سیدہ کنول زہرہ
وہ گداگر جو کبھی اللہ کے نام پر مالی مدد کی درخواست کیا کرتے تھے اب ان جگہ پیشہ ور بھکاریوں نے لے لی ہے جو ہر بندے کو پکڑ کر، راستہ روک کر، دروازہ کھٹکھٹا کر بھیک وصولنے کو حق سمجھنے لگے ہیں۔ اکثر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کم بھیک ملنے پر بھکاری خوب ناراض ہوتے ہیں اور بددعائیں تک دینے لگتے ہیں۔ بد دعائیں سن کر کمزور دل یا پھر فہمی افراد فوری ان کی ہتھیلی گرم کردیتے ہیں۔ جب سے گداگری نے پیشے کا روپ اختیار کیا ہے تب سے بھکاریوں کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔
پروفیشنل بھکاریوں کی مختلف اقسام روزانہ حق دار سے اس کے منہ کا نوالہ چھیننے میں سرگرم ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ فرضی معذور بن کر سڑک کنارے خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے۔ آتے جاتے لوگ ان کے کشکول میں خیرات ڈال جاتے ہیں۔ اس طرح یہ گروہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ پیشہ ور ایک ہی سڑک کنارے نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کے گروہ کا گرو ان کے علاقے بانٹتا ہے۔ اس کے عوض وہ یومیہ اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔
گویا گداگری ضرورت نہیں بلکہ کاروبار ہے جسے منظم نیٹ ورک کی صورت میں چلایا جا رہا ہے۔ گداگرمافیا بچوں کا بھی بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ شاپنگ سینٹرز، پکنک پوائنٹ، شادی ہالز، پیڑول پمس، ٹریفک سگنلز پر ان بچوں کو بھیک لینے پر مامور کیا جاتا ہے۔ گداگر مافیا خواتین کے ذریعے بھی اپنے نیٹ ورک کو فعال رکھ کر بھیک کے ذریعے اپنی کمائی میں اضافہ کر رہا ہے۔
گداگروں کی ایک قسم نے مساجد، مدرسوں اور خیراتی اداروں کے نام پر چندہ رسیدیں چھپوا رکھی یہ مافیا مساجد کے نام پر گلیوں، بازاروں اور مسافر بسوں میں چندے وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مساجد کرہ ارض پر موجود ہی نہیں ہوتی ہیں۔ نہ مسجد موجود نہ تکمیل مکمل مگر چندوں کے کاروبار نے ان مانگنے والوں کی چاندی کردی ہے۔
گداگر مافیہ فقیروں کو ان کی ”اہلیت“ دیکھ کر ان کی مزدوری طے کرتی ہے۔ مثلاً جو لوگ پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ جو دونوں ٹانگوں، دونوں ہاتھوں یا اسی قسم کی کسی پیدائشی معذوری کا شکار ہوتا ہے اس زیادہ دیہاڑی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد خواتین اور پھر بچوں کی باری آتی ہے
گداگر مافیا معصوم بچوں کو اغوا کرکے انہیں دانستہ معذور بنادیتی ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردی بڑھے اور وہ ترس کھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بھیک دے سکیں۔ ذرائع کے مطابق اندرون ملک سے اغوا ہونے والی جوان لڑکیاں پہلے تو جسم فروشی پر مجبور کی جاتی ہیں اور بعد ازاں ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ بعض خواتین گداگری کے ساتھ ساتھ بسوں، منی بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹس میں سوار ہوکر مسافر خواتین سے پرس، زیورات اور موبائل فون چوری کرنے کا فن بھی جانتی ہیں۔ اس کام کے لئے انہیں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔
گداگری قانوناً جرم ہے اور اس کی قانون میں باقاعدہ سزا تجویز ہے اوراس کی روک تھام کے لئے قانونی ایکٹ بھی موجود ہے مگر حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک مانگی جارہی ہے۔
پولیس کے محکمہ پر تو یہ الزام عائد کیا جاتا ہے۔ وہ گداگری کے کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔
پولیس کے محکمہ پر تو یہ الزام عائد کیا جاتا ہے۔ وہ گداگری کے کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔
کراچی رقبے، آبادی، صعنت و تجارت اور کاروبار کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر کاروبار کی طرح یہاں گداگرمافیا کا نیٹ ورک بھی خاصا مستحکم ہے۔ یوں تو یہاں سارا سال ہی بھکاریوں کی بھرمار ہوتی ہے مگر رمضان سے بقرعید تک فقیروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک بھر کے بھکاری جب کراچی کا رخ کرتے ہیں تو مافیا کی جانب سے ان کے علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ علاقوں کے حساب سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے۔ ڈیفنس چورنگی، سب میرین چورنگی، کلفٹن، پنجاب چورنگی، خیابان شمشیر چورنگی، ٹاور، بولٹن مارکیٹ، صدربازار، بہادرآباد، گرومندر، نمائش، لیاقت آباد، ناظم آباد، ناگن چورنگی، گلشن چورنگی اور نیپا چورنگی کے علاقے مکمل تربیت یافتہ اور تجربہ کار بھکاریوں کو دیے جاتے ہیں۔
گداگر مافیا کی وجہ سے کراچی میں اسٹرئیٹ کرائم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے جس کے پیش نظر گذشتہ سال نومبر میں سندھ حکومت نے کراچی میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا۔ گدا گروں کے خلاف کارروائی کیسے ہو، یہ معاملہ کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ، گداگری میں استعمال ہونے والے بچوں کو ویلفیئر ہوم میں رکھا جائے گا جہاں تعلیم، سماجی تحفظ، کھانا اور رہائش کی سہولت دی جائے گی۔
بڑے گداگروں کو ویگرینسی ایکٹ کے تحت 3 سال جیل کاٹنا ہو گی۔ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کو بھی مزید فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایجنڈے کے مطابق وہ بھکاری جن کے ماں باپ ہیں انہیں والدین کے حوالے کیا جائے گا اور انہیں پابند کیا جائے گا کہ اگر دوبارہ سے آپ کے بچے نے بھیک مانگی تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ لاوارث بھکاریوں کے لیے ایسا سینٹر بنایا جائے جہاں تعلیم و تربیت اور کھانا کی سہولت موجود ہو، تاہم سندھ حکومت کے دیگر دعوی کی طرح یہ عہد بھی اخبار کی شہ سرخیوں تک ہی نظر آیا۔ حکومت کا کام غربت مٹانا ہے جبکہ گذشتہ سالوں میں صرف کراچی میں ہی گداگروں کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میں سمجھتی ہوں مئیر کراچی کو اس جانب توجہ دینی ہوگی اور خانہ بدوشوں کو ان کے اصل مسکن میں بھیجنا ہوگا کیونکہ یہ فرضی غریب ہی اس شہر کا امن برباد کرنے میں برابر کے حصے دار ہیں۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پیشہ وار بھیکاریوں کی بدولت، حقدار محروم ہے۔ فرضی بھکاریوں کی بہتات کی وجہ سے حقیقی ضرورت مند نظر انداز ہو رہا ہے۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پیشہ وار بھیکاریوں کی بدولت، حقدار محروم ہے۔ فرضی بھکاریوں کی بہتات کی وجہ سے حقیقی ضرورت مند نظر انداز ہو رہا ہے۔