عمر دراز ننگیانہ
حمل کے دوران ایک خاتون کو ہر سہ ماہی کے دوران کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟ انھیں کس قسم کی خوراک چاہیے ہوتی ہے؟ خواتین میں چڑچڑے پن جیسی کیفیات کیوں پیدا ہوتی ہیں؟
انھیں ایسی کیا تدابیر کرنی چاہییں کہ ڈیلیوری نارمل ہونے کے امکانات زیادہ ہوں؟ جب ڈیلیوری قریب ہو تو کس قسم کی تیاری ہونی چاہیے؟
پاکستان میں عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ اس نوعیت کی معلومات کے بارے میں آگہی صرف عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ مردوں کے لیے اس کو ممنوعہ موضوع تصور کیا جاتا ہے۔
مگر کیا مردوں کے ذہن میں یہ سوال ہوتے ہی نہیں یا پھر انہیں ان معلومات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی؟
امریکہ اور پاکستان میں مقیم چند پاکستانی نوجوانوں نے حال ہی میں ‘سُپر ابو’ کے نام سے پاکستان میں ٹیلی فون پر مبنی ‘ہاٹ لائن’ سروس متعارف کروائی جس کے ذریعے مردوں کو ایسے سوالات پوچھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
‘سپر ابو’ کے خالق ان نوجوانوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب محض 71 دنوں میں انھیں 21 ہزار افراد نے کال کیا جن میں 96 فیصد مرد تھے۔ ’سپر ابو‘ کو 65 ہزار کالیں کی گئیں اور 6500 سوالات پوچھے گئے۔
اس طرح ان کے اس نظریے کو تقویت ملی کہ مردوں کو ایسی معلومات کی ضرورت بھی ہے اور ان میں اس کی طلب بھی پائی جاتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ اس سے قبل مرد ان معلومات سے بےخبر تھے؟
‘ہمیں لگا کہ وہ شرما رہے تھے’
’سپر ابو‘ کا تصور اس والد کا ہے جسے اپنی بیوی اور بچے کا تحفظ اور صحت عزیز ہے۔ اس لیے وہ بیوی کے حاملہ ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش تک کے عمل میں ہر قدم پر شریک ہوتا ہے۔
تاہم اس کے لیے مستند معلومات تک اس کی رسائی ضروری تھی جو ایک ڈاکٹر فراہم کر سکتا تھا۔ مختلف ذرائع ابلاغ سے ملنے والی معلومات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر گائناکالوجسٹ خواتین ہیں اور مرد ان سے ایسے سوالات کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہوں گے؟
لاہور کی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر آغا علی رضا اور ان کے ساتھیوں نے اسی قیاس پر ’سپر ابو‘ کو تخلیق کیا۔ اس سے ملنے والے اعدادوشمار سے انھیں معلوم ہوا کہ واقعی ایسا ہی تھا۔
ان کے باقی ساتھیوں میں ساشا احمد اور مصطفٰی نسیم بھی شامل ہیں۔ ساشا امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے پبلک ہیلتھ سکول میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں جبکہ مصطفٰی امریکہ ہی میں یونیورسٹی آف مِشیگن میں کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آغا علی رضا نے بتایا کہ اس سروس کے آغاز سے قبل کیے گئے سروے میں انھیں مردوں سے ایسا تاثر ملا کہ وہ ان سوالات میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
‘انھوں نے کہا ہم اپنی بیگم کو یہاں لائے ہیں، وہ اندر گئی ہیں ڈاکٹر کے پاس، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔’
تاہم ہاٹ لائن کے تنائج نے انہیں کچھ اور بتایا۔ ‘جب ہم نے ان کے سوالات کو دیکھا تو ہمیں لگا کہ وہ شاید شرما رہے تھے۔’
ڈاکٹر آغا علی رضا کے خیال میں یہ ایک ایسا ممنوعہ موضوع ہے جس کے بارے میں مرد بات کرنے سے شرماتے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر کے دوبدو ہی کیوں نہ ہو۔ ’سپر ابو‘ نے انھیں ڈاکٹر تک رسائی دی ہے مگر درمیان میں ایک پردہ ہے۔
’سپر ابو‘ کیسے کام کرتا ہے؟
سوپر ابو ایک مفت ہاٹ لائن یعنی فون نمبر ہے۔ اس نمبر پر کال کرنے پر سسٹم آپ کو واپس کال کرتا ہے اور آپ کو آپشنز دیتا ہے۔ اس میں ایک آپشن یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر سے سوال پوچھ سکتے ہیں۔
سسٹم وہ سوال ریکارڈ کرتا ہے۔ پس منظر میں انسانی عمل دخل سے اس سوال کی نوعیت کو چانچا جاتا ہے۔ سوال کو موزوں اور مستند پائے جانے کے بعد سپر ابو اس سوال کو رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے گائناکالوجسٹ کو بھیج دیتا ہے۔
ڈاکٹر کے پاس ایک موبائل فون ایپلیکیشن موجود ہے جس پر انھیں یہ سوال موصول ہو جاتا ہے۔ اپنی فرصت کے اعتبار سے ڈاکٹر اس سوال کو سننے کے بعد اسی ایپلیکیشن پر جواب ریکارڈ کرواتے ہیں جو کہ سپر ابو خود کال کر کے سوال کرنے والے تک پہنچا دیتا ہے۔
سوال کرنے والے کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا سوال ذاتی رکھے اور اپنی شناخت چھپا لے یا پھر اگر وہ چاہے تو سپر ابو ہی پر اپنے سوالات یا واقعات کو دوسرے شرکا کے ساتھ بانٹ لے۔ فون کال ہی پر ایسے پبلک سوالات اور واقعات سننے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
سُپر ابو استعمال کرنے کے لیے سمارٹ فون ضروری نہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ متوسط طبقے کے افراد کو بھی اس تک رسائی حاصل ہو۔
سُپر ابو سے کس نے کیا پوچھا؟
ڈاکٹر آغا علی رضا کے مطابق جب سپر ابو کی شکل میں مردوں کو ایک ذریعہ مل گیا تو انھوں نے ہر وہ سوال پوچھا جو عمومی طور پر نازک نوعیت کا تصور کیا جاتا تھا۔
مثال کے طور پر حاملہ خاتون کو کس سہ ماہی میں کیا خوراک چاہیے، ان کی بیوی کی کمر میں تکلیف کی وجہ اور علاج کیا ہے، آٹھویں مہینے میں انھیں کیا تدابیر کرنی چاہییں کہ ڈیلیوری نارمل ہو یا حاملہ خاتون کو کتنی بار ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
تاہم زیادہ تر سوالات جس موضوع سے جڑے تھے وہ گھر کی معاشیات کا تھا۔ ‘ظاہر ہے کہ والد نے منصوبہ بندی کرنی ہے کہ بچے کی پیدائش کے وقت اسے کتنے پیسے کی ضرورت ہے۔ یہ معلومات بظاہر کہیں سے نہیں مل رہیں۔’
اگر یہ پتہ لگ بھی جائے کہ ہسپتال کتنے پیسے لے گا تو فرض کریں ‘اگر سی سیکشن کرنا پڑ گیا تو کیا ہو گیا، ادویات کا کتنا خرچہ ہو گا، ماں کے لیے کھانے پینے پر کتنا خرچہ ہو گا، بچے پر کتنا خرچہ ہو گا، یہ سوالات بار بار سامنے آئے۔’
لوگوں کی آسانی کے لیے اس نوعیت کے سوالات کے جواب ریکارڈ کروا کر سپر ابو پر ڈال دیے گئے تھے۔
ایسے مرد جو پہلی مرتبہ والد بننے جا رہے تھے انہوں نے جو زیادہ سوالات ’برتھ پریپیئرڈنس‘ کے حوالے سے پوچھے یعنی بچے کی پیدائش کے وقت کس قسم کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
سُپر ابو کہاں سے آیا؟
اس کے تخلیق کاروں میں شامل یونیورسٹی آف میری لینڈ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ساشا احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ سپر ابو کے بنانے والوں میں ان کے ساتھ پانچ نوجوان شامل تھے جن کی ملاقات ایک کانفرنس پر تین برس قبل ہوئی تھی۔
کانفرنس میں انھیں زچہ بچہ کے حوالے سے ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مسائل کا کوئی تخلیقی حل تلاش کرنے کو کہا گیا تھا۔ کانفرنس کی سربراہ کے مشورے پر انھوں نے مردوں پر توجہ مرکوز کی۔
’اس سے قبل تمام تر منصوبے عورتوں کے گرد گھومتے تھے جبکہ پاکسان میں زیادہ تر فیصلے کرنے کا اختیار مردوں کے پاس ہوتا ہے۔‘
سُپر ابو اب کہاں ہے؟
یونیورسٹی آف مِشی گین میں کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر مصطفٰی نسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں سُپر ابو سے جس قدر مثبت ردِ عمل ملا وہ شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
‘جہاں ہمیں خوشی ہوئی کہ اس قدر زیادہ لوگوں نے اسے استعمال کیا اور سوال پوچھے، وہیں ہمارا بجٹ بھی ختم ہو گیا اور ہمیں سروس بند کرنی پڑی 71 دنوں کے بعد۔۔’
اس پہلے پراجیکٹ کے لیے انھیں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف سے مالی امداد ملی تھی۔ مصطفٰی نسیم نے بتایا کہ اب انھیں امریکہ کے ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی طرف سے کچھ فنذنگ ملی ہے۔
‘اس سے ہم جو منصوبہ کرنے جا رہے ہیں اس سے ہم یہ پتہ چلائیں گے کہ یہ واقعی میں ایک مفید سروس ہے۔ اس سے لوگوں کی صحت میں بہتری آتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ کوشش کریں گے کہ وہ اسے پبلک ہیلتھ کی سروس بنا دیں۔ ’یعنی ہم اسے حکومت کے ساتھ جوڑ دیں اور حکومت اس کو لے کر آگے بڑھا لے۔