اس موضوع پہ بہت عرصے سے لکھنے کا سوچ رہی تھی۔ ”سائنس کی دنیا“ پہ ایک پوسٹ پہ چند کمنٹس آئے تو سوچا اس پہ بات کر ہی لی جائے۔ مزے کی بات بتاؤں کہ انٹر کرنے تک نفسیات کی طرف کوئی رجحان نہیں تھا۔ ایک غیر معیاری انسٹیٹیوٹ میں پہلے ڈی آئی ٹی میں داخلہ لیا اور پھر انتظامیہ نے کچھ جادو دکھانے کی کوشش کی اور اسی کو بی ایس بے اے میں بدل دیا۔ ایک سال اس جادو کو سمجھنے میں گزر گئے اور پھر وہ انسٹیٹیوٹ ہی بند ہوگیا۔
وہاں ایک صاحب مینجمنٹ پڑھانے آتے تھے۔ بہرحال پھر نفسیات کی ڈگری میں داخلہ لیا اور بہت مزا آیا پڑھ کے۔ کچھ عرصے بعد میری بیسٹ فرینڈ ماریہ کی کہیں ملاقات ان صاحب سے ہوئی حال چال کے بعد انہوں نے پوچھا ہوگا کہ آپ کیا کر رہی ہیں ابصار کیا کر رہی ہیں۔ اس نے اپنی مصروفیات بھی بتائیں میری نفسیات کی ڈگری کا بھی بتایا۔ تو جواب آیا اچھا تبھی، وہ تو پہلے بھی کچھ ”ایسی سی“ ہی تھیں (اس “ایسی سی” کی وجہ وہ کاونٹر آرگیومنٹ ہوتا تھا جو ان کے لیکچر کے دوران کرتی تھی اور جس کو ہمارے یہاں بد تمیزی تصور کیا جاتا ہے کہ استاد جو جیسا پڑھا رہا ہے منہ آنکھ ناک کان بند کر کے مان لو) ۔
ان کے اس کچھ ”ایسی سی“ میں ہمارے معاشرے کی وہی عمومی سوچ موجود تھی جو بدقسمتی سے بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی ہوتی ہے کہ نفسیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے یا نفسیات پڑھنے والے خود پاگل ہوجاتے ہیں۔ یا پہلے سے پاگل ہوتے ہیں تبھی اس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوسرا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو پتا چلتا ہے کہ آپ نفسیات پڑھ رہے ہیں تو وہ آپ کو جادو گر یا جوتشی سمجھ لیتا ہے اور پوچھا جاتا ہے بتاؤ میں کیا سوچ رہا ہوں۔
یا پھر بتاؤ میری شخصیت کس قسم کی ہے۔ ایک جگہ جاب پہ پہلے دن ایک ساتھی خاتون نے بھی سب سے پہلا سوال یہی داغا تھا میں مسکرادی تو فرمانے لگیں اچھا نہیں آتا تو کوئی بات نہیں۔ دل چاہا ان سے کہوں محترمہ میں نے نفسیات کی ڈگری لوگوں پہ اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیے ہرگز نہیں لی۔ مگر بہرحال ایسے میں ڈگری کام آئی اور مناسب جواب کو مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھا۔ وہ جواب انہیں یقیناً چند ماہ بعد مل گیا جب جاب کی کنفرمیشن ٹیسٹ میں میرے مارکس نا صرف ان خاتون سے بلکہ سب سے زیادہ آئے۔
یہ تمہید اس لیے باندھی تاکہ دو اہم غلط فہمیوں کے حوالے سے گفتگو کی جا سکے۔ ایک تو یہ سوچ کہ نفسیات پڑھنے والے خود نفسیاتی مریض ہو جاتے ہیں۔ دوسری سوچ کہ ماہرینِ نفسیات صرف پیسے بٹورتے ہیں اور جان بوجھ کر مریضوں کو ذہنی امراض میں مبتلا رکھتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چل سکے۔ پہلے بات کرتے ہیں کہ پہلی غلط فہمی کی کیا وجہ ہے اس کے بعد پیسے بٹورنے والی غلط فہمی یا فیکٹ پہ بات کریں گے۔
پہلی سوچ پہ بات کرتے ہیں کہ ماہرینِ نفسیات یا نفسیات کے طالب علم خود ”نفسیاتی یا سائیکو“ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک حضرت خود کو بہت پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لیے مجھے سائیکو کہہ کر بلاتے تھے اور پھر کنفرم بھی کرتے تھے کہ آپ کو برا تو نہیں لگتا ہوگا یہ کوئی غلط ٹرم تو ہے ہی نہیں۔ اور یقیناً یہ غلط ٹرم نہیں ہے بلکہ نامکمل ٹرم ہے۔ کیوں کہ نفسیاتی یا سائیکو کے آگے مزید کچھ لگنا ضروری ہے نفسیاتی مطالعہ، نفسیاتی علاج، نفسیاتی نکتہ وغیرہ۔
تو اس عمومی غلط فہمی کہ نفسیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے خود بھی ذہنی مریض ہوتے ہیں کی ایک بہت بڑی وجہ وہ مختلف رویہ ہے جو آپ کو ماہرینِ نفسیات میں مشترک اور باقی لوگوں میں عموماً نظر نہیں آئے گا۔ ماہرینِ نفسیات خواتین “لوگ کیا کہیں گے” والی ٹینشن میں بہت کم مبتلا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ساتھی خواتین کے لیے ان کا رویہ عجیب اور ایب نارمل ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات مرد صنفی تضاد کو بڑھاوا دیتے نظر نہیں آتے اور بہت سی ایسی عمومی سرگرمیوں سے خود کو الگ رکھتے ہیں جو تفریح سمجھی جاتی ہیں لیکن واضح طور پہ صنفی تضاد اور جنسی ہراسانی میں آتی ہیں اس لیے ان کا رویہ ان کے ساتھی مردوں کے لیے ایب نارمل ہوتا ہے۔ نفسیات پڑھنے والے عموماً اپنے سامنے بچوں کو مارنے، ان کی تضحیک کرنے والے روئیے پہ اس کے غلط ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور بطور والدین اور اساتذہ تشدد کے ہر رویے سے اجتناب کرتے ہیں۔
ایک اور معاشرتی طور پہ ناقابلِ قبول رویہ ہمارا سب مذاہب کے لیے غیر متعصبانہ رویہ ہے۔ جو کہ ہر پروفیشن میں موجود ہوتا ہے لیکن ہمارا واضح اس لیے نظر آتا ہے کیوں کہ ہم اسے اپنی ”دکان“ تک نہیں رکھتے بلکہ ساتھ لے کے گھومتے ہیں اور اس لیے بھی کیوں کہ ہمیں اپنے پاس آنے والوں کے عقیدوں سے ہی ڈیل کرنا ہوتا ہے مگر اپنے عقائد اور ان کے عقائد کا دائرہ الگ رکھنا ہوتا ہے۔ ہم ڈرے ہوئے لوگوں سے ڈیل کرتے ہیں، اکیلا محسوس کرنے والوں سے ڈیل کرتے ہیں، خود کو گناہ گار یا مجرم سمجھنے والوں سے ڈیل کرتے ہیں اگر ہم اپنی اخلاقیات اور عقائد ان پہ مسلط کریں گے تو وہ جو کسی سے مدد نہیں لے پا رہے، ہم سے بھی مدد نہیں لے سکیں گے اور اسی ذہنی تکلیف میں مبتلا رہیں گے جس میں مبتلا ہیں۔ اور یہ رویہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایب نارمل رویہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ماہرِ نفسیات میں اوپر بیان کی ہوئی تمام خوبیاں یا خامیاں نہیں ہوتی مگر ایک اچھے ماہرِ نفسیات میں یہ خصوصیات ہونی ضروری ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ماہرینِ نفسیات ذہنی مسائل سے ماورا نہیں ہوتے۔ وہ بھی ڈپریشن، اینگزائٹی، فوبیاز اور شخصی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں لہذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ماہرِ نفسیات کس بنیاد پہ چنا جائے۔ کسی کو ذہنی مریض سمجھ کر یہ سمجھ لینا کہ یہ اچھا ماہرِ نفسیات نہیں ہوسکتا اس کے اور اس کی صلاحیت کے ساتھ حق تلفی ہے۔
ایسے میں کچھ بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آپ جب ماہرِ نفسیات چنیں تو مطمئن ہو کے علاج کروائیں۔ ہمارے شعبے میں کلائینٹ یا مریض کی سیلف ریسپیکٹ اور راز داری کا اس کی موجودگی میں بھی خیال رکھا جاتا ہے اور اس کی غیر موجودگی میں بھی۔ اگر آپ یہ نوٹ کر رہے ہیں کہ جس ماہرِ نفسیات کے پاس آپ موجود ہیں وہ آپ کے لباس، مذہب، زبان، معاشی حالات یا کسی بھی وجہ سے آپ سے یا کسی اور مریض سے تضحیکی رویے کا مرتکب ہوا ہے ایسے افراد سے دور رہنا بہتر ہے۔
اگر وہ آپ کو کسی اور مریض کی بہت ذاتی باتیں بتائے تو اس سے خوش مت ہوں کہ وہ آپ پہ اعتبار کر رہا ہے بلکہ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے آپ کی اپنی ذاتی معلومات کی رازداری پہ۔ اگر وہ کسی اور کی ذاتی باتیں آپ کو بتا رہا ہے توآپ کی ذاتی معلومات کسی اور کو بھی دے سکتا ہے۔ ایسے افراد جو اپنے حلقہ احباب میں بیٹھ کر یا دوسرے مریضوں یا کلائنٹ کے سامنے غیر موجود کلائنٹس کا مذاق اڑائیں وہ قطعاً قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتے۔ اس سے واضح پتا چلتا ہے کہ وہ اس کے ذہنی مسئلے کو ذہنی مسئلہ سمجھ ہی نہیں رہے۔
یہ دیکھیے کہ وہ آپ کی رازداری اور ذاتیات پہ بات کرنے کے لیے مناسب وقت دے رہا ہے یا نہیں یا آپ کو زبردستی وہ معلومات دینے پہ مجبور کر رہا ہے جو آپ فی الحال دینے پہ ذہنی طور ہ تیار نہیں۔ یہ بھی ذہنی صدمے کی قسم ہے اور کوئی اچھا ماہرِنفسیات ایسا کبھی نہیں کرے گا وہ ہمیشہ آپ کے مکمل اعتماد کا انتظار کرے گا کہ آپ خود تسلی سے اپنا مسئلہ بتائیں۔
ایک اچھا ماہرِنفسیات آپ کو غیر ضروری اہمیت کا احساس دلا کر آپ کے جذبات کا فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ کہ آپ کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔ وہ آپ کو بتدریج خود پہ انحصار کرنے میں مدد دے گا نا کہ آپ کو ہمیشہ اپنا محتاج رکھنے کی کوشش کرے گا۔ یہ نفسیاتی علاج کے بالکل خلاف ہے کیوں کہ نفسیاتی علاج کا مقصد ہی قوت فیصلہ بہتر کرنا اور اپنی ذات پہ انحصار کو بڑھانا ہے۔
آخر میں ایک اہم بات یاد رکھیے۔ سنجیدہ امراض کے لیے ایک سے زیادہ رائے لینا اچھی عادت ہے تاکہ آپ مطمئن ہوکے درست علاج کروا سکیں وہ چاہے جسمانی عارضہ ہو یا ذہنی۔ جو معالج اس بات پہ ناراض ہو، سمجھ جایئے کہ اسے خود اپنی تشخیص پہ یقین نہیں۔