پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں انسیسٹ (Incest) یعنی باپ بیٹی، بہن بھائی یا ماموں اور چچا جیسے خونی رشتوں کے درمیان جنسی تعلقات کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن اس جرم کی روک تھام کے لیے پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ خونی رشتوں کے درمیان جنسی تعلقات، اور خاص طور پر جن کی نوعیت زبردستی کی ہو، ان کے لیے الگ سے سزا تجویز کرنا ضروری ہے۔
حال ہی میں راولپنڈی میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ 16 سالہ بیٹی کی طرف سے اپنے سگے والد کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر میں والد پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنی ہی بیٹی کے ساتھ مسلسل ایک سال تک جنسی زیادتی کرتا رہا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیے:
پنجاب: محرموں کے ہاتھوں ریپ کے واقعات میں اضافہ
’روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ‘
پاکستان: پانچ سال میں بچوں سے زیادتی کے 17 ہزار واقعات
انڈیا میں نیا قانون: بچیوں کے ساتھ ریپ کی سزا موت
صدر پولیس سٹیشن میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کا کہنا تھا ’گزشتہ سارا سال میرے والد نے میرے ساتھ مار پیٹ اور زنا بالجبر کیا۔ میں نے ان سے ایسا نہ کرنے کی منتیں کیں اور ان سے کہا کہ میں تھانے میں شکایت درج کروا دوں گی تو انھوں نے مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی دی۔‘
تھانے میں یہ کیس تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (زنا کے خلاف قانون) کے تحت رجسٹر کیا گیا۔
تاہم ماہر قانون اسد جمال سمجھتے ہیں کہ ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس کی مدد سے صحیح سزا کا تعین کیا جا سکے اور اس کے لیے آئین میں ایسی شق ہونی چاہیے جو انسیسٹ یعنی باپ یا بھائی یا کسی خونی رشتے کی جانب سے کیے جانے والے ریپ کی وضاحت کرے۔
پاکستان میں انسیسٹ کا مسئلہ کتنا سنگین ہے؟
غیر سرکاری ادارے ساحل کے رضاکار گوہر ممتاز کے مطابق حالیہ عرصے میں ان واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں انسیسٹ کے 17 کیسیز کے فیصلے سامنے آئے جن میں تین ملزمان بری ہو گئے، پانچ ملزمان کو سزا سنائی گئی اور نو مقدمات میں صلح ہو گئی۔
اس بارے میں انسانی حقوق کی کارکن ثمر من اللہ کا کہنا ہے ’سب سے پہلے انسیسٹ کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔ ہم اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بچے گھر میں محفوظ ہیں۔‘
لیکن پاکستان میں انسیسٹ کو مسئلہ نہیں بلکہ مغربی ایجنڈا سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں گوہر ممتاز کہتے ہیں: ’جب انسیسٹ سے متعلق اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ مغربی ایجنڈا ہے۔‘
پاکستان میں انسیسٹ کے واقعات سے کیسے نمٹا جاتا ہے؟
اس بارے میں گوہر ممتاز کا کہنا ہے ’دراصل یہ کیسیز وقت پر رپورٹ نہیں ہوتے۔ خاندان والے قانونی مدد طلب کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے کچھ دن گزار دیتے ہیں۔ زیادتی کے شواہد مٹنے کے بعد درج کروائے جانے والے کیسیز کی میڈیکل رپورٹ منفی آتی ہے کیونکہ جسم پر سے زیادتی کے نشانات مٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے اور کورٹ کے باہر مصالحت کر لی جاتی ہے۔`
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے والدین اور بچوں کو شعور نہیں ہے۔ ہم نے کبھی سیکس ایجوکیشن پر بات نہیں کی، ہم نے کبھی جسمانی حفاظت کی بات نہیں کی۔ پولیس کا تفتیشی نظام ایسا ہے کہ نشانہ بننے والا ہی آخر تک جواب دیتا رہتا ہے۔
گوہر ممتاز نے کہا کہ ’اس سلسلے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کیس وقت پر درج کروائیں اور میڈیکل رپورٹ درست آئے اور ملزم کو بروقت سزا ملے۔‘
کیا پاکستان کو انسیسٹ کے خلاف قانون کی ضرورت ہے؟
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں ایسے اور بھی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس قسم کے تمام واقعات پر ریپ کی دفعہ 376 لگتی ہے اور مجرم کو انسیسٹ کا مرتکب ہونے کے لیے کوئی سزا نہیں دی جاتی کیونکہ قانون میں اس کی کوئی تعزیر نہیں ہے۔
ایسے کیسیز کے بارے میں ثمر من اللہ کہتی ہیں کہ خاندان کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں یا خواتین پر کیس واپس لینے کا دبائو ڈالنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
’انسیسٹ کے خلاف قانون ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ کورٹ سے باہر مصالحت نہ ہو سکے۔‘
اس سلسلے میں ماہرِ قانون اسد جمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا `موجودہ قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے لیکن ’چائیلڈ پروٹیکشن پالیسی‘ ہونی چاہیے کیونکہ موجودہ چائیلڈ پروٹیکشن بیورو محدود وسائل کی وجہ سے اس قسم کے کیسز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ان کا مزید کہنا تھا تاکہ سزا دیتے وقت نشانہ بننے والی لڑکی یا لڑکے کی عمر، زیادتی کرنے والے کی عمر، دونوں افراد کا آپس میں رشتہ، واقعے کی فریکیونسی، دورانیہ اور اجازت یا غیراجازت جیسی چیزیں ذہن میں رکھ کر سزا کا تعین کیا جائے۔