منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہیں

یک ہی محلے میں رہتے تھے۔

بعد میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ عارف عبدالمتین اس رسالے کے ایڈیٹر تھے جس میں منٹو کے مبینہ فحش افسانے چھپے تھے۔ اسی لیے دونوں پر مقدمہ چلا تھا اور دونوں کو مجرم بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

پچھلے دنوں ہندوستان میں بنی فلم ’منٹو، دیکھی تو دل میں ایک خواہش نے سرگوشی کی کہ منٹو کے بدنامِ زمانہ فحش افسانے دوبارہ پڑھوں کیونکہ فلم میں ان افسانوں سے سکرپٹ لکھنے میں استفادہ کیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کینیڈا میں وہ افسانے کہاں سے حاصل کیے جائیں۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وجاہت مسعود نے سات سمندر پار ایک کامل درویش کی طرح دوسرے درویش کی دل کی مراد نہ صرف پڑھ لی بلکہ پوری بھی کر دی اور منٹو کی 18 جنوری کو برسی مناتے ہوئے وہ سب افسانے ’ہم سب، پر چھاپ دیے۔ میں نے وہ سب پرنٹ کر لیے تا کہ انہیں آرام سے پڑھ سکوں، ان افسانوں کے بارے میں غور و خوض کر سکوں اور منٹو کے فنِ افسانہ نگاری کو داد دے سکوں۔

جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ منٹو کے افسانوں پر پچھلی نصف صدی سے پاکستان اور ہندوستان میں اتنا احتجاج کیوں ہوتا رہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ منٹو کے افسانے FOR ADULTS ONLY ہیں۔ انہیں صرف ذہنی بالغوں کو پڑھنا چاہیے۔ وہ لوگ جو منٹو کے افسانوں کو عالمی ادب اور انسانی نفسیات کی کسوٹی کی بجائے مذہب اور اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں وہ بہت مایوس ہوتے ہیں۔ وہ بالکل سمجھ نہیں پاتے کہ ایسے افسانے لکھنے کا مقصد کیا ہے۔ وہ کبھی انہیں فحش سمجھتے ہیں کبھی VULGAR اور کبھی انہیں بے مقصد اور واہیات قرار دیتے ہیں۔ وہ کبھی ان پر مقدمے چلاتے ہیں اور کبھی فتوے لگاتے ہیں۔

فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست

میں اس کالم میں ایک ادب اور نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے منٹو کے فحش افسانوں کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عین ممکن ہے ادب کے سنجیدہ قاریوں کے لیے تفہیم کی ایک اور کھڑکی کھل سکے۔

٭٭٭  ٭٭٭

 بو

میں نے جب منٹو کا افسانہ ’بو، پڑھا تو مجھے اپنی ایک مریضہ یاد آگئی جو ماضی میں ایک مرد کے جنسی استحصال کا شکار ہوئی تھی لیکن وہ اس تکلیف دہ واقعہ کو بھول چکی تھی۔ اس کے ذہن نے اس واقعہ کی یاد کو لاشعور میں دھکیل دیا تھا اسے REPRESS کر دیا تھا۔ اس حادثے کے برسوں بعد ایک شام وہ اپنے گھر کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مگن تھی کہ اس کا شوہر دبے پائوں گھر میں داخل ہوا اور باورچی خانے میں جا کر اسے پیچھے سے گلے لگایا۔ میری مریضہ نے ایک چیخ ماری اور اسے دھکا دیتے ہوئے کہنے لگی

’مجھے مت چھوئو۔ دور ہٹ جائے،

شوہر ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا اور شرمندگی سے پوچھنے لگا

’جانم ! کیا بات ہے؟،

میری مریضہ کو دوبارہ ہوش میں آنے میں کافی دیر لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پوچھنے لگی

’آپ نے آج کونسا پرفیوم لگایا ہے؟،

’ شوہر نے کہا ’یہ ETERNITY ہے،

’آپ نے پہلی بار لگایا ہے،

’ہاں نیا خریدا ہے،

’یہی پرفیوم اس ذلیل کتے اس حرامزادے نے لگایا ہوا تھا،

’کس نے؟، شوہر سراپا حیرت تھا

’جس نے مجھے ریپ کیا تھا،

’تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا،

،میں بھول چکی تھی،

شوہر کے اس پرفیوم کی خوشبو نے اس کے لاشعور میں ہلچل مچا دی تھی اور اس کی ماضی کی تلخ یادیں ایک فلیش بیک بن کر اس کے ذہن اور جسم پر حملہ آور ہو گئی تھیں۔

منٹو نے بھی اپنے افسانے میں اس بو کا ذکر کیا ہے جو اس افسانے کے کردار رندھیر کے لاشعور میں چھپ گئی تھی۔ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں بس گئی تھی۔ یہ ایک نفسیاتی نقطہ ہے جسے منٹو نے اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’ وہ حنا کی خوشبو میں اس بو کو تلاش کر رہا تھا جو انہی دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے اس گھاٹن لڑکی کے میلے بدن سے آئی تھی،۔ اس افسانے میں وہ بو اس کے ماضی کی ایک خوشگوار یاد ہے جو اسے بہت عزیز ہے اور وہ نئی محبت میں پرانے تعلق کو تلاشتا ہے۔ یہی نفسیاتی سچ اس افسانے کا سچ ہے اور منٹو کی افسانہ نگارے کے فن کا کمال۔

ہم سب اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ بہت سے انسان اپنے حواسِ خمسہ میں سے

آنکھوں سے دیکھنے

کانون سے سننے

ہاتھوں سے چھونے

اور زبان سے چکھنے کو روزمرہ زندگی میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن ناک سے سونگھنے کو کم۔ یہ علیحدہ بات کہ خوشبو اور بدبو کا ہمارے شعور اور اجتماعی لاشعور سے گہرا تعلق ہے خاص طور پر ماضی کی یادوں کے حوالے سے۔

منٹو کا افسانہ ’بو، نفسیاتی طور پر تہہ دار ہے اور ادبی طور پر گھمبیر۔ لیکن مذہب اور اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کو اس میں فحاشی اور عریانی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ میں ایسے قارئین سے کہتا ہوں وہ منٹو کے افسانے پڑھنے کی بجائے ’حور، اور ’زیب النسا، کے افسانے پڑھا کریں کیونکہ ان کے لیے ادب رات کو سونے سے پہلے تضیعِ اوقات اور انٹرٹینمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ تفریحی ادب پسند کرتے ہیں جبکہ منٹو جیسے افسانہ نگار ادبِ عالیہ لکھتے ہیں، سنجیدہ ادب تخلیق کرتے ہیں جو ادب اور زندگی کے پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ سنجیدہ ادب کے بارے میں WITOLD GOMBROWIITZ فرماتے ہیں

SERIOUS LITERATURE DOES NOT EXIST TO MAKE LIFE EASY BUT TO COMPLICATE IT

(سنجیدہ ادب زندگی کو آسان کرنے کے لئے تخلیق نہیں کیا جاتا۔ اس کا منصب تو زندگی کو مزید پیچیدہ کرنا ہے)
کالی شلوار

منٹو کے افسانے ’کالی شلوار، کی ہیروئن سلطانہ اس افسانے میں امیری سے غریبی کی طرف سفر کرتی ہے۔ انبالہ میں اس کا کاروبار زوروں پر تھا اور وہ اپنی کمائی سے خوبصورت کپڑے اور مہنگے زیورات خرید سکتی تھی لیکن جب وہ دہلی آ گئی تو کاروبار میں مندی کا رجحان ہو گیا اور وہ بے کار محسوس کرنے لگی۔ وہ تنہا ہو گئی اور سارا دن اپنے کمرے کی کھڑکی سے ریل کی پٹڑیاں دیکھتی اور اپنی قسمت پر ماتم کرتی۔ جب حالات بہت ہی ناگفتہ بہ ہو گئے تو اسے کھانا کھانے اور کمرے کا کرایہ ادا کرنے کے لیے بادلِ ناخواستہ اپنے قیمتی زیورات بیچنے پڑے۔

وہ سارا دن خدا بخش سے شکایتیں کرتی اور کسی گاہک کی راہ تکتی لیکن گاہک نے نہ آنا ہوتا نہ آتا۔

منٹو کے افسانے کی ہیروئن اپنی زندگی اور ریل کی پٹڑیوں، ریل کے ڈبوں اور انجنوں میں ایک مماثلت محسوس کرتی ہے۔

منٹو لکھتا ہے

’ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں،۔ ۔ ۔ ۔

’دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے۔

دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔ ،

یہ جملے پڑھنے سے سلطانہ کے EXISTENTIAL CRISIS کا بھرپور تعارف ہو جاتا ہے۔

آخر ایک دن اسے ایک دلچسپ مرد شنکر نظر آتا ہے اور وہ اسے اوپر بلا لیتی ہے لیکن وہ مرد عجیب و غریب ہے۔ اس کی شخصیت غیر روایتی ہے۔ وہ عام مردوں کی طرح بات چیت نہیں کرتا۔ وہ جنس کے لیے پیسے دینے کی بجائے پیسے لینے کی بات کرتا ہے۔ سلطانہ کی اس سے پہلے شنکر جیسے مرد سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سلطانہ نہیں جانتی تھی کہ جہاں عورتیں طوائف ہوتی ہیں اور جنسی فعل کے پیسے لیتی ہیں، اسی طرح کچھ مرد بھی طوائف ہوتے ہیں اور جنس کے پیسے لیتے ہیں۔ ایسے مرد جیگلو کہلاتے ہیں۔

شنکر کا کردار جاندار کردار ہے۔ منٹو نے اس کے ڈائلاگ سے اس کردار میں جان ڈال دی ہے۔ ایسا کردار اردو ادب میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

منٹو لکھتا ہے

’ آپ کیا کام کرتے ہیں؟،

شنکر نے جواب دیا ’یہی جو تم لوگ کرتے ہو،

’کیا؟،

’تم کیا کرتی ہو؟،

’میں۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی،

’میں بھی کچھ نہیں کرتا،

سلطانہ نے بھنا کر کہا ’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہونگے،

شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’تم بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتی ہوگی،

’ جھک مارتی ہوں،

’میں بھی جھک مارتا ہوں،

’تو آئو دونوں جھک ماریں،

’ میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا،

’ ہوش کی دوا کرو۔ یہ لنگر خانہ نہیں ہے،

’اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں،

سلطانہ یہاں رک گئی ’یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟،

شنکر نے کہا ’الو کے پٹھے،

شنکر کے مزاج میں بے نیازی ہے ایک درویشی ہے جو سلطانہ کو بہت بھاتی ہے۔ وہ کہتا ہے

’تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہے اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جائو ۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا،

سلطانہ کے لیے شنکر کا کردار نیا ہے۔ وہ اس کے لیے ایک بجھارت ہے، ایک پہیلی ہے۔ ایک معمہ ہے۔ سلطانہ اس سے دوستی کر لیتی ہے۔ شنکر اسے ایک نئے رشتے سے متعارف کرواتا ہے جسے اکیسویں صدی کے نوجوان FRIENDS WITH BENEFITS کہتے ہیں۔ شنکر سلطانہ کو دوست بن کر ہمبستری کی دعوت دیتا ہے اور سلطانہ اسے قبول کر لیتی ہے۔

ہمبستری کے بعد سلطانہ اس سے ایک دوست ہونے کے ناطے کالی شلوار کی فرمائش کرتی ہے اور وہ اس سے دوست ہونے کی حیثیت سے بندے مانگتا ہے۔ سلطانہ اسے اپنے بندے دے دیتی ہے اور شنکر محرم کی پہلی تاریخ کو کالی شلوار کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے اور پھر وہ وعدہ وفا بھی ہو جاتا ہے۔

جب سلطانہ اپنی سہیلی مختار سے ملتی ہے تو اسے حیرانی ہوتی ہے کہ مختار نےاس کے بندے پہن رکھے ہیں اور مختار کو پریشانی ہوتی ہے کہ سلطانہ نے اس کی کالی شلوار پہن رکھی ہے۔

’کالی شلوار، میں منٹو عورت اور مرد کے ایسے رشتوں کی نشاندہی کرتا ہے جو زندگی میں موجود ہوتے ہیں لیکن ادب سے خارج کر دیے جاتے ہیں کیونکہ وہ مذہب اور اخلاقایات اور روایت کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔

منٹو لکھتا ہے ’ شنکر اس پر مسکرا دیا ’تو میری شرطیں منطور ہیں،

’کیسی شرطیں؟ سلطانہ نے ہنس کر کہا ’کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟،

’نکاح اور شادی کیسی؟ نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو،

 بولو کیا بات کروں؟

تم عورت ہو۔ ۔ ۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے،

منٹو اپنے افسانون میں اس ’کچھ اور بھی، پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔

منٹو نے کہیں لکھا تھا کہ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی نطر ویشیا پر جا کر رک جاتی ہے۔ وہ اس سے آگے یا پیچھے یا اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ اس کے کردار پر فتوے لگا سکتے ہیں لیکن اسکے دل کی گہرائیوں میں نہیں جھانک سکتے۔ منٹو سلطانہ کے دل میں محرم منانے اور کالی شلوار پہننے کی خواہش تک پہنچ جاتا ہے اور اس جذبے کا تخلیقی اظہار کرتا ہے یہ فن کا کمال ہے۔

منٹر نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانی شخصیت ہمہ جہت ہے اور اننسانی رشتے پیچیدہ اور گنجلک ہیں۔

منٹو کے افسانوں نے جہاں مذہبی رہمائوں کو پریشان کیا تھا وہیں اس نے ترقی پسند ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں کو بھی حیران کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ منٹو کرشن چندر کی طرح افسانے لکھے جن میں صرف مزدوروں کسانوں کی جدوجہد کا ذکر ہر اور افسانے کے آخر میں ایک امید کا چراغ جلے۔ لیکن منٹو نے صاف کہہ دیا کہ وہ نہ تو مولوی ہے نہ ہی سیاسی ریفارمر۔ وہ ایک ادیب ہے اور اس کے لیے سب عقیدے اور نطریے چاہے دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے ناقابلِ قبول ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ ادیب کی وفادادی اپنے سچ اور زندگی کے ساتھ ہے کسی نظریے کے ساتھ نہیں۔ منٹو جانتا ہے کہ انسانی زندگی نظریوں سے زیادہ پیچیدہ اور تہہ دار ہے۔
ٹھنڈا گوشت

منٹو کے افسانے ’ٹھنڈا گوشت، میں جنس ایک استعارہ بن کر ابھرتی ہے اور ڈوب جاتی ہے۔ اس استعارہ کے پس پردہ کلونت کور میں حسد کا شعلہ لپکتا ہے۔ اس استعارے کی وساطت سے منٹو 1947 کے قتل و غارت کے مناظر دکھاتا ہے۔ وہ ایشر سنگھ کے حوالے سے انسانی ذات اور تاریخ کے تاریک رخ پر روشنی ڈالتا ہے جسے دیکھنے سے ہم سب آنکھیں چراتے ہیں۔

منٹو اپنے افسانے ’ٹھنڈا گوشت، میں ایک مرد کی نامردی کی نفسیات بیان کرتا ہے۔ وہ افسانہ پڑھ کر مجھے ژاں پال سارتر کا مقالہ ANTI-SEMITE یاد آ گیا جس میں سارتر نے یہودیوں سے تعصب کا نوحہ لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک یورپی مرد ایک طوائف کا پاس جاتا ہے اور اس سے چند گھنٹوں کی جنسی لذت خریدتا ہے۔ وہ اس کے کمرے میں شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے کپڑے اتار رہا ہوتا ہے کہ اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت یہودی ہے، یہ جانتے ہی اس کا سارا جنسی جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور وہ عارضی طور پر نامرد ہو جاتا ہے۔

انسان کی جنسی زندگی میں نفسیاتی عوامل کیا کردار ادا کرتے ہیں یہ پہلو ماہرینِ جنسیات کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اکثر نامرد جسمانی طور پر صحتمند لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اسی لیے وہ ایک جوان عورت کی موجودگی میں بھی جنسی رشتہ قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

عورتوں میں بھی ایک ایسا مسئلہ تشخیص ہوا ہے جو جنسی عمل کے دوران درد پیدا کرتا ہے یہ مسئلہ DYSPAREUNIA کہلاتا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بعض دفعہ وہی عورت جس مرد کوپسند نہیں کرتی اس کے ساتھ مباشرت میں تکلیف محسوس کرتی ہے لیکن جس مرد کو پسند کرتی ہے اس کے ساتھ مباشرت میں مسئلہ کافور ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ ماہرینِ جنسیات کے لیے انسانی نفسیات کی ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے۔

٭٭٭  ٭٭٭

دھواں

منٹو نے اپنے افسانے ’دھواں، میں ایک نوجوان بچے مسعود کی بلوغت کی آمد پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ بچہ اس نئے جذبے اس نئی تبدیلی سے ناواقف ہے۔ اس کے انداز میں ایک معصومیت ہے، ایک سادگی ہے، ایک سادہ لوحی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ جوانی اس کے جسم پر دستک دے رہی ہے۔ اس کے پارمونز میں ایک چنگاری سلگ رہی ہے۔ اس کا ذہن اپنی اس تبدیلی کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے۔

یہ علیحدہ بات کہ اس کی بڑی بہن کلثوم ان مراحل سے گزر چکی ہے۔ اسی لیے جب بھائی اس کی کمر دباتا ہے تو وہ ہائے ہائے کرتی ہے اور بعد میں اپنی سہیلی کے ساتھ جنسی کھیل کھیلتی ہے۔ افسانے کا وہ حصہ پڑھتے ہوئے مجھے عصمت چختائی کا مشہور افسانہ ’لحاف، یاد آ رہا تھا۔

اس بچے کا والد بھی اپنی بیوی کے ساتھ جنسی مباشرت کر رہا ہے لیکن بیٹے کو بتاتا ہے کہ اس کی ماں اس کا سر دبا رہی ہے۔

ہمارے ہاں جنسی تعلیم دینے کی کوئی روایت نہیں، ماں باپ بچوں کو فطرت اور سستے ناولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں یا ان کے ہاتھ میں بہشتی زیور تھما دیتے ہیں۔

منٹو کے افسانے کا موضوع جنس سے زیادہ بلوغت کی نفسیات ہے جس میں انسان اپنے جسم کے سچ سے روشناس ہوتا ہے۔ بلوغت زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ وہ ہم سب پر آتی ہے۔ ہم سب اس مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ہم سب جوان ہوتے ہیں لیکن جلد ہی اسے بھول جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنے جسم کے سچ کو مذہب اور اخلاقیات کی دھند میں کھو دیتے ہیں اور اچھے برے، نیکی بدی اور گناہ و ثواب میں الجھ جاتے ہیں۔

وہ لوگ جو اپنے جسم کے سچ کو قبول نہیں کرتے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتےہیں اور ان میں سے بعض نامرد ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے منافق معاشرے کا حصہ ہیں جہاں روایت کو سراہا اور سچ کو چھپایا جاتا ہے۔

ہم محبت کی بات کرتے ہیں لیکن محبت کے اظہار کو گناہ سمجھتے ہیں اور جنس کا رشتہ محبت، پیار اور دوستی سے جوڑنے کی بجائے گناہ اور غیرت سے جوڑ لیتے ہیں۔

٭٭٭  ٭٭٭

کھول دو

منٹو کے افسانے ’کھول دو، میں بھی موضوع جنس نہیں ہے بلکہ 1947 کا المیہ ہے جس میں ایک مہاجر باپ سراج الدین ہجرت کے دوران اپنی جوان بیٹی سکینہ کھو بیٹھتا ہے۔ اپنی بیٹی کی جدائی اسے پاگل کر دیتی ہے اور وہ ہر اجنبی سے سکینہ کے بارے میں پوچھتا ہے۔

جب سکینہ غائب ہوتی ہے تو وہ ایسے مردوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے جو اس کی جوانی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بار بار اس کا اتنا جنسی استحصال کرتے ہیں کہ وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔

جب سکینہ ہسپتال لائی جاتی ہے تو سکینہ کا باپ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سکینہ مر چکی ہے۔ منٹو لکھتا ہے

 ’ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا

’کھڑکی کھول دو،

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں نے ازاربند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا

’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے،

ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا،

ان چند جملوں میں منٹو نے جو انسانی نفسیات کی گرہ کھولی ہے وہ صرف ایک ایسا ادیب ہی لکھ سکتا ہے جو آدھا افسانہ نگار ہو اور آدھا ماہرِ نفسیات۔

منٹو کے افسانے ذہنی طور پر بالغوں اور صحتمند لوگوں کے لیے ہیں جو زندگی کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں اور افسانوی ادب اور انسانی نفسیات کے راز جاننا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے نہیں جنہیں ہر چیز میں شہوت اور لذت دکھائی دیتی ہے۔ ایسے لوگ تو مذہبی کتابیں بھی لذت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ منٹو کو اس حقیقت کا احساس تھا اس لیے اس نے اپنے افسانوں کے دفاع میں کہا تھا

’ دنیا میں ایسے اشخاص بھی پائے جاتے ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کر دیتی ہیں۔ مگر لوہے کی مشینوں کا، جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں، کوئی قصور نہیں۔ نہ ہی مقدس کتابوں کا۔ ایک مریض جسم ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہی کے لیے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے.”