ویلنٹائن ڈے…. دل کی اپنی مجبوری

حسنین جمال


اچھا ہوا ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگ گئی۔ ابنائے وطن کی تیموری حمیت جاگ اٹھی اور رزم حق و باطل میں فتح یاب ٹھہری۔

یہ کار خیر پہلے کیوں نہ ہوا، خیر، ڈبویا ان کے ہونے نے، نہ ہوتے یہ تو کیا ہوتا۔ جب بھی ہوا، ہو گیا، روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں، یہ نہ اچھا ہوا برا جو ہوا۔ بلکہ یوں کہیے کہ کتاب عمر کا اک اور باب ختم ہوا، شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا۔ آج ہمارے دوست صابر کی سالگرہ تھی تو انہوں نے یہ جملہ اپنے سوشل میڈیا پر لکھا کہ \”ہم وہ ہیں جنہیں ماﺅں نے بوڑھا ہی جنا تھا\” تو اس بوڑھی نسل سے ایک اور خوشی کا دن رخصت ہوا۔ تہنیت قبول کیجیے۔

بسنت کا نقش کہن بھی ایسے ہی ایک دن سلطانی جمہور کی نذر ہوا اور اب یہ دکان بھی بڑھائی گئی۔ خدا مسبب الاسباب ہے، ہمارے بوڑھے جوان جہاں سے چاہیں گے، رستہ وہیں سے نکلے گا۔

یہ تیوہار ہمارے یہاں مغرب سے درآمد ہوا۔ کوئی شک نہیں کہ مرحوم ہماری ثقافتی روایات سے لگّا نہیں کھاتا تھا۔ اگر آپ ہیر رانجھے یا دیگر ثقافتی داستانوں کا سوچ رہے ہیں تو لگے ہاتھوں ایک تازہ قصہ سن لیجیے۔ ایک صاحب جھنگ گئے، سیلانی طبیعت تھی، جس شہر جاتے، تاریخی مقامات بھی گھومتے، معلومات بھی جمع کرتے، غرض جہاں بھی جاتے داستان لے کر آتے۔ مائی ہیر کے مزار پر گئے۔ فاتحہ پڑھا۔ آس پاس دیکھنے لگے کہ کوئی ملے تو تفصیل سے واقعہ پوچھیں۔ اب دور ایک بابا جی دھوپ سینکتے، حقہ پیتے نظر آئے، یہ پہنچ گئے ان کے پاس۔ پوچھا، بابا جی یہ جو ہیر وارث شاہ لکھی گئی اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ بابا جی نے منہ نال ایک طرف کی، ذرا سے کھانسے اور گویا ہوئے۔ \” پوتر، قصور ساڈی دھی نمانی دا ایڈا کے نہ ہئی جیڈا وارث شاہ اوہنکوں گھیلی کھلوتا اے\” (بیٹا قصور ہماری بیٹی یعنی ہیر کا اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا وارث شاہ نے اسے گھسیٹ دیا ہے)۔ تو یہ جو معذرت خواہانہ رویہ لوک داستانوں کے لیے بھی ہے، یہ جائز ہے۔ ہماری روایات کبھی ایسی نہیں رہیں کہ ان میں رومانوی قصوں کی گنجائش بن سکے۔

صاحباں کا قصور آج بھی معاف نہیں ہوتا، چاہے اس کا بیاہتا ہونے کے باوجود گھر چھوڑنا ہو، چاہے بھائیوں کی محبت میں مرزا کے تیر توڑ دینا ہو۔ سوہنی کا گھڑا ڈوب گیا تو عزت بڑھ گئی ورنہ “مینوں پار لنگاہ دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی” جیسا گانا کہاں سے آتا۔ ادھر سے مہینوال بھی انتظار کر کر کے دریا میں کود گیا، بیڑا غرق ہوا، اک عذاب ختم ہوا۔ سسی کو بھی زمین نے اپنی پناہ میں لیا تو اس کا قصہ مشہور ہوا۔ تو یہ ثابت ہوا کہ پیار محبت ہماری لغت میں حلال نہیں ہے، اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ہماری روایات ہمیں پیار کرنا سکھا بھی نہیں سکتیں۔ ہماری روایات کاروکاری، چولہا پھٹنا، تیزاب گرانا اور کچھ نہ کر سکیں تو گندم میں رکھنے والی زہریلی کرم کش گولیاں کھانا سکھا سکتی ہیں، اور بہ خوبی سکھاتی ہیں۔

معاملہ مذہبی بحث کا بھی نہیں، معاملہ اخلاقی قدروں کا ہے۔ ہماری ہی قدیم تہذیب ہمیں بتاتی ہے کہ شرفا کے بچے طوائفوں کے یہاں ادب آداب سیکھنے جاتے تھے جو کہ بالکل معیوب نہیں تھا۔ ہمیں بادشاہوں کے حرم کا ذکر ملتا ہے، ہمیں متعہ اور مسیار آج بھی نظر آتے ہیں گویا جو عفیفہ دل کو بھا جائے اسے حبالہ عقد معینہ یا غیر معینہ میں لائے بغیر آپ کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ چلیے یہ بہت اچھی بات ہے۔ بے راہ روی پر قدغن لگاتی ہے، ایسا یقیناً ہونا چاہئیے۔

لیکن ہم یہ دیکھتے چلے آتے ہیں کہ اس سب کے باوجود غزل بھی کہی جاتی ہے، عشقیہ قصے بھی بیان ہوتے ہیں، ماہئیے، ٹپے، فوک گیت بھی پیار محبت کے قصوں سے بھرے ہوتے ہیں، فلمیں بھی اسی پر بنتی ہیں، خواتین کے رسالوں میں آج بھی ایک عدد ہیرو اور ایک ہیروئن ہوتی ہے، ٹی وی کے ڈراموں میں بھی یہی ہوتا ہے، ملز اینڈ بونز سیریز ہو یا محترمہ رضیہ بٹ کے ناول ہوں، وہ بھی یہی راگ الاپتے ہیں، گاوں، دیہات، قصبوں، شہروں میں جہاں جہاں تک اخباری نمائندے کی رسائی ہوتی ہے وہاں وہاں سے یہ خبر آتی ہے کہ مسماة ش مسمی ع گ کے ساتھ فرار ہو گئی، اب یہ کیا معاملہ ہے۔ ان سب پابندیوں کے باوجود ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ انسانی فطرت ہے جو ممنوعات کی طرف دوڑ لگاتی ہے۔ جو ٹیبوز کی طرف ایڑھیاں گھما گھما کر دیکھتی ہے۔ بلکہ ایڑھیاں گھمانے پر کیا ہی اچھا شعر کہا تھا جمال احسانی مرحوم نے؛

اس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

آپ بچوں کی تربیت جتنے بھی احسن خطوط پر کریں، یہ ذہن میں رکھیے کہ مذہب بھی ان کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ فرض کیا کہ آپ اس سے متفق ہیں تو ایک کیس سیدھے سبھاو نمٹتا ہے کہ اگر مسماة ش کی شادی اس کی مرضی سے ع گ کے ساتھ ہو جائے، تو وہ کم از کم بھاگے گی نہیں۔

اب دوسرا مسئلہ دیکھیے۔ آپ لندن میں ہوں یا پاکستان میں، آپ کے بچے ہر دو جگہ اس عذاب سے گزر رہے ہیں جس سے آپ بہت ہی کم گزرے، یا شاید نہ ہی گزرے ہوں۔ یہ گلوبلائزیشن ہے۔ وہ انگریزی فلمیں دیکھتے ہیں، انڈین ڈرامے دیکھتے ہیں، انہی زبانوں کے گانے سنتے ہیں۔ پاکستانی فلمیں اور گانے بھی نوے فی صد ویسے ہی ہوتے ہیں یا پھر وہ ایک سو نوے فی صد ہوتے ہیں یعنی انگریزی اور بھارتی سے بڑھ کر کہ جو مالکان تھیٹر کے زیر استعمال رہتے ہیں۔ تو یہ سب چیزیں انہیں کیا درس دیتی ہیں کہ زندگی کرنے کے واسطے ایک عدد پیار محبت قسم کے چکر میں مبتلا ہونا ضروری ہے۔ بعض اوقات ایسا نہیں بھی ہوتا لیکن ماں باپ کی حد سے زیادہ پابندیاں بچوں میں بغاوت پیدا کرتی ہیں جس کا نتیجہ بہرحال یہی ہوتا ہے۔ اس کا حل کیا ہے، ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگا دی جائے یا کچھ مستقل بنیادوں پر سوچ بچار کی جائے؟

دیکھیے فقیر کی رائے میں اس کا پہلا حل کو ایجوکیشن سکول ہے جس میں بچے اکٹھے پڑھتے ہیں۔ صنف مخالف ان کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہوتی، اکٹھے کھیلتے کودتے ہیں، بڑے ہوئے تو خود ہی اپنی حدود جان بھی جاتے ہیں اور معاشرہ بھی سمجھا دیتا ہے۔ لیکن، مخالف جنس بہرحال اجنبی نہیں رہتی۔ کہاں وہ دور تھا کہ برقعے میں سے کسی خاتون کا ہاتھ بھی نظر آیا تو سالم خاتون پر عاشق ہونا فرض سمجھا جاتا تھا۔ چلمنوں کے پار چالیس سال کی خاتون ہوں اور آپ بیس کے ہوں تو بھی معاملہ پیٹنا ہوتا تھا، اور کہاں یہ دور ہے کہ ٹی وی، فلم اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کچھ نیا نہیں رہ گیا۔ آپ کا بچہ آپ سے بہت زیادہ پراعتماد ہوتا ہے، اسے ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ آپ اس پر یقین رکھیں، اسے اچھے برے کی تمیز سکھائیں۔ اسے لوگوں میں بولنے کا اعتماد دیں۔ اسے کھیلوں کی طرف راغب کیجیے، کتاب دوست بنائیے، اسے فطرت سے محبت ورثے میں دیجیے اور چھوڑ دیجیے باقی معاملات، کہ یہ وہی لچک والا معاملہ ہے، جتنا دبائیں گے اتنا ابھرے گا۔

اب ایک اور پہلو دیکھیے۔ ہم آپ میں کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ پابندی سراسر ظلم ہے۔ ہمیں ان سے بھی اتفاق ہے۔ آپ ایسے معاملات پر نہ تو دفعہ ایک سو چوالیس لگا سکتے ہیں، نہ ہی لازمی سروس ایکٹ اور نہ ہی کوئی اور کچہری۔ دیکھیے، ایک پھول ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جائے گا، ایک بڑا سا کارڈ ہو گا جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جائے گا، چند چاکلیٹس ہوں گی اور بہت ہوا تو ایک بڑا سا بھالو خرید کر صنف مخالف کا \”او دس از سو کیوٹ\” سن لیا جائے گا، اس سے زیادہ کیا ہو گا؟ اگر کچھ اس سے زیادہ ہونا ہے تو بابا وہ تو روز ہو رہا ہے، جس عمر میں گرم دھوپ نرم اور سرد جاڑا بہار لگتا ہے، اس عمر میں تو صاحب ہر روز عید ہوتا ہے، ہر رات شب برات ہوتی ہے، کہاں کہاں روکیے گا، کس کس کو روکیے گا، پھر وہی بات، وہ کیا کہا تھا شاعر نے، روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو۔ تو معاملہ پہلی بوندوں کو روکنے کا تھا، وہ تو باوا آدم کے زمانے سے برستی چلی آ رہی ہیں، ان پر قدغن کیسے لگائیے گا؟

اگر فقیر کبھی حکومت میں ہوا تو ایک کام ضرور کرے گا۔ ویلنٹائن ڈے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی، ہاں، سرکار کی جانب سے ایک پیغام جاری ہو گا جو بے شک فقیر کی تصویر کے بغیر ہو گا اور اس پر لکھا ہو گا:

امسال ویلنٹائن ڈے پر وزارت امن و محبت کا انقلابی قدم

آئیے بلوچ بھائیوں کو گلاب اور استاد دامن کا کلام پیش کریں

آئیے احمدی بھائیوں کو چاکلیٹ اور فیض صاحب کا دیوان دیا جائے

آئیے مسیحی بھائیوں کو کیک اور دیوان حافط بھیجا جائے

آئیے ہندو بھائیوں کو گل اشرفی اور نظیر اکبر آبادی کا دیوان بھیجا جائے

آئیے ہزارے وال بھائیوں کو ٹیولپ اور میر کے فارسی کلام کا تحفہ دیں

آئیے پختون بھائیوں کو بلا کر روش کی دعوت کریں اور غنی خان کی کتابیں دی جائیں

آئیے سندھی بھائیوں کو شب دیگ کی دعوت پر بلائیں اور شو کمار بٹالوی کی کتابیں دی جائیں

آئیے سرائیکی بھائیوں کو خوشحال خان خٹک کی شاعری اور بمبئی بیکری کا کیک پیش کیا جائے

آئیے پنجابی بھائیوں کو کرت (پنیر کی ایک قسم) کھچڑی کھلائی جائے اور شیخ ایاز کی کتب پیش کی جائیں

آئیے پشتون (بالائی بلوچستان ) بھائیوں کو بلا کر میٹھی حلیم کا عشائیہ رکھیں اور شاکر شجاع آبادی کا کلام پیش کریں

آئیے کشمیری بھائیوں کو بلا کر خوانچے والی دعوت کریں اور انتظار حسین صاحب کی کتابیں تحفتاً دی جائیں

اور جتنی بھی برادریاں درج بالا فہرست میں نہیں ہیں ان سب کو ان تمام چیزوں میں سے کچھ بھی پیش کر دیا جائے۔

نوٹ۔ درج بالا تمام پھول، کتابیں اور کھانوں کے ٹن پیک ہر شہر کی سب سے بڑی عبادت گاہ کے باہر اسی فیصد رعائتی نرخ پر دستیاب ہیں۔

10 فروری 2016