تیرھواں خواب نامہ۔۔۔ سیکس اور رومانس میں کیا فرق ہے؟

 
19 مئی 2018
سلام اے پردیسی درویش
رابعہ نے درویش کا خط پڑھا تو جیسے جھیل کا منظر تصور میں تصویر ہو گیا۔ رابعہ کو یقین ہے کہ انسان کا دانہ پانی اس کو خود ہی لے جاتا ہے۔ تو اگر وہ آئیس کریم رابعہ نے تقدیر کے توسط سے کھانی ہے تو وہ پہنچ ہی جائے گی اور اگر نہیں تو وہ لاکھ کوشش و خواہش کر لے کبھی کچھ نہیں ہو گا۔
رابعہ کے عمر بھر کے تجربات نے اس کو ایسا ہی یقین دیا ہے اس نے جو چاہا ہے۔ جس کے لئے کوشش کی ہے وہ خوش نصیبی سے خالق نے اس کی جھولی میں ڈالا ہی نہیں۔
جس کا کبھی سوچا بھی نہیں، تصور بھی نہیں کیا، اس کے خالق نے اس کو یوں نواز دیا کے اسے خود بھی حیرانی ہے۔ مگر اس نے یہیں سے کسی ان دیکھی طاقت کے وجود کو پہچانا ہے۔
رابعہ کو آئس کریم سے زیادہ جھیل کے دیدار کا اشتیاق ہو رہا ہے
درویش نے رابعہ سے محبت کے بارے میں پوچھا تھا۔ رابعہ کو درویش کا خواب نامہ پڑھ کے محسوس ہو اکہ جیسے اس سوال کا جواب درویش کے والد نے اس کو بچپن میں ہی دے دیا تھا۔ ”پانچ فٹ والی محبت رابعہ کر نہیں سکتی تھی، بیس فٹ تک کوئی رابعہ کے ساتھ جا نہیں سکتا تھا“ رابعہ کی محبت کا فلسفہ بس اتنا سا تھا۔
رابعہ درویش کو دکھ بھری کہانی نہیں سنانے والی۔ بلکہ وہ ایک عورت کا تجربہ و تجزیہ پیش کر نے والی ہے۔ رابعہ اب اس مقام پہ ہے جہاں دکھ اور سکھ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ جہاں ہونی کو بس ہو نا ہے۔ جس کا کسی کو دکھ ہو گا تو کسی کو خوشی۔
رابعہ جانتی ہے کہ ہر غم کے بعد ایک خوشی اور ہر خو شی کے ساتھ ایک غم ہے۔ زندگی اسی زنجیر کا نام ہے۔
درویش نے جو کچھ بتایا اس میں اس کا اپنا فلسفہ محبت بس اتنا واضح ہو سکا کہ وہ عورت سے تعلق کو دوستی کے معنی سے تعبیر کرتاہے۔ اور خلیل جبران کے فلسفہ محبت کو مانتا ہے مگر اس کا اپنا فلسفہ تجربات و مشاہدات کے بعد کیا ہے؟ رابعہ یہ بھی جاننا چاہتی ہے؟
کیونکہ رابعہ محبت، پیار، عشق، درد اور انسان کابہت عرصہ سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ یہ بہت الجھا ہوا پہلو زیست ہے۔ ایک کلیہ سب پہ پورا نہیں اترتا۔ ایک فارمولے سے سب سوالوں کے جواب بھی نہیں ملتے۔
رابعہ کامسئلہ یہ ہے کہ وہ جلدی اور منتشر ذہنیت میں پیچیدہ پہلووں پہ بات نہیں کر تی کیونکہ یہ موضوع کی تکریم کے خلاف ہے۔
اس نے زندگی سے سیکھا ہے کہ لفظوں کی، چیزوں کی، جذبوں کی، خیالوں کی، تصور کی، تصویر کی بھی عزت کرو۔ عزت محبت سے بڑی طاقت ہے۔ عزت محبت سے بڑا جادو ہے اور اگر محبت عزت کے ساتھ کی جائے تواس جادو کا توڑ نہیں ہو سکتا۔ یہی سر چڑھ کر بولتا ہے تو عشق بن جاتا ہے۔ اور اگر محبت عزت کے بنا کی جائے تو اسی میں نفرت کا بیج ہوتا ہے۔ جو کسی وقت بھی پودا بن جاتا ہے پودا پھل پھول بھی دے سکتا ہے۔
رابعہ کا مشاہدہ ہے کہ محبت عاجزی ہے۔
رابعہ کا خیال ہے کہ جس معاشرے کی وہ باسی ہے وہاں عورت کی محبت معتبر نہیں سمجھی جاتی۔ وہاں مرد چاہ لے تو جیت جاتا ہے۔ عورت کا خلوص بھی ہار جاتا ہے۔ یہاں محبت کا پہیہ یک طرفہ اور مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ دوسرا محبت کا حسن سیکس کی سوچ نے تباہ کر رکھا ہے۔ فرینڈ اور گرل فرینڈ کے ایک ہی معنی ہیں۔ عورت سے ہر تعلق کی اختتام جسمانی ہوس و ایک اورتتلی کا فتح کر لیناہے۔ جو بے تسکین ہے۔ کیونکہ سوسائٹی ابھی اس معراج کو ہی نہیں پہنچی کہ اس بات کو سمجھ سکے۔ اس کا احترام کر سکے۔ ہم ڈگری یافتہ ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نہیں۔ ہمارا مقصد جاب ہے، اصلاح یا علم نہیں۔
رابعہ کا خیال و مشاہدہ ہے کہ محبت کے دو حصے ہیں۔ پہلارومان دوسرا جنسی فعل۔ عورت رومان کے بنا کبھی بھی دل سے جنسی فعل کے لئے آمادہ نہیں ہوتی۔ اگروہ احسان کرتی محسوس ہو تو یقیناپہلا حصہ ذات نامکمل ہے۔ عورت وقت چاہتی ہے، باتیں کرنا چاہتی ہے، موسموں کو اپنے پاٹنر کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتی، اس کے ساتھ چائے کافی پینا چاہتی ہے، اس کے ساتھ سفر کر نا چاہتی ہے، اس کی پسند کے رنگ پہنتی ہے تو تعریف سننا چاہتی ہے، اس سے گلے شکوے کر کے یہ ما ن رکھتی ہے کہ وہ اسے منائے گا، اگر خاموش ہو جاتی ہے تو چاہتی ہے کہ وہ اس کی خامشی کو محسوس کرے، وہ اس کے ہاتھو ں سے کھانے کے چند لقمے کھانا چاہتی ہے، اس کے ساتھ میچ، فلم و ٹی وی دیکھنا چاہتی ہے، یہ سب اس کا رومانس ہے۔
افسوس یک طرفہ ادب و نفسیات شناس کی طرح یہا ں بھی مرد نے یہ طے کر لیا ہے(اور عورت کو بھی باور کروا دیا ہے) کہ سیکس ہی محبت ہے۔ گویا مرد کی محبت کے معانی سیکس سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ جب کہ عورت براہ راست سیکس سے چڑ جاتی ہے، اسے اس فعل سے گھن آنے لگتی ہے۔ مگر مرد کا خیال ہے کہ سماج نے جو اس کے اندر گناہ و ثواب کا مادہ بھر دیاتھا، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ جنگلی پن اور بنا رومان کے اس عمل سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔
اسے اپنا آپ سیکس ٹوائے یا رکھیل سا لگنے لگتا ہے، گویا اسے اپنی انسلٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور عورت بنا محبت کے تو رہ لیتی ہے مگر بنا عزت کے رہنا اس کے اختیار میں نہیں۔ اس کا ردعمل کسی بھی صورت سامنے آسکتا ہے۔ مگر آتا ضرورہے۔ اسے رومان عمر بھر چاہیے ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوسائٹی میں ہمیں بہت سے ایسے جوڑے بھی مل جاتے ہیں، جہاں مرد جنسی عمل کے قابل نہیں ہوتے، مگر ان کی ازداجی زندگی دوسروں سے حسین و قابل رشک ہو تی ہے۔ کیو نکہ عورت کی فطرت کسی اور چیز کی متقاضی ہے۔
بحرحال رابعہ پھر کبھی اس پہ بات کرے گی۔ یہ وقت طلب اور یکسوئی قلب و ذہن طلب مو ضوع ہے۔ جس کا تعلق دل سے ہے مگر بات دماغ کے اصولوں کے مطابق کرنے والی ہے۔
اے درویش رابعہ روزے نہیں رکھتی۔ روزہ داروں و مہمانوں کے لئے افطار بہت اہتمام سے بناتی ہے اور اس کا زیادہ وقت اسی میں گزر جاتا ہے۔ کبھی رابعہ بھی روزے رکھا کرتی تھی۔ اب پیاس کی شدت سے بے ہوش ہو جاتی ہے اور خالق بھی جبر و ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ سو وہ روزے داروں کا احترام کرتے ہوئے، ان کے لئے اہتمام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
یا درویش رابعہ اجازت چاہتی ہے
فی امان اللہ