ناصر صلاح الدین
ایک ہی جنس کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والے جنسی میلان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وراثتی یا موروثی ہے. انگلستان اور ویلز میں باہمی رضا مندی کے تحت قانون جنسی جرائم مجریہ 1967ء کے تحت اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں بھی اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام سمیت اکثر مذاہب میں یہ ناجائز اور سخت حرام ہے اور اس کا مرتکب مستوجب سزا ہے۔
ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں اس وقت اور جو ممالک سرگرم ہیں ان میں امریکہ پیش پیش ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور ہم جنس پرستی کے حق میں مختلف دلائل دے رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں امریکی تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ ہم جنس پرست مردوں کی آپس کی شادیاں صحت مند ماحول پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے ہم جنس پرست مرد بیماریوں کا کم شکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ قانونی جیون ساتھی مل جانے سے ہم جنس پرست مرد اس اضطراری کیفیت سے نکل آتے ہیں جس کا شکار وہ ہم جنس پرست ہونے اور اپنا ساتھی نہ ملنے کے باعث رہتے تھے۔
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے 113ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ جن میں مالی، اردن، کاغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا اور آذربائیجان جیسے 9 مسلمان ممالک بھی شامل ہیں اور 76ممالک میں غیر قانونی ہے۔
ہم جنس پرستوں کی عالمی تنظیم International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Inter-sex Association( آئی ایل جی اے) 1978 میں معرض وجود میں آئی۔ جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بسنے والے ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ اب یہ تنظیم 110ممالک میں کام کر رہی ہے۔
آئی ایل جی اے کو 2008 میں اس وقت شہرت ملی کہ جب اس کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کی توثیق کی۔ اس موقع پر گرما گرم بحث ہوئی اعلامیہ کے حق میں 23 جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔ اس اعلامیہ کے حق میں امریکہ ، یورپی یونین ، برازیل اور دیگر لاطینی امریکی ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس ، سعودی عرب ، نائجیریا ، پاکستان نے مخالفت کی ہے جبکہ چین اور دیگر ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ موریطانیہ سمیت کچھ ممالک نے اس قرارداد کو انسانیت کے بنیادی حقوق کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا۔
جن ممالک میں ہم جنس پرستی کی اجازت ہے ان میں سے بیشتر ممالک میں اب اسی موضوع پر فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ جیسے اب بھارت میں بھی ہم جنس تعلقات پر فلمیں بن رہی ہیں۔ اسی طرح ترکی میں فلم Zenne میں ہم جنس پرستی سے متعلق ایک حقیقی واقعے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ واقعہ 2008 میں پیش آیا تھا جب 26سالہ طالب علم، احمد یلدز کو استنبول میں اس کے فلیٹ کے باہر اس کے والد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس کا والد اپنے بیٹے کو ایک ہم جنس پرست کے طور پر دیکھنا برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس فلم کو ترکی کے مذہبی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق یہ فلم ہم جنس پرستی کی حمایت میں پروپیگنڈا ہے۔ جبکہ اس فلم نے پانچ ایوارڈ بھی جیتے۔ ایک ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کی گئی اس فلم کی مالی معاونت ہالینڈ کے سفارت خانے نے کی تھی۔
بھارت میں مرد ہم جنس پرست جریدے ”تفریح“کی اشاعت جولائی 2011 میں شروع کی گئی تھی۔ یہ میگزین جب مارکیٹ میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔ اس میگزین میں نوجوانوں اور جنسی مسائل سے متعلقہ مضامین کے ساتھ ساتھ انڈرویئر پہنے ہوئے ماڈلز اور جدید کاروں کی تصاویر شائع کی گئیں تھیں۔
ہم جنس پرستی کے حوالے سے برطانیہ میں اپنی نوعیت کے پہلے مقدمے کی سماعت بھی جاری ہے کہ جس میں تین مسلمانوں کو ہم جنس پرستی کے خلاف نفرت پھیلانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے ایسا تحریری مواد تقسیم کیا جس میں کہا گیا تھا کہ معاشرے کو ہم جنس پرست خواتین اور مردوں سے چھٹکارا دلوانے کے لیے سزائے موت جائز ہے۔ انہیں اس نئے انگلش قانون کے تحت قصوروار پایا گیا جس میں لوگوں کے جنسی میلان کی بنا پر ان سے نفرت ابھارنا جرم ہے۔ برطانیہ نے ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو باہم ”شادی“ کرنے کا قانون ”سول پارٹنرشپ“دسمبر 2005ءمیں بنایا تھا۔
آئی ایل جی اے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہم جنس پرستی کو 1968 میں قانونی قرار دیا گیا جبکہ یونان میں 1951، امریکہ 2003، آسٹریلیا اور ہنگری 1962، آئس لینڈ 1940، آئرلینڈ 1993، اٹلی 1890، کوسوو 1994، لٹویا 1992، لیتھونیا 1993، لگسمبرگ 1795، برکینا 2004، چاڈ ، کانگو، آئیوری کاسٹ ،گنی، 1931گبون ، گنی بساﺅ 1993، مڈاگاسکر ، مالی ، نائیجر، روانڈا، جنوبی افریقہ 1998، کمبوڈیا ، چین 1997، مشرقی تیمور 1975، بھارت 2018، انڈونیشیا، اسرائیل 1988، جاپان 1882، اردن 1951، کازکستان 1998، کرغستان 1998، لاﺅس ، منگولیا 1987، نیپال 2007، شمالی کوریا، فلپائن ، جنوبی کوریا، تائیوان 1896، تاجکستان 1998، تھائی لینڈ 1957، ترکی 1858، ویتنام البانیہ فلسطین 1995، انڈورہ ، آرمینیا2003، آسٹریا 1971، آزربائیجان 2000، بلجیم 1795، بوسنیا 1998، بلغاریہ 1968، کروشیا 1977، سائپرس 1998، چیک رپبلک 1962، ڈنمارک 1933، اسٹونیا 1992، فن لینڈ 1971، فرانس 1791، جارجیا 2000، میکوڈینیا 1996، مالٹا 1973، مالدیپ 1995، مناکو1793، مانٹیگرو1977، نیدر لینڈ 1811، ناروے 1972، پولینڈ 1932، پرتگال 1983، رومانیہ 1996، روس 1993، سان مارنیو 1865، سر بیا 1994، سلاوکیہ 1962، سلوانیا1979، سوئٹزرلینڈ 1942، یوکرائن 1991، برطانیہ 1929، ویٹی کن سٹی 1929، ارجنٹائن1887، باہاماس1991، بلوویا1831، برازیل 1831، کوسٹ ریکا1971، چلی 1999، کولمبیا 1981، کیوبا 1979، ایکاڈور1997، سالواڈور ، گوئٹے مالا، ہیٹی، ہنڈراس1899، میکسیکو 1872، نکاراگوا 2008، پاناما 2008، پیراگوئے 1880، پیرو 1836، سورینام 1869 ، اوگرائے 1934، وینزویلا ، فیجی 2010، مارشل آئی لینڈ 2005، نیوزی لینڈ 1986 میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔
آئی ایل جی اے کی رپورٹ کے مطابق ایران ، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن ، پاکستان اور سوڈان سمیت 76 ممالک میں ہم جنس پرستی پر پابندی ہے اور اس جرم میں سزائے قید سے لے کر سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ ان ممالک میں الجیریا، انگولا، بوسٹوانہ ، بورونڈی، کیمرون ، کوموروس، مصر، ایریٹیریا، ایتھوپیا، گیمبیا، گنی، کینیا، لائیبیریا، لیبیا، ملاوی، مراکش، موزمبیق، نائیجریا، سینیگال، سیریا لیون ، صومالیہ، تنزانیہ، یوگنڈا، زمبابوے، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، برونائی، برما، کویت، لبنان، ملیشیا، عمان، قطر، سنگاپور، سری لنکا، شام، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، یمن، برمودہ اور جمیکا وغیرہ شامل ہیں۔
جب ہم جنس پرستی کی ریسرچ کا آغاز ہوا تو اسے پہلے پہل ایک نفسیاتی خرابی کے طور پردیکھا جاتا تھا۔ اس مسئلہ پر سائیکالوجی برسوں کے منظم مطالعہ کے بعد موجودہ پوزیشن پر پہنچی ہے۔ لیکن ہم جنس پرستی سے متعلق موجودہ رویے کی جڑیں مذہبی قانونی اور ثقافت کی مضبوط قدروں میں پیوست ہیں۔ قرون وسطی کے آغاز میں عیسائی چرچ ہم جنس پرستی کو برداشت کرتا یا کم سے کم چرچ کے باہر اسے نظر اندازکردیا جاتا تھا۔ تاہم بارہویں صدی کے آخر میں یورپ کے سیکولر اور مذہبی اداروں میں ہم جنس پرستی کو قابل نفرت نگاہوں سے دیکھا جانے لگا تھا۔ عیسائی مذہبی رہنما ایکویناس سینٹ اور دیگر نے اپنی تحریروں میں ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے اس کی خوب مذمت کی۔ انیسویں صدی تک ہم جنس پرستی کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔ قانون کی نظر میں یہ فعل نہ صرف قابل سزا تھا بلکہ اس کے مرتکب کو موت کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ جس کے بعد لوگ ہم جنس پسندی کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ طب اور سائیکالوجی نے اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے قانون اور مذہب کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرنے لگا۔ 19 ویں صدی کے آغاز میں لوگوں نے سائنسی طور پر ہم جنس پرستی کا مطالعہ شروع کیا۔ اس وقت سب سے زیادہ یہ نظریہ حاوی تھا کہ ہم جنس پرستی ایک بیماری ہے۔ لیکن اس نظریہ پر موثر ثقافتی اثرات صاف نظر ارہے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط میں علم نفسیات میں ہم جنس پرستی سے متعلق نظریات میں تبدیلی آگئی تھی۔ ماہرین نفسیات کو یقین ہو گیا تھا کہ تھراپی کے ذریعے ہم جنس پرستی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دیگر جینیاتی اور ہارمونل نظریات بھی قبول کرلئے گئے تھے۔ ان دنوں ہم جنس پرستی کو مرض کے طور پر نہیں بلکہ مختلف حالت کے اعتبارسے دیکھا جانے لگا تھا۔
سگمنڈ فرایڈ اور ہیولاک ایلس کی طرح کچھ ماہرین نے ہم جنس پرستی پر مزید قابل قبول مؤقف اختیار کیا۔ فرایڈ اور ایلس کا خیال تھا کہ کچھ افراد میں ہم جنس پرستی عمومی نتیجہ کے طور پر ابھرتی ہے۔ الفریڈ کینسے کی ریسرچ اور مطبوعہ تحریروں میں سماجی اور ثقافتی نقطہ نظر کے تحت اس سے متعلق ابنارمل حالت سے دوری اختیار کی گئی۔ نفسیاتی مطالعہ میں اس نقطہ نظر کی منتقلی کو پہلی مرتبہ 1952 میں (Diagnostic Statistical Manual (DSM کے ورژن میں پیش کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ لیکن 1973 میں اسے حذف کردیا گیا۔
نفسیاتی تحقیق کے اہم مباحث
ہم جنس پرستی کے اہم نفسیاتی تحقیق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا گیاہے:
1۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ کچھ لوگ اپنی ہی جنسی کی طرف مائل ہوتے ہیں ؟
2۔ کن وجوہات کی بنیاد پر ہم جنس پرست عوامی امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔ اور کیونکر یہ متاثر کن ہوسکتا ہے؟
3۔ ہم جنس پرستی کی عادت سے کسی کی عمومی اور نقسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے ؟
4۔ موافق ساجی حالات کی تبدیلی کیلئے کونسےکامیاب طریقہ کار اختیار کئے جاسکتے ہیں ؟کیوں کچھ لوگوں کیلئے ہم جنس پرستی مرکزی شناخت رکھتی ہے جبکہ دیگرکیلئے ضمنی شناخت کی حامل ہے۔ ؟
5۔ ہم جنس پرستوں کے بچے کیسے پرورش پاتے ہیں۔ ؟
ہم جنس پسندی کی وجوہات
ہم جنس پسندی اور Bisexual ہونے کی وجوہات پر اتفاق نہیں پایا جاتا ہے۔ بہت سے مذاہب میں ہم جنس پسندی یاBisexual کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب میں اسے اختیاری طور پر یعنی آدمی کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے جدید سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی اختیاری نہیں بلکہ جینیاتی اور پیدائش سے قبل ہارمون کے زیر اثر (جب بچہ رحم مادر میں ہوتا ہے) ہوتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کی وجہ سے بھی آدمی اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ یہ بات تقریبا طے ہے کہ اب تک ہم جنس پسندی کی پختہ وجوہات کا علم نہیں ہوسکا ہے۔
اسی طرح بہت سے سائنسداں اور ڈاکٹرز متفق ہیں کہ ہم جنس پسندوں کے رویے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر اسے ایک ذہنی بیماری سمجھ کر علاج کرتے تھے لیکن آج بہت سے ملکوں میں ہم جنس پسندی کو ذہنی بیماری کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے۔ تاہم کچھ مذہبی کمیونٹیز آج بھی ہم جنس پرستی کے علاج کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ ہم جنس پرستی کے علاج کو Reparative طب کہا جاتا ہے۔
اس قسم کے علاج میں بہت سے ہم جنس پرستوں نے خود کو (Heterosexual) یعنی جنس مخالف کی طرف مائل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ علاج سے ان میں تبدیلی بھی آئی ہے، لیکن بہت سے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ہم جنس پسندی اور مخنثانہ صفت (Transgender) صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ بہت سے مختلف انواع کے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسے پینگوئن، چمپنزی اور ڈالفن میں بھی ہم جنس پرستی دیکھی گئی ہے۔ کچھ جانور تو انسانوں کی طرح زندگی بھر اس فعل کے عادی رہتے ہیں۔ اس میں جنسی فعل، محبت، دوہم جنسوں کے تعلقات اور سرپرستانہ طرز عمل بھی شامل ہیں۔
محقق Bruce Bagemihl کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنس پرست رویہ تقریبا 1500 انواع کے جانوروں میں پایا جاتا ہے۔ Bruce Bagemihl کا یہ جائزہ 1999 میں کیا گیا تھا۔ جائزہ کے مطابق 1500 میں سے 500 جانوروں کے انواع سے متعلق بہترین دستاویزات بھی تیار کی گئی ہیں۔ مختلف جانوروں میں یہ جنسی رویے بھی مختلف شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی نوع کے مختلف جانوروں میں بھی جنسی رویہ مختلف پایا گیا ہے۔ جانوروں میں اس رویہ کے مضمرات کو مکمل طور پر سمجھنا ابھی باقی ہے۔ جبکہ کئی انواع کے جانوروں کی ہم جنس پرستی کی وجوہات کا مطالعہ کیا جا چکا ہے۔ Bagemihl کا کہنا ہے کہ جانوروں کی دنیا میں homosexual، bisexual سمیت دیگر جنسی تنوع کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے۔ سائنسی برادری اور سوسائٹی کے مقابل جانوروں کی دنیا زیادہ جنسی تنوع رکھتی ہے۔
جدید دنیا میں ہم جنس پرستی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بیشتر مغربی ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو تشدد اور امتیازی سلوک سے بچانے کیلئے باقاعدہ قانون سازی بھی ہے۔ کئی ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں ہم جنس پرست کو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ خواہ کتنا ہی اچھا ملازم ہو۔ ہم جنس پرستوں کو کرایہ پر مکان کے حصول اور ریستورانٹس میں کھانے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بعض مسلم ملکوں میں اس قبیح فعل کے عادی افراد کو جیل میں ڈالا جاتا ہے جبکہ ان کو موت کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 197 9کے بعد سے ایران میں تقریبا 4000 ہم جنس پرستوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ برطانیہ میں بھی پہلے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن آج انھیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس قانون کے مطابق بالغوں کے بیچ جنسی تعلقات جرم نہیں ہے۔ یہاں ہم جنس پرست مرد اور خواتین آپس میں شادی تو نہیں کرسکتے، لیکن ان کے درمیان شہری شراکت داری ہوسکتی ہے جس کے تحت شادی سے متعلق کچھ حقوق اور فوائد حاصل ہوسکتے ہیں. ہم جنس پرست مرد فوج میں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں.وغیرہ۔۔
اقوام متحدہ تمام اداروں رکن ملکوں کو ہم جنس پسندوں کے حقوق کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی سختی سے کارروائی کی جائے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔
کچھ ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔ ان ملکوں میں ہالینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین، جنوبی افریقہ، سویڈن اور کینیڈا شامل ہے۔ ہالینڈ میں سب سے پہلے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت ملی۔ ہالینڈ میں یہ قانون 2001 میں منظور ہوا تھا۔ اسپین میں 2005 میں اسے قانونی حیثیت عطا کی گئی۔ سب سے آخری میں کینیڈا نے ان شادیوں یعنی ’’گیے میریج‘‘ کو تسلیم کیا۔ سویڈن کے اسٹاک ہوم جیسے مغربی تہذیب کے مراکزمیں ہم جنسی پرستی کی شادیوں کا رواج کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2009ء میں حکومت نے اسے قانونی حیثیت دی۔ مصر میں ہم جنس پرستی پر قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں لیکن معاشرے میں اس کو اب بھی برا سمجھا جاتا ہے۔
ایران میں ہم جنس پرست مردوں یا خواتین کو اپنی جنس تبدیل کروانے پر مجبور کرنا سرکار کی پالیسی نہیں لیکن ان لوگوں پر شدید دباؤ ہوتا ہے۔ 80 کی دہائی میں ایران کے آیت اللہ خمینی نے لوگوں کو اپنی جنس بدلوانے کی اجازت دینے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ حکومت کی پالیسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مخنث ایرانیوں کو اپنی زندگی کو پوری طرح جینے میں مدد دی جا رہی ہے اور انھیں دوسرے ممالک سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو بھی جنس کی تبدیلی کی سرجری کی طرف مائل کیا جا رہا ہے جو مخنث نہیں، بلکہ ہم جنس پرست ہیں۔ سال 2006 میں 170 سرجریز کی گئی تھیں جو 2010 میں 370 ہو گئیں۔ ایک ایرانی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ صرف وہ ہر سال کم از کم 200 آپریشن کرتے ہیں۔
1970 کے بعد سے behavioral۔ social sciences اور صحت اور ذہنی صحت کے پروفیشنلس نے عالمی سطح پر اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانی جنسی رجحان کی ایک عام تبدیلی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اسے ڈس آرڈر سمجھتے ہیں آج بھی اپنے خیالات پر قائم ہیں۔ 1973 میںAmerican Psychiatric Association نے ہم جنس پرستی کو ایک ذہنی خرابیmental disorder کی درجہ بندی سے خارج کر دیا ہے۔ اس کے بعد American Psychological Association Council کے نمائندوں نے 1975 میں اور دیگر دماغی صحت کے تنظیموں سمیت 1990 میں عالمی ادارہ صحت نے بھی آخرکار اسے declassified کر دیا تھا۔ جبکہ American Psychiatric Association اور American Psychological Association کا ماننا ہے کہ حالیہ ریسرچ اور کلنیکل لٹریچر واضح کرتے ہیں کہ ہم جنس پرستی۔ ہم جنس کی طرف رومانی طورپر راغب ہونا ،احساسات ہونا انسانی جنسیات کے نارمل اورمثبت تنوع ہے۔
ہم جنس پرستی سے متعلق سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات پیچیدہ تھے۔ انھوں نے ہم جنس پرستی کے فروغ اور وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سب سے پہلے bisexuality کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کا کہنا کہ دوجنسیت پرستی دراصل جنسی طلب کا ایک عام حصہ ہے۔ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ سگمنڈ فرائیڈ کا ماننا ہے کہ تمام انسان پیدائشی طور پر دوجنسیت پرست ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ libido شہوت یا جنسی لیاقت میں ہم جنس پرستی ہم جنس پسندی اور مخالف جنس پرستی heterosexual کی خواہیش ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک دوسرے پر جیت کا course of development ہے۔ وہ قدرتی bisexuality کیلئے بنیادی حیاتیاتی وضاحت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے مطابق انسان حیاتیاتی طور پر دونوں اقسام کے سکیس کیلئے پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے وہ وضاحت کرتا ہے کہ ہم جنس پرستی عوام کو دستیاب مختلف جنسی متبادلات میں سے ایک ہے۔
فرائیڈ نے تجویز پیش کی کہ انسانی موروثیت bisexuality کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی رہنمائی کی وجہ سے افراد بالآخر منتخب کرتے ہیں کہ جنس پرستی کا کونسا طریقہ زیادہ تسکین بخش ہے۔ لیکن ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے لواطت پرستی کے جذبات بہت سے لوگوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ فرائیڈ کے مطابق اگر کوئی پابندیاں نہ ہو تو عوام اس طریقہ کار کا انتخاب کریں گے جسے وہ زیادہ تسکین بخش سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ پوری زندگی گذار دیں گے۔ کبھی ہم جنس پرست تو کبھی مخالف جنس پرست بن کر۔
ہم جنس پرستی کے دیگر اسباب میں وہ معکوس لاشعوری پیچیدگی (Oedipus complex) کو بھی شامل کرتا ہے جس کے تحت ایک لڑکا خود اپنی ماں اور لڑکی اپنے باپ کے ساتھ جنسی تعلقات کے خواہیش مند ہوتے ہیں۔ اس خواہیش کو خودپرستی کہا جاتا ہے۔ فرائیڈ کا خیال تھا کہ جن میں خودپرستی کی خاصیت زیادہ ہوتی ہے ان میں ہم جنس پرستی کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جنس سے محبت خودپرستی کی توسیع ہے۔
ہم جنس پرستوں کا دعوی ہے کہ انسان کے جسم و دماغ میں کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جن کے باعث اس کا فطری میلان صنف مخالف کی بجائے اپنی ہی صنف کی طرف ہو جاتا ہے۔ یہ میلان ان کے ڈی این اے میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انحراف اختیاری نہیں ہوتا اس لیے معاشرے کو ہم جنس پرستوں کو قبول کر لینا چاہیے۔