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے
’ہمیں اس دوران دو بندوں کے حساب سے کھانا کھانے کا کہا جاتا ہے جبکہ ہم سے کھایا جاتا نہیں اور عجیب سی متلی رہتی ہے لیکن ہمیں کہا جاتا ہے کہ بچے کے حصے کی خوراک بھی ہمیں لینی ہے۔‘
ڈاکٹر نابیہ نے حاملہ خواتین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوران حمل صحت بخش غذا میں جو اپ کو پسند ہو وہ کھائیں، تاہم بازاری چیزوں سے اجتناب کریں۔
’جہاں تک غذا کی بات ہے تو اس میں ٹھنڈا گرم، کھٹا میٹھا کچھ نہیں ہوتا، جو آپ آسانی سے ہضم یا برداشت کر سکتے ہیں وہ ضرور لیں بس یہ یاد رکھیں کہ جو کچھ آپ کھا رہی ہیں وہ صحت بخش ہوـ جنک فوڈ بالکل بند کر دیں اور تازہ پھل، میوہ جات، دودھ سے بنی اشیا، انڈا، گوشت مرغی مچھلی، دال جو بھی میسر ہو استعمال کریں۔‘
’نواں مہینہ شروع ہوا تو ایسا لگا جیسے ہم نے نیّا پار کر لی‘
حنا کے حمل کا آٹھواں مہینہ مستقل آرام کرنے کے ساتھ ختم ہوا تو انھوں نے سکھ کا سانس لیا مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ ماؤں کے مشورے سے جڑے ابھی حمل کے امتحان اور بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب آٹھواں مہینہ ختم ہوا اور نواں مہینہ شروع ہوا تو ایسا لگا جیسے ہم نے نیا پار کر لی ہے۔ لیکن پھر نویں مہینے میں گھر کی بزرگ خواتین کہتی ہیں کہ اب آپ نے زیادہ لیٹنا نہیں ہے، چلنا پھرنا ہے، کام کرنا ہے، جھاڑو لگانا ہے، آٹا گوندھنا ہے، تو ایسے وقت میں ہر چیز بہت مشکل ہو جاتی ہے۔‘
افشاں کو حمل کا نواں مہینہ شروع ہوتے ہی ان کی والدہ نے کچھ ٹوٹکے بتائے جس سے ان کے مطابق بچہ آسانی سے پیدا ہوتا ہے جن میں دیسی گھی کو غذا میں شامل کرنا اور رات کو سونے سے قبل دودھ میں مکھن ڈال کر پینا شامل تھا۔
نویں مہینہ میں دیسی ٹوٹکے اور طبی حقیقت
ڈاکٹر نابیہ طارق حمل کے نویں مہینے میں جسمانی ورزش اور گھر کا کام کاج کرنے سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کے مطابق اس سے ماں بننے والی عورت کا سٹیمنا بڑھتا ہے۔
لیکن وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ’ایک چیز کا بہت دھیان رکھنا ہے کہ حمل کے ہارمونز خواتین کے جوڑوں کو بہت نرم اور لچکدار کر دیتے ہیں تو اچانک جھکنا یا مڑنا جوڑوں اور کمر پر برا اثر ڈال سکتا ہے اس لیے جو بھی کام کریں وہ احتیاط سے کریں۔
’چلیں پھریں، گھر کا کام، واک، یوگا یا سوئمنگ کریں کسی چیز کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کے جسم کو تقویت پہنچاتا ہے۔‘
بچے کی پیدائش کے سوا مہینے میں ماں کی احتیاط
بچے کی پیدائش کے بعد جسمانی صفائی کا خیال نہ رکھنے سے تولیدی نظام میں انفیکشن جان لیوا ہو سکتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد بھی احتیاطی مشوروں اور ٹوٹکوں کا سلسلہ رکتا نہیں۔
حنا ظفر کے مطابق ان سے کہا گیا کہ اب کیونکہ بچے کو دودھ پلانا ہے تو اب غذا میں خاص احتیاط کرنی ہے۔
’سوا مہینہ کے دوران کہا جاتا ہے کہ آپ نے کھلی فضا میں نہیں بیٹھنا، ٹھنڈا پانی نہیں پینا، ٹھنڈے پانی سے نہانا نہیں ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسی غذا نہ کھاؤ جس سے بچہ کے پیٹ میں درد ہو جائے۔‘
’بچے کی پیدائش کے دوران کیونکہ ماں ایک بہت سخت مرحلے سے گزری ہوتی ہے تو اس کو طاقت کے لیے دیسی خوراک جیسے کہ اچھوانی، پنجیری وغیرہ دی جاتی ہے۔ انڈے، دودھ، جوس، گوشت پھل ہر تھوڑی دیر میں آپ کو کھلایا جا رہا ہوتا ہے اور اس دوران آپ کو اپنے نوزائیدہ بچے کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر نابیہ طارق کہتی ہیں کہ برصغیر خاص طور پر انڈیا پاکستان کے کلچر میں یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو 40 دن تک کمرے میں رہنا ہے، نہانا نہیں ہے، کوئی ورزش نہیں کرنی اس میں بہت سے باتیں صحت کو بہتر کرنے کی بجائے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہیں اس لیے اس کی بہت زیادہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
تولیدی نظام کا متاثر ہونا
ڈاکٹر نابیہ کے مطابق ’ڈلیوری کے بعد اگر آپ جسمانی صفائی کا خیال نہیں رکھیں گی تو تولیدی نظام میں جان لیوا انفیکشنز ہو سکتا ہے جو ہمارے ہاں خواتین کی شرح اموات بڑھنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اگر آپ ورزش نہیں کریں گی تو آپ کی ٹانگوں میں بہت زیادہ خون جم جائے گا جو آپ کی جان لے سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بچے کی پیدائش کے 30 منٹ کے اندر ماں کو اپنا دودھ پلانا شروع کر لینا چاہیے، اسی لیے پیدائش کے دس منٹ کے اندر بچے کو ماں کے اوپر رکھ دیتے ہیں اور بچے کو ماں کا دودھ پلاتے ہیں، کیونکہ یہ پہلا ردعمل ہے جو بچہ سیکھ لیتا ہے اور اس کے بعد پھر ماں کو اپنا دودھ پلانے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر نابیہ کا کہنا ہے کہ ’ماں کو بہت زیادہ گھی پنجیریاں دینے کی ضرورت نہیں ہے، پروٹین اور وٹامن سے بھرپور تازہ اور صحت بخش غذا دیںجو کہ بچے کو ماں کے دودھ کے ذریعے فائدہ پہنچائے، زیادہ تلی ہوئی یا بازاری اشیا نہدی جائیں۔‘
ڈاکٹر نابیہ کا کہنا تھا کہ ’لوگ اکثر کہتے ہیںکہ ماں کا دودھ سوکھ گیا یا دودھ پورا نہیں ہو رہا وہ اس لیے ہے کہ آپ نے ماں کو بہت ذہنی دباؤ میں رکھا ہوتا ہے۔ جب تک ماں کا خیال نہیں رکھیں گے تو بچے کو ماں کے دودھ پورا نہیں ملے گا۔
حمل ٹھہرنے سے قبل چند باتوں کا خیال
ڈاکٹر نابیہ طارق نے حمل سے قبل کی احتیاط سے متعلق بتایا کہ ماں بننے کی خواہش مند عورت کو حمل ٹھہرنے سے کم از کم دو ماہ قبل پانچ ملی گرام فولک ایسڈ روزانہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’فولک ایسڈ بچے کی دماغی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے تاہم حاملہ ہو جانے کے بعد اگر خاتون فولک ایسڈ لینا شروع کرے تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر نابیہ طارق اولاد پیدا کرنے کے خواہش مند جوڑوں کو حمل ٹھہرنے سے قبل اپنے مکمل معائنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے مطابق بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو عام حالات میں پتہ نہیں چلتی اور ایک بار جب حمل ٹھہر جائے تو اس کا علاج بھی مشکل ہوتا ہے اور اس کا حمل پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔