بدلے بدلے انگریزی بولتے طالبان :خواتین کی تعلیم سے نالاں نہ داڑھی پر مصر

 
طالبان 2001 کی نسبت 2019 میں سیاسی، سفارتی اور حربی میدانوں میں زیادہ مضبوط مگر زمینی حقائق کو قبول کرتے نظر آ رہے ہیں، پہلے جیسے سخت گیر نہیں رہے : تجزیاتی رپورٹ
افغان عسکریت پسند سال 2001 میں منتشر ہونے کے بعد 2019 میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں، سیاسی، سفارتی اعتبار سے قبولیت ملی ہے، حربی صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہوا مگر آج بھی کابل پر بلا شرکت غیر اقتدار کی اہلیت نہیں رکھتے، عسکریت پسند گروپ کے سخت گیر خیالات بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ اپنے لوگوں کو انگریزی، سیاسیات اورٹیکنالوجی پڑھنے بھیجتے ہیں۔
افغان جنگ کو سترہ سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ نائن الیون کے حملے کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج جب افغانستان داخل ہوئیں تو کابل پر سخت گیر طالبان کی حکومت تھی۔ جدید اسلحے اور بھاری عددی قوت نے طالبان کو کابل سے فرار پر مجبور کر دیا لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک آج وہ بظاہر ایک مسلمہ سیاسی اکائی کے طور پر امریکہ سے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں، چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت جیسے خطے کے اہم ملک بھی طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھے ہیں۔
اس اعتبار سے انہوں نے سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذوں پر مضبوطی حاصل کی ہے۔ تاہم تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان نے انتہائی سخت گیر روش ترک کر دی ہے۔ وہ خواتین کی تعلیم کی اب مخالفت نہیں کرتے، انگریزی پڑھنے سے بھی ان کو مسئلہ نہیں اور جدید ٹیکنالوجی بشمول میڈیا ٹیکنالوجی میں ان کے لوگ مہارتیں حاصل کر رہے ہیں۔
ان سترہ برسوں میں افغان طالبان کمزور ہوئے ہیں یا مضبوط؟ معروف دفاعی تجزیہ کارلیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ امریکی حملے کے فوراً بعد منتشر ہو جانے والے طالبان 2019 میں پہلے سے زیادہ منظم ہیں۔
” دو ہزار ایک میں طالبان کے عسکریت پسند مکمل طور پر منتشر ہو گئے تھے۔ ان کے لیڈر جو بھاگ کر پاکستان آئے وہ ہم نے پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے بشمول اسلام آباد میں افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے۔ لیکن آج انتا وقت گزرنے کے بعد اس کی حکمت عملی درست ہو چکی، وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں“
میر وائس افغان، افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جو لندن میں مقیم ہیں اور ایک خبررساں ادارہ چلا رہے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے کئی کمانڈرز کئی لیڈرز پکڑے یا مارے گئے یا طبعی موت کے سبب دنیا میں نہیں رہے لیکن آج بھی نیا خون ان کی صفوں میں شامل ہو رہا ہے۔ وہ فوجی طور پر مضبوط ہیں۔
” طالبان پہلے صرف مقامی مخالفین سے لڑ رہے تھے، جیسے شمالی اتحاد کے خلاف اور دیگر مخالفین کے خلاف لیکن اس وقت پوری دنیا کی اتحادی فوج سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ ان کو پڑوسی ملکوں ایران اور پاکستان سے مدد بھی پہنچ جاتی ہے۔ ان کے پاس وسائل بھی پہلے سے زیادہ ہیں“
سفارتی اور سیاسی اعتبار سے طالبان دو ہزار ایک کے مقابلے میں کہا ں کھڑے ہیں؟ میر وائس افغان کہتے ہیں کہ ”آج پاکستان، ایران، روس چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر کئی ملکوں کے ساتھ طالبان کے سفارتی رابطے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں تو قطر یا متحدہ عرب امارات میں مذاکرات دفتر تبدیل کرا دیتے ہیں“
چوہدری نعمان ظفر واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ افغان طالبان سترہ برس پہلے کی نسبت آج زیادہ مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ مذاکرات کی میز پران کے ساتھ امریکہ سمیت بڑے ملکوں کا موجود ہونا ان کی حربی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ داعش کی خطے میں موجودگی سے خطرات کے پیش نظرایران اور چین جیسے ملک ان کو کھل کر فوجی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔
” دو ہزار ایک میں تو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طالبان کو تسلیم کرتے تھے، آج چین، روس، ایران سمیت کئی ملک ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ بارہ بارہ ملکوں کے اجلاس میں وہ شرکت کرتے ہیں“
میر وائس افغان کہتے ہیں کہ افغان طالبان خطے کے ممالک ہی نہیں پور­­­­ی دنیا سے وابستہ نظر آتے ہیں۔
سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ ان سترہ برسوں نے طالبان کو تبدیل بھی ضرور کیا ہے، آج وہ پہلے جیسے سخت گیر نہیں رہے۔ خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کرتے اور اپنے لوگوں کو انگریزی زبان اور جدید ٹیکنالوجی سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
” طالبان اب خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں، وہ سخت گیر سزائیں بھی کھلے بندوں دینے سے گریز کرتے ہیں، وہ سزاوں کی وڈیوز بھی جاری نہیں کرتے، ان کو داڑھی نہ رکھنے سے بھی زیادہ مسئلہ نہیں رہا۔ میں خود جانتا ہوں کئی لوگ بنا داڑھی کے ان کی صفوں میں شامل ہیں۔ وہ اب انگریزی بھی پڑھتے ہیں تاکہ باہر کی دنیا سے بات چیت کر سکیں۔ وہ ٹیکنالوجی کو بھی قبول کر رہے ہیں اس طرح سخت گیری کے اعتبار سے طالبان جہاں کھڑے تھے، آج وہاں سے کافی مختلف جگہ پر کھڑے ہیں“
جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ دنیا میں پچھلی دو دہائیوں میں آنے والی بڑی تبدیلیوں پر طالبان نے خوب نظر رکھی ہے اور اپنے مفادات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ جوڑا ہے۔
” صرف نائن الیون سے ہی دنیا تبدیل نہیں ہوئی، یوکرائن کے حالات (روسی مداخلت) ، مشرق وسطی میں داعش کا ابھرنا، شام کا مسئلہ، ایسے عوامل نے دنیا کے ممالک کی صف بندیوں میں تبدیلیاں بپا کی ہیں اور طالبان نے خود کو ان بدلتے ہوئے حالات سے دور نہیں رکھا بلکہ کئی ملکوں کے مفادات سے خود کو جوڑا ہے“
نعمان ظفر بھی اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فقہی اختلافات کے باوجود ایران کھل کر طالبان کی مدد کر رہا ہے اور گزشتہ ہفتے طالبان کے وفد نے ایران کا دورہ بھی کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا بہرحال یہ بھی کہنا ہے کہ سفارتی، سیاسی اور حربی میدانوں میں کامیابی کے باوجود طالبان کابل پر قبضے کے قوت نہیں رکھتے۔ فضائی قوت کا فقدان ان پر بھی واضح کر چکا ہے کہ انہیں دنیا کے ساتھ مل کر ہی چلنا ہو گا۔ وہ بلاشرکت غیر اقتدار میں نہیں آ سکتے، البتہ کسی طرح کی سیاسی مفاہمت اور بندوبست ان کو اقتداد کا حصہ بنا سکتے ہیں۔