زینب تمام مظلوموں کا چہرہ بن گئی ہے

نادیہ جمیل
تصویر کے کاپی رائٹNADIA JAMIL/FACEBOOK
زینب کے قتل کے بعد پاکستان نے پہلی بار ایسی جانی مانی ہستیاں سامنے آئی ہیں جنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بارے میں کھل کر بات کی ہے اور #MeToo کے ہیش ٹیگ کی مدد سے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ ان مشہور شخصیات میں سب سے پہلا نام اداکارہ اور سماجی کارکن نادیہ جمیل کا ہے۔ ہماری ساتھی فیفی ہارون نے نادیہ جمیل سے ان موضوعات پر بات کی۔
ہر روز اخباروں میں پانچ سے چھ چھوٹی چھوٹی خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ بچی کی لاش ملی ہے جنسی تشدد کے بعد پھینک دی گئی۔
یہ نئی چیز نہیں ہے، لیکن اب ان بچیوں کے نام نکل رہے ہیں، زینب، اسما، کائنات بتول، یہ نام سامنے آ رہے ہیں۔ جن وکیلوں کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، انھوں نے مجھے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں کیس آئے ہیں۔ ساڑھے سات سو کیس تو 2015 کے بعد سے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے

اماں میں بھی تو زینب ہوں

اس پر میڈیا میں شور مچا تھا اور میڈیا اپنی ریٹنگ کے لیے واہیات طریقے سے بچوں سے جا کر پوچھتا تھا کہ 'بیٹا آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟' یہ نہیں سوچا کہ بچوں پر تو پہلے ہی صدمہ گزرا ہے، ان لوگوں کے نام بھی سامنے آئے، لیکن پھر سب کچھ دب گیا، نصاف نہیں ملا۔
میری نظروں میں زینب شہید ہیں کیونکہ ان تمام واقعات کو زینب کے چہرے کی وجہ سے ایک نام ملا ہے۔ لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ ہماری خاموشی کی وجہ سے یہ معاملہ پھیل رہا ہے۔
اس بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا کب تک بات کرتے رہیں گے، کام ہونا چاہیے۔
ایک تو یہ کہ انصاف ملنا چاہیے۔ ان بچوں کو بھی اور ان ک گھر والوں کو بھی۔ دوسری چیز تعلیم ہے، آپ اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم دیں کہ اس طرح کے آدمی ہمارے معاشرے میں پیدا ہی نہ ہو اس کینسر کو روکنا ہے۔ آپ کتنے لوگوں کو پھانسی لگائیں گے، کتنے لوگوں کو ماریں گے؟ کروڑوں اور نکل آئیں گے۔
کوئی آدمی برا پیدا نہیں ہوتا، معاشرہ اسے سکھاتا ہے۔ یہ چیز صدیوں سے چلتی آ رہی ہے، اس لیے ایسا نہیں کہ یہ چٹکیوں میں ختم ہو جائے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے مردانگی کا ایک چہرہ بنا لیا ہے، مولا جٹ، جبر، ڈنڈا، بندوق۔ آپ کو یہ مردانگی کا چہرہ بدلنا پڑے گا۔ یہ ہمارے مردوں سے بھی ان کی حساسیت چرا رہا ہے، یہ مردوں پر بھی تشدد ہے۔ مرد کیوں نہ روئے؟ مرد حساس کیوں نہ ہو؟
نادیہ نے کہا کہ جن خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ اس لیے خاموش رہتی ہیں کہ عزت نہ لٹ جائے۔ 'تو یہ جو کہا جاتا ہے کہ عزت لٹ گئی، تو اول تو یہ کہ میری عزت میری ہے کوئی مجھے چوٹ پہنچائے اور میں ہی شرمندہ ہوں؟ نہیں! شرمندہ تو اسے ہونا چاہیے جس نے مجھے چوٹ پہنچائی ہے۔
'جب بچہ اس طرح برداشت کرتا رہے گا اور اگر سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گا تو وہ بچی جب عورت بنے گا، وہ بچہ جب مرد بنے گا تو وہ اپنے بالغ تعلقات بھی درست طریقے سے قائم نہیں رکھ سکے گا۔'
نادیہ نے بتایا کہ ان کے ساتھ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوں نے بچپن میں جنسی زیادتی کی، لیکن اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے ان مردوں پر غصہ نہیں ہے جنھوں نے میرے ساتھ زیادتی کی، کیونکہ وہ خود معاشرے کا نشانہ ہیں۔'
جو بچے زیادتی کا نشانہ بن گئے ہیں ان کی کونسلنگ کیسے کی جائے؟
'ہمیں چاہیے کہ ہم تشدد کا شکار بچوں کو سکھائیں کہ زندگی ابھی بھی تمہارے لیے ایک آپشن ہے، غصہ، تکلیف ایک طاقت ہے۔ اسی طاقت کو اپنے سہارے کے لیے استعمال کریں۔'
جو بچے زندہ نہیں رہے جیسے زینب، ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
'زینب میں ہوں، تم ہو، اور ساری عورتیں ہیں جن کے ساتھ یہ واقعات پیش آئے، اور تمام چھوٹے بچے اور تمام خواتین، اگر وہ نہ بولے آپ کو پتہ ہے کہ یہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں صرف لڑکیاں ہی مظلوم نہیں ہیں، لڑکوں کے ساتھ بھی بہت برے برے حادثے ہوئے ہیں۔
لاہور
تصویر کے کاپی رائٹ
اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز انصاف ہے، ان والدین کے لیے، معاشرے کے لیے اور معاشرے کی تسلی کے لیے۔ ریپ کرنے والے کو دکھانے کے لیے کہ اس معاشرے میں ابھی بھی انصاف باقی ہے۔
دوسری چیز والدین کی کونسلنگ بہت ضروری ہے اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بھولنا مت، اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔
'ہم اتنا گھٹیا معاشرہ بن چکے ہیں کہ بچوں کی موت ہمیں ہمیں سکھاتی ہے۔ میں نے کبھی کسی بچے کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر نہیں کی لیکن زینب کی تصویر کو شیئر کرنا لازمی تھا۔ اس کے مسکراتے ہوئے پر اعتماد شرارتی چہرے کے ساتھ گلابی کوٹ میں۔ ضروری تھا کہ میں اس کی ٹوٹی ہوئی لاش کی تصویر کوڑے کے ڈھیر پر دکھاؤں۔ لازمی تھا کہ میں دکھاؤں کہ یہ اپنا مستقبل ہے جو تم لوگ بنا رہے ہو۔
'مجھے لوگوں نے کہا کہ یہ بےادبی ہے، ضرور ہے، مگر اتنی نہیں جتنا وہ حادثہ ہے جس نے اس بچی کے جسم کو اس کوڑے کے ڈھیر تک پہنچایا، اور یہ دیکھ کر ہل جاؤ کہ اگر ہم ابھی بھی باشعور نہ ہوئے تو یہ ہمارا مستقبل ہے۔'

بشکریہ بی بی سی اردو