شادی والے روز آپ اچانک معزز ہو جاتے ہیں۔ وہ دوست اور رشتہ دار جو پہلے اپنی تصاویر کھنچواتے وقت آپ کو صوفے سے اٹھا دیا کرتے تھے ؛ اب لائن بنا کر آپ کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لئے انتظار کرتے ہیں۔
مووی کیمروں کا رخ پہلی بار صرف آپ ہی کی طرف ہوتا ہے۔ روشنیوں کی چکا چوند اور کیمرے کے کلک کلک کی آوازیں سن کر بلا وجہ فواد خان جیسی ’ریڈ کارپٹ‘ والی فیلنگ آ رہی ہوتی ہے۔
زندگی میں جس شخص کو کالج سے لے آفس تک ہر لڑکی ”بھائی“ کہ کر جان چھڑا لیتی ہو، آج اس کے پہلو میں آخر کار ایک ایسی لڑکی بیٹھی ہوتی ہے جو اس کو سب کچھ کہ سکتی ہے مگر ”بھائی“ نہیں۔
جس کے ہمیشہ دیر سے آنے، حتی کہ آنے یا نا آنے کا بھی کسی نے کبھی نوٹس نا لیا ہو؛ اس کے انتظار میں سب لوگ گھڑیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
نکاح پر سینکڑوں لوگ آپ کے تین بار ”قبول ہے“ کہنے کے انتظار میں دم سادھے بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی تین جادوئی الفاظ آپ کے منہ سے نکلتے ہیں، آپ کو ایسے مبارک دیتے ہیں جیسے سرفراز کو چیمپئن ٹرافی جیتنے پر ملی تھی۔
آپ کا اپنا بھائی جو فریج میں پڑا آپ کا بچایا ہوا برگر تک نہیں چھوڑتا؛ اب دو تین ویٹروں کی ڈیوٹی لگا رہا ہوتا ہے کہ آپ کو ہر کھانا سٹیج پر وافر مقدار میں ملنا چاہیے۔
آپ کو پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں گائے کی اتنی عزت کیوں کرتے ہیں ؛ جب ایک گھونٹ دودھ پینے پر ہزاروں روپے ادائیگی کرنی پڑتی ہے، وہ بھی آن دی سپاٹ۔
آپ کے دوست اور کزن جو ہمیشہ چوک میں آپ کی بے عزتی کرنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں ؛ شادی والے دن بے بسی سے آپ کے اکیلا ہونے کے انتظار میں ہاتھ مل رہے ہوتے ہیں۔
زندگی میں پہلی بار آپ کو پتا چلتا ہے کہ پرائیویسی نام کی چیز بھی دنیا میں وجود رکھتی ہے ؛ جب ڈرائنگ روم میں گدا بچھا کر سونے والے کو الگ کمرہ الاٹ کیا جاتا ہے۔
آپ کے اپنے گھر والے جب دروازہ کھٹکھٹا کر کے آپ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو خوامخواہ شرٹ کے کالر اونچے کرنے کو دل کرتا ہے، گردن تن سی جاتی ہے اور چہرے پر فخریہ سمائل آ جاتی ہے۔
وہ ابا جان جو دوستوں کے ساتھ مری جانے پر آپ کو الٹا لٹکا دیتے تھے ؛ آپ کے لئے گلگت میں خود ریزارٹ بک کرواتے ہیں۔
وہ باس جو آپ کے لیٹ آنے پر جاب سے نکالنے کی دھمکیاں دیتا تھا؛ آپ کی شادی پر آپ کے کان میں ایک ہفتے کی پیڈ لیو کی خوشخبری سنا کر سرپرائز دیتا ہے۔
جس کو کام والی ماسی بھی لات مار کر گدے سے اٹھاتی ہو؛ شادی سے اگلے دن اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جاتا اور زندگی میں پہلی بار ناشتے کی ٹیبل پر اس کا انتظار کیا جاتا ہے۔
آپ کے اپنے گھر میں بھلے کوئی عزت نا ہو، ایک دوسرا گھر ”سسرال“ ایسا ہے جہاں لڑکیاں آپ کے ”جوتے اتارنے“ کے انتظار میں کھڑی ہوتی ہیں۔
جو اماں آپ کی جیب میں ایک روپیہ نہیں ٹکنے دیتیں ؛ سسرال جاتے وقت ہزاروں روپے آپ کی جیب میں ڈال دیتی ہیں۔ آپ کو ایسا احساس ہوتا ہے جیسے آپ پرانے وقتوں کے لمبردار ہیں اور سرکاری کام سے جاتے ہوئے سارے گاؤں کی عزت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
جس کو دوسری بوٹی ڈالنے پر ہاتھ پر چمچہ پڑتا تھا؛ آج سب لوگ ڈونگے سے بوٹیاں نکال نکال کر اس کی پلیٹ میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔
سسرال میں آپ کی ایسے عزت کی جاتی ہے جیسے امریکہ کا صدر پاکستان کے دورے پر آیا ہو۔ آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہی وہ گھر ہے جہاں رہنے والے بلا وجہ ہھی آپ کی پھیکی پنچ لائنز پر بھی ہنستے رہیں گے۔
آپ کا ان سسرالی رشتہ داروں سے تفصیلی تعارف کروایا جاتا ہے جن سے آپ پہلی اور آخری بار مل رہے ہوتے ہیں۔ تمام سسرالی رشتہ داروں کے دعووں کے مطابق آپ کی بیگم اپنے گھر میں نہی بلکہ ان کے گھر میں ہی پلی بڑھی ہوتی ہیں۔
ولیمے والے دن ہر شخص کا ایک ہی سوال ہوتا ہے ”زندگی میں کیا تبدیلی محسوس کر رہے ہیں“ ۔ اس وقت تک تو پتہ نہیں لگتا کیا تبدیلی آئی ہے پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ”لگ پتہ جاتا ہے“ ۔
بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
شادی کے اصل سائیڈ افیکٹس کیا ہوتے ہیں جو گزرتے ہر دن کے ساتھ آپ پر منکشف ہوتے ییں؟ اچھے بھلے ”کچھ کچھ ہوتا ہے“ جیسے گزرے چند دن اچانک ”اوینجر دی اینڈ گیم“ میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟ اس کے لئے انتظار کیجئے ”شادی کے سائیڈ افیکٹس پارٹ ٹو“ کا۔