لڑکیوں کے لیے گڑیا اور لڑکوں کے لیے کار کیوں؟

 

ریتو کچھ دنوں میں ماں بننے والی ہیں۔ ریاست ہریانہ میں رہنے والی ریتو اپنے ہونے والے بچے کی ہر خواہش پوری کرنا چاہتی ہیں اور آنے والے مہمان کے لیے کمرے میں کھلونے اور ضروریات کی تمام اشیاء موجود ہیں۔

لڑکی ہوئی تو گلابی رنگ کا جمپر سوٹ اور گڑیا اور لڑکا ہو تو نیلے رنگ کا جمپر سوٹ اور ٹیڈی بیئر۔

لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ لڑکی کے لیے گڑیا اور لڑکے کے لیے نیلے رنگ کا جمپر سوٹ کیوں تو انھوں نے انتہائی معصومیت سے کہا ‘کیونکہ لڑکیوں پرگلابی رنگ اچھا لگتا ہے، کیا ہم نے گڑیا سے نہیں کھیلا؟ لڑکے گڑیوں سے تھوڑی نہ کھیلتے ہیں۔’

لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رنگ اور کھلونوں کا فیصلہ کس کا

اگر آپ گوگل پر لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کھلونے تلاش کرتے ہیں تو آپ کھلونوں میں فرق واضح طور پر دیکھیں گے۔

گوگل پر لڑکیوں کے کھلونوں میں میک اپ سیٹ، کچن سیٹ اور گڑیا ملیں گی جو کہ گلابی رنگ کی ہیں اور لڑکوں کے کھلونوں میں مختلف قسم کی گاڑیاں، بلڈنگ بلاکس اور روبوٹ ملیں گے۔

لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ لڑکی کس کھلونے سے اور لڑکا کس کھلونے سے کھیلے گا یا لڑکی کے لیے گلابی اور لڑکے کے لیے نیلا رنگ کیوں؟

ہم ان سوالات پر مزید بات کریں گے لیکن پہلے جان لیں کہ ہم اس موضوع پر کیوں بحث کر رہے ہیں۔

در حقیقت کھلونا بنانے والی ڈینش کمپنی لیگو نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات اور مارکیٹنگ سے صنفی عدم مساوات یا صنفی دقیانوسی تصورات کو ختم کر دے گی۔

لیگو کمپنی نے یہ فیصلہ ایک تحقیق کے بعد کیا ہے

لیگو کی چیف مارکیٹنگ آفسر جولیا گولڈن نے ایک بیان میں کہا ‘تخلیقی کھیل بچوں میں خود اعتمادی، تخلیقی صلاحیتوں اور مواصلات کی مہارت کو فروغ دینے میں فائدہ مند ہوتے ہیں لیکن ہم اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ پرانے دقیانوسی تصور نے ان کھیلوں پر بھی ٹھپہ لگا دیا ہے ایک کھیل ایک مخصوص صنف کے لیے ہے اور ہماری کمپنی لیگو کو لگتا ہے کہ اس تصور کو درست کرنے میں ہمارا کردار ہونا چاہیے۔

دی گریٹ انڈین کچن: ’نرم گو، رحم دل مرد بھی زہریلے ہو سکتے ہیں‘

ریاستی وزیر کے بیان پر تنقید: ’یہاں کنوارہ مرد سب برداشت کرتے ہیں، لیکن کنواری لڑکی برداشت نہیں’

خواتین پوچھ رہی ہیں کہ ‘مرد ریپ کیوں کرتے ہیں؟’

تحقیق کا نتیجہ کیا نکلا ؟

لیگو نےایک تحقیقی تنظیم جینا ڈیوس انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ سروے کیا جس میں سات ممالک کے 7000 لوگوں کے انٹرویو کیے گئے۔

جس میں پہلے 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کے والدین اور پھر بچوں کے ساتھ بات چیت کی گئی۔

اس سروے میں امریکہ، چین، جاپان، پولینڈ، روس، چیک جمہوریہ اور برطانیہ میں رہنے والے والدین اور بچے شامل تھے۔

اس تحقیق سے پتہ چلا کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں صنفی فرق کے بارے میں کم دباؤ محسوس کرتی ہیں اور وہ کُھل کر مختلف قسم کے تخلیقی کھیلوں کو اپناتی ہیں جبکہ معاشرے یا والدین میں یہ کھلا پن نطر نہیں آتا جیسے لڑکیاں فٹ بال کھیلیں اور لڑکے بیلے سیکھیں لڑکیاں اسے نارمل سمجھتی ہیں لیکن لڑکے ایسا نہیں سمجھتے۔

دوسری طرف لڑکے ایسے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے شرماتے ہیں جو لڑکیوں کے لیے سمجھے جاتے ہیں یا انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ ان کھلونوں سے کھیلیں گے تو ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔

مزید برآں والدین اپنی بیٹیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں رقص یا ڈریسنگ جیسی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی پانچ گنا زیادہ ترغیب دیتے ہیں اور بیکنگ یا کھانا پکانے جیسی سرگرمیوں کے لیے تین گنا زیادہ جبکہ کھیلوں کے لیے لڑکوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے کھلونے

سوہاسینی پال ایک کھلونا ڈیزائنر ہیں اور انھوں نے 300 سے زیادہ کھلونے ڈیزائن کیے ہیں۔ وہ لیگو کے اس اقدام کو معاشرے کے لیے ایک مثبت اور ترقی پسند قدم قرار دیتی ہیں۔

سوہاسینی پال کے کلائنٹ نہ صرف انڈیا بلکہ تھائی لینڈ، اٹلی، برطانیہ، امریکہ، ترکی اور فرانس جیسے ممالک میں ہیں۔ وہ کنڈر جوائے، ڈزنی، ہیپ اور چھوٹا بھیم جیسے برانڈز کے لیے کھلونے بنا چکی ہیں۔

ان کے مطابق ایک کھلونا ڈیزائنر ہونے کے ناطے انھوں نے اپنے کھلونوں میں اورینج اور سبز رنگوں کا استعمال کیا ہے تاکہ وہ ایک پیٹرن میں نہ پھنسیں۔ یہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو راغب کرتے ہیں اور دونوں ان کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔

وہ بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں کہتی ہیں ‘دنیا میں ایسے بہت سے کھلونے بنانے والے ہیں جو صنف پر مبنی کھلونے بنا رہے ہیں کیونکہ لوگ ایسے کھلونے خریدنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں یہ مانگ اور سپلائی کا معاملہ ہے۔ لیکن اگر بڑی ٹرینڈ سیٹ کرنے والی کمپنیاں صنفی غیر جانبدار کھلونے بناتی ہیں جیسا کہ لیگو نے کیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس انڈسٹری میں چھوٹی کمپنیوں پر بھی اثر ہوگا اور وہ ان کے نقش قدم پر چلیں گی اور اس سے ایسے کھلونوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگا۔

لیکن مارکیٹ کیا کہتی ہے ؟

فن سکول کھلونے بنانے والی کمپنی ہے۔ کمپنی کے سی ای او آر جیسونت کا کہنا ہے کہ انڈیا کی کھلونوں کی مارکیٹ نئی ہے۔ پرانے بازاروں میں یعنی ایسے ممالک جہاں کئی سالوں سے کھلونوں کی مارکیٹ ہے وہاں اس طرح کا رجحان زیادہ ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ حال ہی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے کھلونوں سے کھیل رہے ہیں اور یہ رجحان بھی نظر آرہا ہے۔

چنئی سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ‘میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ ہر قسم کے کھلونوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم اس رجحان کی بنیاد پر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے۔ یقینی طور پر کچھ کھلونے لڑکوں کے لیے بنائے جاتے ہیں اور کچھ لڑکیوں کے لیے۔ جیسے لڑکیاں گڑیا سے زیادہ کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ اور فن سکول نے صنفی غیر جانبدار کھلونے بنانے کے لیے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا میں کھلونوں کی مارکیٹ ابھی تیار ہو رہی ہے اور یہ رجحان بڑھتا جائے گا۔ لیکن یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ صنفی طور پر غیر جانبدار کھلونوں کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کے مطابق انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی تعداد میں بچے رہتے ہیں لیکن کھلونوں کی مارکیٹ میں انڈیا کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ انہیں توقع ہے کہ مستقبل میں یہ حصہ بڑھے گا۔

لیکن کھلونوں میں فرق کیوں؟

پنجاب یونیورسٹی میں خواتین کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر عامر سلطانہ کا کہنا ہے کہ جب آپ لڑکیوں اور لڑکوں کے کھلونے دیکھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ لڑکیوں کے زیادہ تر کھلونے گلابی یا نرم رنگ کے ہوں گے پھر لڑکوں کے نیلے۔

وہ رنگوں کے بارے میں تھیوری پیش کرتی ہیں۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں وہ کہتی ہیں ‘جیسے گلابی رنگ خوبصورتی کی علامت ہے اور آپ نیلے رنگ کو آسمان سے جوڑتے ہیں جو لامحدود ہے یعنی آسمان یا سمندر۔ نیلا رنگ طاقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں ‘اگر آپ لڑکیوں کے کھلونے دیکھتے ہیں تو اس میں ایک پدرسری ذہنیت نظر آتی ہے کیونکہ آپ اس کے کھلونوں کو پرورش کرنے والے کردار یا پرورش کے کردار میں بھی دیکھیں گے۔ اسی طرح کے کھلونے جیسے گڑیا ، کچن سیٹ یا میک اپ سیٹ دیکھے جائیں گے جبکہ لڑکوں کے لیے ایڈونچر سے متعلق کھلونے ہوں گے جیسے روبوٹ، گاڑیاں یا بندوقیں جو مردانہ جارحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو ملٹی ٹاسکنگ سکھائی جاتی ہے جیسے گھر کی دیکھ بھال کرنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا۔ نئی جہتیں ان کے لیے ایک آپشن کے طور پر بتائی جا رہی ہیں لیکن لڑکوں کو ابھی تک یہ نہیں سکھایا جا رہا ہے۔

ایک ریسرچ سکالر ساکشی سنگھل کا کہنا ہے کہ کھلونا کمپنیوں کا لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کھلونے بنانے کا مقصد ضرور منافع کمانا ہوگا۔

لیکن اگر آپ دیکھیں بہت سی دکانوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کھلونوں کے مختلف حصے ہیں تو وہاں جا کر بچے سوچتے ہیں کہ یہ کھلونے میرے لیے ہیں۔ اسی طرح سماجی اور صنفی کرداروں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے اور بچے دیکھتے ہیں کہ ماں کہاں کام کر رہی ہے اور والد باہر کام پر جاتے ہیں’۔

وہ بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں مزید کہتی ہیں ‘والدین بیٹیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں ’مساوات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، متبادل دیے جا رہے ہے لیکن لڑکوں کو اسی طرح نہیں سکھایا جا رہا ہے۔ انہیں جذبات کا اظہار کرنا نہیں سکھایا جاتا ان سے صرف مضبوط ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔

اسی طرح اگر لڑکے گڑیا سے کھیل رہے ہیں تو ان کا مذاق اڑایا جائے گا اور انہیں کمزور سمجھا جائے گا کیونکہ وہ تصور لڑکیوں سے وابستہ ہے۔

لیگو کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صنفی دقیانوسی تصور بچوں کی تخلیقی نشوونما کو متاثر کرتا ہے اور اس کریئر کو بھی متاثر کرتا ہے جسکا وہ آگے جا کر کا انتخاب کرتے ہیں۔

ساکشی سنگھل کا خیال ہے کہ کھلونے بچے کی نشوونما میں بھی اہم ہوتے ہیں۔ صنفی غیر جانبداری کے علاوہ ایسے کھلونے بنائے جائیں جو بچوں کی جذباتی ، سماجی ، اخلاقی اور علمی نشوونما میں معاون ہوں۔

ان کے مطابق کھلونوں کا کوئی رنگ یا جِنس نہیں ہوتی۔