نیئر نیاز خان
مجھے خبر ملی ہے کہ میں جس ملک میں پیدا ہوا تھا وہاں میری زندگی پر کوئی فلم بنائی گئی ہے۔ اور بٹوارے کے بعد میں نے جس ملک میں سکونت اختیار کی تھی یا اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس ملک میں اس فلم کی ریلیز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
سب سے پہلے تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ اتنے برس بیت جانے کے باوجود برصغیر کے لوگوں نے ابھی تک مجھے کسی نہ کسی شکل میں یاد رکھا ہوا ہے۔ زندگی میں میری کہانیاں تو روح اور پیٹ کی آگ بجھا نہ سکیں۔ اب آپ کے کس کام کی؟ قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی ان سے ذکر کیا تو کہنے لگے۔ حیرت کس بات کی تم خود ہی لکھ کر جو آئے تھے کہ سعادت حسن اور منٹو ایک ساتھ زندہ تھے۔ سعادت حسن شاید مر جائے گا لیکن منٹو پھر بھی زندہ رہے گا۔ پگلے جب خود ہی کہہ دیا تھا کہ منٹو زندہ رہے گا تو اب اس بازگشت پر حیرت کیسی؟ قاسمی صاحب کا ممنون ہوں کہ زمین پر بھی ایسے ہی رہنمائی فرماتے تھے اور ان کی شفقت اسی طرح برقرار ہے۔ اس لیے یقین ہو گیا کہ منٹو شاید زندہ ہو!
ہاں تو بات وہیں سے شروع کروں گا۔ جہاں آج سے کوئی 63 برس پہلے آپ کی زمین پر آخری سانس لینے تک لکھتا رہا۔ لکھنا۔ کاغذ۔ قلم اور کتاب شاید آپ کے لیے عجیب سے الفاظ ہوں۔ اس لیے کہ کچھ عرصہ پہلے احمد فراز کے بارے میں ایک دوست نے بتایا کہ وہ بھی آگئے ہیں۔ ملنے چلا گیا تو فیض۔ علی سردار جعفری۔ ساحر۔ ساغر۔ اور جون بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ فراز صاحب نے بتایا کہ اب قلم کاغذ اور لکھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ایک مشین آ گئی ہے جو یہ سارے کام کر لیتی ہے۔ کہہ رہے تھے اس مشین کا نام کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر کے فضائل پر فراز صاحب کی بات سب لوگ بڑے انہماک سے سن رہے تھے کہ ساغر صدیقی نے فیض صاحب کے متجسس چہرے کی طرف دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا کہ فیض صاحب کی ”متاع لوح و قلم“ کسی کمپوٹر نامی مشین نے چھین لی۔ ساغر کی بزلہ سنجی پر جون نے ایک آہ بھری اور کہا کہ ”یہ لاہوری لونڈا کبھی نہیں سدھرے گا“
مجھے فراز سے جاننے کی جستجو تھی کہ میرے عہد کے سماجی۔ معاشی اور معاشرتی رویوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟ اس لیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا براہ راست اثر ان رویوں کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن فیض صاحب نے یہ بات کہہ کر میرادل ہی توڑ دیا کہ سائنسی ترقی کا اثر وہاں ہوتا ہے۔ جہاں سائنس کو ایک فکر کے طور پر اپنایا جائے۔ جہاں سے ہم آئے ہیں وہاں کی تحریکیں یا ماضی کے مزاروں کے گرد گھومتی ہیں۔ یا فروعی اختلافات کے گرد۔ نسل پرستی۔ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی میں سائنسی ترقی سماجی اور معاشی رویوں کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
ہم نے باہم رضامندی سے اتفاق کیا کہ مستقبل میں ایک باقاعدہ سٹڈی سرکل کا اہتمام کرتے ہیں اور جب بھی کوئی نیا مہمان دنیا سے ہمارے ہاں آئے گا۔ اسے خوش آمدید کہنے کے لیے محفل کا اہتمام کیا کریں گے تاکہ اپنے تجزیے پیش کر سکیں۔
ایک دن جون ایلیا نے بتایا کہ سٹیفن ہاکنگ نامی ایک انگریز نیا نیا یہاں آیا ہے اور دنیا میں محو جستجو اپنے ہی قبیلے کا بندہ تھا۔ وقت کی تاریخ۔ بلیک ہولز۔ اور بگ بینگ جیسے مضامین پر کام کرتا رہا ہے۔ مجھ جیسے کے پلے تو یہ چیزیں بھلا کیا پڑتیں لیکن پھر بھی اس سے ملنے چلا گیا۔ اور بھی بہت سارے انگریز اس سے ملنے آئے تھے۔ ژاں پال سارتر۔ اور آئن سٹائن کو تو میں نے پہچان لیا اس لئے کہ ان کی تصاویر دیکھ رکھی تھیں۔ لیکن بہت سے اور چہرے اجنبی تھے۔
خاموشی سے بیٹھ گیا۔ ایک تو فرنگی زبان کی سمجھ نہیں اور دوسرا ان کی ٹرمنالوجی کی مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی۔ ایک قدرے کم عمر کا انگریز میری طرح خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ کسی نے بتایا کہ اس کا نام۔ Apple سٹیو جابز ہے اور ایپل کا بانی اور مالک تھا۔ کھربوں کی جائیداد تھی۔ مجھے حیرت ہوئی اس لیے کہ میں تو ایپل کا مطلب صرف سیب جانتا تھا۔ لیکن کسی نے بتایا کہ کمپیوٹر نامی مشین نے دنیا کو جو اپنی مٹھی میں بند کر لیا ہے۔ اس میں سٹیو کی کمپنی ایپل کا بڑا کردار ہے۔ خیر اس فرنگی محفل میں میرے لیے دلچسپی کا کوئی سامان موجود نہیں تھا۔
وہ حرکت کے قانون۔ ارتقا کے نظرئیے۔ مادیاتی تبدیلی۔ مابعدالطبیعات۔ اور وجودیت کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اٹرات پر بحث کر رہے تھے۔ جن موضوعات کے ساتھ نہ ہی تو مجھے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اتنی سمجھ بوجھ۔
بالکل ایسا بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ ان فرنگیوں نے کچھ باتیں بڑی دلچسپ بھی کیں۔ کہ وہ انسانوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے زمین سے بہت دور کوئی اور بستی بسانے کی باتیں کر رہے تھے۔ فلیمنگ بھی وہیں موجود تھا اور سب اس کی مدح سرائی کر رہے تھے کہ زندگی بچانے کی ادویات اور بیماریوں پر قابو پانے کی تکنیک کتنی کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے۔ گراہم بیل کو تو سب نے صدر محفل بنایا ہوا تھا اور کم عمر خاموش طبع سٹیو جابز کسی پیر کے مرید کی طرح گراہم بیل کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا۔
جب سے فرنگیوں کی محفل سے لوٹا ہوں۔ کوئی عجیب سی بے چینی سونے نہیں دے رہی۔
ہر وقت زمین کی یاد ستائے جا رہی ہے۔ اپنے لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ میری پریشانی دیکھ کر میرے پڑوس میں امریتا پریتم شام کو ملنے آ گئی۔ اسے اپنے آنگن میں دیکھ کر پہلا سوال یہی کیا کہ ساحر کو پتہ ہے کہ تم مجھ سے ملنے آئی ہو۔ افسردہ ہو کر کہنے لگی کہ وہ ابھی تک ”کورے کاغذ کی داستان“ ہی ہے۔ یہاں بھی فاصلے بنائے رکھتا ہے اور خواب ہی دیکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔
ایک بات کی بڑی خوشی ہوئی کہ امرتا یہاں بھی پنجابی بولتی ہے اور وارث شاہ۔ اور بھلے شاہ کا کلام سناتی رہتی ہے۔ جس سے اپنا دل بھی بہل جاتا ہے۔ مجھے افسردہ دیکھ کر پوچھنے لگی کہ سعادت اب تو پریشانیوں سے نکل آو۔ میں نے کہا کہ میں اپنے لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ لیکن اس بستی سے ایسا کوئی بندہ اس جہاں میں آ ہی نہیں رہا جو مجھے وہ سب کچھ بتا سکے جو میں جاننا چاہتا ہوں۔ کہنے لگی سعادت میں تمھیں جانتی ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ تم کیا جاننا چاہتے ہو۔ ایدھی صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ ان سے جان لینا شاید کچھ سوالوں کے جواب مل جائیں۔ کچھ سال پہلے آرمی پبلک سکول کے بچے آئے تھے ان سے مل لینا۔ دور کیوں جاتے ہو کچھ عرصہ پہلے تمھارے شہر سے ہی سلمان تاثیر بھی آئے تھے۔ وہ بہت کچھ بتا دیں گے۔ اور کچھ ہی مہینے پہلے قصور سے ننھی زینب بھی آئی ہے۔
امرتا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں سے ملنے چلا گیا تو اپنے تجسس بھرے سوالوں کے جواب مل گئے۔ اور یہ راز بھی جان گیا کہ میری زندگی پر بنی فلم ”منٹو“ پر پابندی کیوں ہے۔
زینب۔ ایدھی صاحب۔ سلیمان تاثیر اور آرمی پبلک سکول کے بچوں سے ملنے کے بعد نیند تو بالکل غائب ہو گئی۔ اور سوچ کی پرواز ٹھنڈا گوشت اور کالی شلوار کے عہد میں لے گئی۔ کہ جبر۔ تشدد۔ جہالت اور پسماندگی کے عفریت نے ابھی تک ہمارے آنگن میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ اور امن۔ انصاف اور آزادی ابھی تک اس دھرتی کے لوگوں کے لیے معض ایک خواب ہی ہے۔ اپنا لکھا ہوا یہ جملہ یاد آ گیا کہ انگریز چلا گیا ہندوستان آزاد ہو گیا۔ پاکستان بن گیا۔ لیکن سرحد کی دونوں اطراف انسان آزاد نہ ہو سکا۔
امید کر سکتا ہوں کہ آپ لوگ میری چٹھی پڑھ کر انسان کی آزادی کے بارے میں بھی سوچیں گے تاکہ کل کوئی نیا جب ہمارے جہاں میں آئے تو فرنگیوں کی محفل میں بیٹھ کر میری طرح گفتگو سے اجنبیت اور شرمندگی محسوس نہ کرے۔
آج اپنی دھرتی کی بہت یاد آئی تو سوچا کیوں ناں آپ کو چٹھی لکھ دوں۔ چٹھی کی طوالت کے لئے معذرت۔ جب بھی کوئی نیا آئے مجھ سے ضرور ملیے گا۔ سعادت حسن کا پوچھ لینا اس لیے کہ منٹو کو تو میں آپ کے حوالے کر آیا تھا۔ اور لگتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔
آپ کا خیر اندیش
سعادت حسن