وسیم جبران
”لڑکا پڑھا لکھا ہے، اچھا خاصا کما لیتا ہے، پانچ سال بیرونِ ملک بھی کام کرتا رہا ہے اب یہاں بزنس سیٹ کر لیا ہے، اسی کی شادی کرنی ہے، آپ کی نظر میں کوئی اچھی سی لڑکی ہو تو ضرور بتائیے گا۔ “ بیگم توفیق نے خوشگوار لہجے میں کہا۔ میری بیوی نے میری طرف دیکھا تو میں دل ہی دل میں مسکرا اٹھا کیوں کہ جس لڑکے کی بات ہو رہی تھی وہ ہمارے سامنے بیٹھا تھا اس کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ تھی۔ موصوف کی شادی ایک بار ہو چکی تھی۔ دس سالہ شادی کا خاتمہ طلاق کی صورت میں ہوا تھا۔ اب ہم سمجھے کہ اس کے والدین نے ہمیں ڈنر پر کیوں بلایا تھا۔
”لڑکی تو ہے ؛ وہی جسے اس دن تقریب میں دیکھ کر آپ اس کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ بے حد خوبصورت، سلیقہ مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لیکن آپ کے بیٹے سے عمر میں کافی چھوٹی ہو گی۔ “ میری بیوی کی بات سن کر بیگم توفیق کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ان کا پینتالیس سالہ لڑکا بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ توفیق صاحب البتہ لا تعلق سے بیٹھے تھے۔
” بس ایک چھوٹی سے وضاحت کر دوں کہ لڑکی کہ شادی بھی پہلے ہو چکی ہے۔ وہ ارینجڈ میرج تھی جو بمشکل ایک ماہ چل سکی تھی کیونکہ لڑکا کسی اور کو پسند کرتا تھا۔ “ یہ بات سنتے ہی بیگم توفیق کے دانتوں تلے جیسے کونین کی گولی آ گئی۔
” نہیں نہیں مجھے اپنے بیٹے کی شادی طلاق یافتہ لڑکی سے نہیں کرنی۔ کوئی اور ہو تو بتائیے گا۔ “ انہوں نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ بس ایک بیگم توفیق کی بات نہیں ہے ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے۔ طلاق تو مرد کو بھی ہوتی ہے لیکن اس کا داغ صرف عورت کے ماتھے پر ہی سجتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ ترشادیاں لڑکے اور لڑکی کی پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ ”بڑوں“ کی مرضی کے مطابق کی جاتی ہیں۔ چناں چہ شادی ایک سمجھوتہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اگر بعد ازاں طلاق ہو جائے تو سارا نقصان لڑکی ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ لوگ اس کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں۔ اس کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر اس کا شوہر کوئی الزام نہ بھی لگائے تو لوگ آپس میں ایسی باتیں ضرور کرتے ہیں کہ لڑکی میں ہی کوئی عیب ہو گا۔ بد کردار ہو گی، بچے نہ ہونے کی صورت میں بانجھ قرار دی جائے گی، بد مزاج ہونے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔
لڑکا شادی کے لئے تیار ہو یا نہ ہو اس کے والدین اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں اس لئے شادی کر دی جاتی ہے دوسری طرف لڑکی کو سمجھایا جاتا ہے کہ ہمت سے کام لو، صبر کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لڑکی چھپ چھپ کر روتی ہے، اپنی تذلیل برداشت کرتی ہے، ہڈیاں تڑوا لیتی ہے لیکن طلاق نہیں لینا چاہتی۔ طلاق کی صورت میں اس کے ماتھے پر ایسا داغ لگ جاتا ہے جو ساری عمر اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں سے بھی نہیں مٹتا۔
پسند کی شادیوں میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ ہمارے اس پابندیوں سے بھرے، گھٹن زدہ سماج میں لڑکیاں محبت کا موقع کسی طور حاصل کر بھی لیں توکسی ایک لڑکے سے مختصر رابطوں یا چند خفیہ ملاقاتوں سے زمانہ شناس نہیں بن پاتیں اور کسی کو ٹھیک طرح سے پہچان بھی نہیں پاتیں۔ لہٰذا محبت کی شادیاں بھی کئی بار طلاق پر منتج ہوتی ہیں اور سماج کو سدھارنے کے نام نہاد ٹھیکے داروں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ محبت کی شادیوں پر خوب ملامت کر سکیں کہ دیکھا محبت کی شادیاں بھی ناکام ہوتیں ہیں۔
طلاق کی صورت میں لڑکی کی تو شامت آ جاتی ہے، اس پر الزامات کی بوچھاڑ بھی ہوتی ہے لیکن دوسری طرف طلاق دینے والے مرد اس لعنت ملامت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ مرد طلاق دے کر بھی سینہ تان کے چلتا ہے جیسے اس نے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ دوسری شادی کی خواہش کرے تو اس کے لئے رشتوں کی لائن بھی لگ جاتی ہے۔ بہت سے والدین اپنی کنواری لڑکیوں کے رشتے بھی پیش کر دیتے ہیں۔
اگر رشتہ داروں یا جاننے والوں میں سے کوئی دبے لفظوں میں طلاق کا حوالہ دے تو ہنس کر ٹال دیا جاتا ہے۔ ”اجی کیا بات کرتے ہیں۔ لڑکا اچھا خاصا کماتا ہے۔ ضرور لڑکی میں ہی کوئی خامی ہو گی۔ “
یہ ذہنیت بھی طلاق کی راہ ہموار کرتی ہے جب ایک مرد جانتا ہے کہ طلاق دینے سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور تمام تر بھیانک نتائج عورت کو ہی بھگتنا پڑیں گے تو وہ دلیری سے یہ قدم اٹھانے پر تیار رہتا ہے۔ خمیازہ تو عورت ہی کو اٹھانا ہے وہ تو دوسری، تیسری، چوتھی شادی کر کے بھی بے قصور ٹھہرے گا۔