بدصورتی کی کشش – میری ڈائری سے

 
لکھنے لکھانے کا سلسلہ زوروں پر ہو تو اکثر منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ دل ایک عجب جنگ کی حالت میں ہوتا ہے، شہرت کی بھوک تنگ کرنے لگتی ہے اور اکثر یہ بھوک اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر جھٹکے کا گوشت ملے یا حلال کیا فرق پڑتا ہے، بس کھانے سے مطلب ہے، اور کمپیوٹر کا کی بورڈ لفظوں کے اس حسن کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے جس کی خوبصورتی کے گھمنڈ میں ہم رائٹر اپنے اندر مدہوشی میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ لکھنے کچھ اور آئی تھی لیکن پھر بدصورتی کی کشش اتنی دل کش ہوتی ہے کہ ہم جیسے سر پھرے اس بدصورتی کو اپنانے کے لئے سر پٹ بھاگنے لگتے ہیں، تو سوچا آج اس بدصورتی کا ذکر لازمی ہے یہی بدصورتی تو لفظوں میں کاٹ پیدا کرتی ہے۔ یہی تو خود سے ملواتی ہے۔
خوبصورتی کا سراب بہت دیر تک نہیں چل سکتا اور لکھاری تو بس اپنا نام بنانے کے لئے چند سال ہی اس نخلستان کی طرف دوڑ لگاتا ہے پھر جب نخلستان کے قریب پہنچتا ہے تو دھڑام سے گرکر اپنے آپ کو تسلی دے رہا ہوتا ہے۔ ہائے کتنا خوبصورت منظر تھا لیکن اس منظر کی جستجو نے ایسا اٹھا کے پٹخا کے اپنا آپ کہیں دفن ہوگیا، اب لاشے کو کس جگہ تلاش کیا جائے۔ کون سی زمین تھی جہاں یہ دفن تھا۔ اور اگر گلی سڑی لاش برآمد ہوبھی گئی تو روح کون پھونکے گا۔
خیر جس خواب کو دیکھتے دیکھتے اپنا آپ گنوایا اور دفن کردیا قبر پر کتبہ لگانا بھی بھول بیٹھے اب اس لاشے کا پوسٹ مارٹم تو ہوسکتا ہے لیکن جان کیسے ڈالی جائے، یہی کچھ حال میرا بھی تھا۔ لیکن ہاں جان بھی تو ہمیں ہی ڈالنی ہے۔ کیا کہا؟ نعوذبا اللہ! جان، وہ بھی انسان ڈالے گا؟ ارے نری خدا کی خدائی سے انکار کرنے والی چنڈال تجھے جینے کا حق نہیں۔ لیکن ٹھیریے! جینے کا حق تو چھینا پڑتا ہے ورنہ ہم جیسے بلاوجہ اداس رہنے اور غم کھانے والوں کو جینے کا حق ملتا کب ہے۔
خوبصورت لفظوں میں بھی تو جان ڈالی تھی۔ تخلیق کا عمل اس وقت تو زیادہ مشکل تھا۔ جینے کا حق چھینے کے لئے شیرنی نے جنگل کے قانون سے بغاوت کی تھی۔ للکارا تھا۔ وہ زیادہ مشکل کام تھا۔ لیکن دوسروں سے لڑنا آسان تھا، سو زندگی میں روح پھونک دی، اور لفظوں کے سحر میں ڈوبتا قلم اپنی کارستانی دکھاتا رہا۔ اب تو جنگ خود سے ہے۔
یار ایک بات کہوں، خود کو پچھاڑنا بڑا ہی مشکل ہے، سچی۔ معلوم ہے ناں، ہاں معلوم تو ہوگا۔ لیکن خود کو مات دے کر اپنے ہی لاشے میں روح پھونک کر تخلیق کو جنم دینا اتنا مشکل بھی نہیں۔ شیرنی جنگل کی رانی بننے کی ہوس میں ہر گھات میں کامیاب ہوئی لیکن پھر اپنے بچوں پر ایک خونخوار جانور کی اولاد کہلانے کے خوف سے بکری کی روح کو اپنے اندر منتقل کرنے کا سوچ لیا۔ اب اوپر سے شیرنی اور اندر سے بکری۔ کب تک لڑائی چلتی۔ بکری بن کر جینا اور مشکل ہوگیا۔ معاشرہ جینے کا حق پھر چھینے لگا۔ اب پھر شیرنی کی فطرت نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔
معاشرے کی بدصورتی پر لکھو تو ذات پر وہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ اپنے آپ سے بو آنے لگے۔ بالکل ایسے کہ جیسے چہرہ مسخ ہو اور آئینہ پہچانے سے انکار کردے۔ پر عورت تو ہے ہی فتنہ اور اس کا قلم اس سے بڑا فتنہ۔ آزادی کا شعور اگر ایک قلم کار عورت میں آگیا تو بڑے ترقی یافتہ اذہان جو سامنے واہ واہ کے پل باندھتے نہیں تھکتے، وہ بھی خوف کھانے لگے ہیں کہ کہیں اس کے لفظوں کا سایہ ہمارے گھر ہی اثرات نہ چھوڑ جائے، کہیں ہماری بیٹی بیوی، محبوبہ ترقی کا راگ الاپتی ہوئی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئیں، پھر کیا ہو گا۔
سو چوری چوری کہتے ہیں ”بی بی بات تو آپ کی سو ٹکا درست ہے، لیکن احتیاط سے آپ کے آگے بھی بچیاں ہیں اب زنانیوں کو وہ پاٹ بھی ناں پڑھائیں کہ ہماری آزادی سلب ہوجائے۔ “
ہیں ں ں ں ں ں کیسی آزادی؟
”بس ہوتے ہیں کچھ معاملات زندگی کے۔ اب مرد کھل کر تو نہیں بولے گا ناں۔ “
ہاں جیسے آپ ابھی پرائیویٹ پیغام کی صورت میں ایک زنانی کو لفظوں کا خوف دلاکر اپنی پوری مردانگی ظاہر کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ یہی آزادی نا؟
”سیکچول موضوعات، ہراساں کرنا، بچوں کے ساتھ زیادتی، لڑکوں کے ساتھ بدفعلی، کسی معاشرے میں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے خواتین کا استحصال، نوجوان لڑکیوں کو من پسند شوہر کا انتخاب کرنے کی آزادی۔ یہ موضوع خواتین کے لکھنے کے قابل نہیں۔ صرف آپ سانس نہیں لیتیں یقیناً آپ کے بچے بھی ہیں، ان کو آگے چل کر آپ کے لفظوں کا طعنہ ملے گا پھر کیا جواب دیں گی آپ۔ وہ دیکھا آپ نے خواتین کی ہم جنس پرستی پر لکھی گئی آپ کی تحریر پر کیسے ٹھٹھا ہوا۔
یوٹیوب پر آپ کی تصاویر لگاکر چسکے لے لے کر یہ بتایا گیا کہ اس بندی کے خفیہ تعلق کا پتا چل گیا۔ کیا ملا رسوائی کے سوا۔ میری مانیں چھوڑیں یہ سب۔ اچھا اچھا لکھیں بس۔ اور ہاں وردی والوں کو بھی نہیں چھیڑنا۔ مقدس گائے کو ذبح کرنے پر تو اللہ میاں بھی نہیں چھوڑتے۔ عذاب ہے، عذاب اور آپ کی ایک پرسکون زندگی ہے۔ “
پرسکون زندگی میں یہ اندر کون سا طوفان ہے جو ایک عام سی چپ چاپ زندگی گزارنے نہیں دیتا۔ میں نے خود کو مخاطب کیا۔
”آپ ایک معزز پیشے سے وابستہ ہیں، کیوں اپنی پکی نوکری کی راہ میں خود ہی رکاوٹ بنتی ہیں۔ کل جب یہی لوگ سلیکشن بورڈ میں ہوں گے تو آپ کے ان آزاد لفظوں کی وجہ سے کوئی بھی بہانہ بنا کر آپ کو ریجیکٹ کردیا جائے گا۔ میں نے مانا ان میں سے اکثر پڑھے لکھے، دہریے، آزاد خیال، حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والے، شخصی آزادی کا پرچار کرنے والے ہوتے ہیں اور خاص کر ان موضوعات کو بظاہر بہت سراہتے ہیں، لیکن یاد ہے آپ کے ہی ادارے کے ایک پڑھے لکھے میڈ ان امریکا پی ایچ ڈی نے آپ کو میرے سامنے فون کرکے لڑکوں کے ریپ کے موٖضوع پر آپ کی پزیرائی کی تھی اور فون رکھتے ہی کیا کہا، یہ عورت تو پاگل ہے، لگتا ہے زخمی شیرنی ہے، کچھ تو ہوا ہے ایسا اس کی زندگی میں جو یہ سب کے سامنے لانے پر تلی ہوئی ہے، ساتھ ہمارے گھر بھی بگاڑے گی۔ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔ “
ہوتا تو بہت سوں کے ساتھ ہوگا لیکن بس اکثر کی حساسیت اندر اتنی چیخیں مارنے لگتی ہے، اتنا شور سنائی دیتا ہے کہ اگر لفظوں میں نہ ڈھالا تو شاید گھٹن سے اپنا ہی دم نکل جائے۔ یہ شاید خودغرضی ہے اپنے آپ کو بچانے کی خودغرضی۔ میں پھر خود سے مخاطب تھی۔
اچھا ایسی صورتحال ہے۔ بات تو سچ ہے، میں کیوں معاشرے کے غلیظ پوتڑے چوک پر دھونے کا کام کروں۔ مجھے ہلکا پھلکا لکھنا چاہیے۔ اب یہ ہلکا پھکا کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل بحث تھی جو میرے سامنے کھڑی میری ہم ذات مجھ سے کر رہی تھی، جس پر سب لکھ رہے ہوں گرما گرم موضوع اتنا گرم کے لکھنے بیٹھو تو کمپیوٹر گرم ہوجائے۔ سیاست کے چٹخارے اور دور سے نظر آنے والی پھلجڑیوں کی چنگاریاں ہوں۔ وہ کرو جو سب کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں شہرت بھی ملے گی اور دامن پر کوئی داغ بھی نہیں آئے گا۔
سب یہی کر رہے ہیں۔ نہیں کررہے تو کرنے کی کوشش میں اپنی تحریر میں سارے لوازمات شامل کرنے کے بعد تڑکا بھی لگا ہی لیتے ہیں۔ مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔ اور میں نے کیا بھی ایسا کیا تھا۔ بدصورت معاشرے میں خوبصورتی تخلیق کرنے کی دھن میں وہ منہ کی کھائی کہ اب اپنی بنا کتبے کی قبر ڈھونڈتے ڈھونڈتے پاؤں شل ہوگئے ہیں۔ دسمبر کی آخری شام ہے۔ نیا سال اور بدصورت لفظ۔ ملاپ کچھ جچتا نہیں۔ لیکن مجھے یہی بدصورتی جھنجھوڑتی ہے۔ خوبصورتی تو سکوت کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ سو آگ لگے اس سکوت کو۔

اسی بارے میں

پاکستان میں ہم جنس پرست لڑکیوں کی سرگرمیاں