سید مجاہد علی
بلوچستان کا ایک شاعر مارا گیا۔ اس کی بہن لوگوں سے پر امن رہنے کی اپیل کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کیا ہؤا کہ آج اس کا بھائی پولیس کے نشانے پر تھا۔ یہ کام تو 70 برس سے ہورہا ہے۔ کسی نہ کسی کا بھائی، باپ یا بیٹا مارا جاتا ہے۔ اس حوصلہ مند بہن کا کہنا ہے کہ اس ظلم کے خاتمہ کی جد و جہد پر امن ہی ہوگی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈروں کی ہدایات کے مطابق ہوگی۔
جوان بھائی اور بیٹے کی لاش کو گھر لے جاتے ہوئے لوگوں سے پر امن رہنے کی اپیل کرنے کے لئے جس ہمت و حوصلہ کی ضرورت ہے، وہ عزم کی ایسی علامت ہے جس کی مثالیں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسی مثال قائم کرنے والے لوگوں سے لیکن بلوچستان اور پاکستان کے امن و امان کو خطرہ ہے۔ اسی لئے لورا لائی پولیس کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں درج ہے کہ ’اس بات کے شواہد موجود ہیں موجودہ حالات میں چوکنا رہنے اور سیکورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی غیر متوقع سانحہ رونما نہ ہو۔
اس لئے بلوچستان پبلک آرڈی ننس مجریہ 1960 کے سب سیکشن 5 ( 1 ) اے اور سی کے تحت مسرت سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کا صوبے میں 97 دن کے لئے داخلہ بند کیا جاتا ہے‘ ۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ خطرہ کس سے کس کو لاحق ہے۔ وہ لوگ خطرہ کا سبب ہیں جو علی الاعلان اپنے ایک ساتھی کی اچانک رحلت پر اس کے جنازے میں شرکت کے لئے قلعہ سیف اللہ جانا چاہتے ہیں یا وہ سیکورٹی اہلکار امن خراب کرنے اور بے چینی بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں جنہوں نے اپنے منہ نقابوں سے ڈھانپ رکھے ہیں۔ یہ کیسے محافظ ہیں کہ انہیں ان ہی لوگوں سے منہ چھپانا پڑتا ہے جن کی حفاظت پر وہ مامور ہیں۔
سوچنا چاہیے کہ اس ملک اور صوبے کے وہ کون سے منتظمین ہیں جو اپنے لوگوں بلکہ قومی اسمبلی کے ارکان کو ایک جنازے میں روکنے کا حکم ’خوشی و مسرت‘ جاری کرتے ہیں۔ جو حکومتیں انگریز کا بنایا ہؤا ڈرافٹ بھی تبدیل نہ کرسکی ہوں، وہ کس منہ سے اپنے لوگوں کی ضرورتوں کو سمجھنے، ان کی حفاظت کرنے اور امن و امان کے مقصد سے انتظامات کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ سوگواروں کو جنازے پر جانے سے روکنا ہی قومی سلامتی کی بنیادی ضرورت ہے تو اس ہدایت کو جاری کرتے ہوئے تو حکم دینے والے کو بھی یہ حکم وصول کرنے والے ہی کی طرح دکھی اور رنجیدہ خاطر ہونا چاہیے۔ اس سرکاری اعلامیہ میں درج یہ ایک لفظ نہیں، ایک علامت ہے جس نے لوگوں کو حاکم اور محکوم کے دائرں میں بانٹ دیا ہے۔ پاکستان کی کوئی حکومت اس حصار کو توڑنے کی صلاحیت اور حوصلہ کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ایک شہر میں ایک شاعر مارا جاتا ہے لیکن لکھنے والا اسے بلوچستان کا شاعر کہنے پر مجبور ہے۔ اس لئے کہ بلوچستان اور پاکستان کے باقی لوگوں کے بیچ اتنی بڑی خلیج حائل کردی گئی ہے کہ اسے پاٹنا اب فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کے لوگ اگر بلوچستان کے سپوت، شاعر، سیاسی کارکن یا صحافی کو گلے لگانا بھی چاہیں تو بیچ میں ایستادہ توپیں اور نقاب پوش محافظ ایک قدم بڑھانے پر ہاتھ اور بازو دونوں قلم کرنے کے پابند ہیں۔ با الکل اسی طرح جیسے بلوچستان کی سرحدوں پر آج پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں اور لیڈروں کو ارمان لونی کی میت کو کاندھا دینے سے روکنے کے لئے بارود کی دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ ویسے ہی جیسے غم زدہ بھائیوں کو ایک شاعر بھائی سے محروم ہونے والی بہن وڑانگہ لونی کے سر پر دست شفقت رکھنے سے روکا گیا تھا۔
ارمان لونی لورالائی میں پولیس تشدد کے خلاف ایک دھرنے کے دوران اس وقت مارا گیا جب وہ پولیس سے یہ کہہ رہا تھا کہ اگر انہیں گرفتاریاں چاہئیں تو وہ نام فراہم کردیں، سب لوگ خود ہی گرفتاری دے دیں گے۔ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ موقع پر کیا ہؤا اس کی کوئی واضح تصویر موجود نہیں ہے۔ دوستوں، اہل خاندان اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے تشدد کیا۔ ارمان لونی کی دلیل اور حجت کو بندوق کے بٹ مار کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی اور اس نے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد تو ہؤا ہی نہیں۔ جوان اور صحت مند ارمان لونی کو دل کا دورہ پڑا اور درمند پولیس والے بھاگم بھاگ اسے امرض قلب کے ہسپتال لے گئے لیکن وہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکا تھا۔ یہ ایک ہی سچ کی دو متضاد تصویریں ہیں۔ جس کا جو دل چاہے قبول کرلے۔ لیکن جان لے کہ اگر سرکاری بیان کو ماننے سے انکار کیا گیا تو بندوقوں اور توپوں میں بارود اور توانائی کی کمی نہیں ہے۔ پولیس کا سچ ہی دراصل قومی سلامتی کا محافظ ہو سکتا ہے۔ اسے ماننے والے ہی محب وطن کہلائیں گے۔ جو اس سچ کو ماننے سے انکار کریں، ان کی نیت کو پرکھا اور تولا جائے گا۔ ان کے بارے میں شبہات کو یقین میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔
ایک واقعہ کے بارے میں بتائی گئی ان دو سچائیوں کے بیچ انصاف کا پھریرا لہرانے والے وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں جنہوں نے سارا سچ 48 گھنٹے میں سامنے لانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ انصاف کا بول بولا ہوگا۔ تب تک صبر کیا جائے۔ لیکن یہ اڑتالیس گھنٹے طول پکڑتے 70 برس پر محیط ہو چکے ہیں۔ وڑانگہ لونی جوان بھائی کی لاش سامنے رکھے پھر بھی کہہ رہی ہے ’پرسکون رہیں۔ امن قائم رکھیں۔ ہماری جد و جہد پر امن ہے‘ ۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ کب تک اس حوصلہ کا امتحان لیا جائے گا۔
کب تک ظلم سہنے والوں سے اپنے بھائیوں کی لاشیں اٹھانے کا حق بھی چھینا جاتا رہے گا۔ کب تک قاتل سر اٹھا کر گھومتے رہیں گے اور مقتول کے لواحقین کو رونے کا حق دینے سے انکار ہوتا رہے گا بلکہ اس حق سے محروم کرنے کا فرمان بڑی خوشی سے جاری کیا جائے گا۔ کب تک ایک بہن اور ماں کو اپنے بھائی اور لخت جگر کے سر پر زخم کے نشان دکھائی دیتے رہیں گے لیکن پولیس والوں کے بیان اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں یہ زخم روپوش ہوجائیں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ سال بھر پہلے کراچی میں نقیب محسود کے قتل کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔ پشتون جوانوں کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ فن اور موسیقی کے ایک متوالے کو دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلہ میں مارنے والے پولیس افسر راؤ انوار کو اس کے جرم کی سزا دی جائے۔ اس ایک مطالبہ کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی تحریک لاکھوں نوجوانوں کی آواز بن گئی۔ انہوں نے لاپتہکیے جانے والوں کا سراغ لگانے، اپنے علاقوں کو بارودی سرنگوں اور ناجائز رکاوٹوں سے نجات دلانے کے لئے آواز بلند کی۔
منظور پشتین نے کہا کہ وہ پر امن تحریک چلا رہے ہیں لیکن ان کی بات سنی جائے۔ وہ پاکستانی ہیں، ان سے قانون کو ماننے والے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ان کے جن ساتھیوں نے کوئی جرم کیا ہے، ملک کی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمے قائمکیے جائیں۔ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ یہ مطالبے طبع نازک پر ناگوار گزرنے لگے۔ پشتون تحفظ موومنٹ ناراض نوجوانوں کے گروہ سے ایک ایسی تنظیم بننے لگی جس سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔
لیکن اس ملک کی سلامتی اور امن و مان کو جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کی جان لینے والے ایک پولیس افسر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ تضاد دیوار پر لکھ دیا گیا ہے۔ اس تضاد کے سامنے پاکستان کی سلامتی بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس وطن میں نغمے بکھیرنے اور شعر سنانے والے ایک شخص کو بلوچستان کے امن کا دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ سرکار بتا رہی ہے کہ نقص امن کا اندیشہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے آج لاہور میں اپنے چہیتے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ مل کر دو ہفتے قبل ساہیوال میں مارے جانے والے چار لوگوں کے بارے میں صورت حال پر غور کیا۔ انہیں فی الوقت لورا لائی میں نغمے بکھیرنے والے شاعر اور امن کے لئے پکارتی بہن کی صدا سنائی نہیں دی۔ ایک جے آئی ٹی لاہور میں مصروف کار ہے اور ایک پولیس ٹیم لورالائی میں ارمان لونی کی ہلاکت کا سراغ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیر اعظم کو اس پر بات کرنے، اس کی مذمت کرنے کا وقت نہیں مل سکا ہے۔ وزیر اعظم کو بتایا جائے کہ وہ پورے ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اور تا اطلاعات ثانی بلوچستان پاکستان کا چوتھا صوبہ تھا۔ ایسا صوبہ جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور پاکستان کے خوابوں کی تعبیر میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔
جس صوبے کے وسائل سے ملکی معاشی ترقی کی عمارت تعمیر کرنے کا کام شروع کیا گیا ہے، اس کے عوام کو اپنے گمشدہ بھائیوں اور بیٹوں کی یاد میں آنسو بہانے اور جاں بحق ہونے والوں کو دفنانے کے کام پر لگایا گیا ہے۔ ریاست اور اس کے نمائیندے ’مسرت‘ سے لوگوں کی بنیادی آزادیاں سلب کرنے کا حکم جاری کررہے ہیں۔ نئے پاکستان کے نقیب کو خبر ہو یہ راستہ تعمیر کی طرف نہیں جاتا۔ اس میں خرابی اور تخریب کے سارے عناصر موجود ہیں۔