ایک عام انسان کے لئے 80 ڈیسی بل سے زائد کی آواز
نہایت نقصان دہ ہے ۔ شہری قوت سماعت میں کمی، ہائپرٹینشن، بے خوابی، بے چینی،
امراض قلب اور بلڈپریشر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔
کراچی :کراچی
کو ملک کے سب سے بڑے شہر ہونے کی سزا مل رہی ہے۔
یہاں
سڑکوں پر چوبیس گھنٹے گاڑیاں دوڑتی پھرتی ہیں جو ترقی کا آئینہ سہی مگر یہی
گاڑیوں کا شور، چنگاڑتے ہارن اور دھواں اگلتے سائلنسرز شہر کے باسیوں کا سانس لینا
دوبھر کررہی ہیں۔
ان کا
بے ہنگم شور ان کے مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کر رہا ہے۔ وہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہو
رہے ہیں۔ بے تحاشا شور صحت کے اعتبار سے انہیں کھوکھلا کررہا ہے۔
جناح
اسپتال کے سابق میڈیکل آفیسر اور ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر سلیم اللہ صدیقی نے وی
او اے سے گفتگو میں بتایا :
’شہر
میں ایک دو نہیں ایک درجن سے زائد مقامات ایسے ہیں جہاں شور مقرر حد سے کہیں زیادہ
ہے۔ یہ شہریوں کے لئے انتہائی مضر صحت ہے۔ اس سے نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں، طبیعت
میں چڑچڑا پن عام مشاہدے کی بات ہے جبکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کی سماعت متاثر
ہوئی ہے اور وہ عام لوگوں کے مقابلے میں تیز یا چیخ کر بولتے ہیں۔ یہ شور سے
مثاثرہ ہونے کی نشانی ہے جو اکثر نوٹ بھی نہیں کی جاتی ۔‘
دنیا
نے جدید نظام کے ذریعے شور پر قابو پا لیا ہے لیکن پاکستان میں یہ اس قدر نظر
انداز کردیا گیا ہے کہ جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آنے والے
دنوں کا بہت سنگین مسئلہ ہے۔
ماہرین
ماحولیات کے مطابق ایک عام انسان کے لئے 80 ڈیسی بل سے زائد کی آواز نہایت نقصان
دہ ہے لیکن یہاں پرواہ کون کرے۔۔اور دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔۔جیسے فقرے بول ہر ریت
میں منہ چھالیا جاتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے شہری قوت سماعت میں کمی، ہائپرٹینشن، بے
خوابی، بے چینی، امراض قلب اور بلڈپریشر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار اسی شور اور
اس سے بڑھ کر اس بلا کی نظر اندازی پر ہورہے ہیں ۔
شہر
میں سب سے زیادہ شور ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر اور ایمپریس مارکیٹ صدر کے آس
پاس ہوتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ بقول ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اخترشور زدہ علاقوں کے
رہنے والے بذات خود اونچی آواز سننے اور تیز بولنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق شوز والے علاقوں
کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ سال پہلے کا جائزہ لیں تو ان کے مقابلے میں
ٹریفک کئی گنا زیادہ ہے اور اس کے ساتھ ہی ان سے نکلنے والا شور بڑھ رہا ہے ۔ اس
شور سے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر بہت کم لوگ اس بات سے واقف
ہیں کہ انسان کے دماغ پر ناپسندیدہ آوازوں کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔
بشکریہ اردوVOA