پنتیس سال سے زائد عمر کی خواتین میں سیکشوئیلیٹی کے معاملے میں بلوغت کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ اپنے جسمانی خدوخال سے متعلق احساسات پر قابو پا چکی ہوتی ہیں اور سیکس سے لطف اٹھانے لگتی ہیں۔ اس کے برعکس عورتیں کم عمری میں اپنے جسمانی خدوخال کے بارے میں بہت فکر مند رہتی ہیں اور خوبصورت جسم ہونے کے باوجود ان کے بارے میں حد سے زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ چالیس سال سے زائد عمر کی عورتوں اور مختلف عمر کے مردوں کے گروپوں کے ساتھ الگ الگ کی گئی طویل بحثیں اس مشاہدے کی بنیاد ہیں۔
مردوں کا کہنا تھا کہ انہیں پنتیس سال سے زائد عمر کی خواتین کا ساتھ سب سے زیادہ پسند ہے۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں کے مطابق یہ خواتین ریلیکسڈ ہوتی ہیں، ان کی کمپنی میں لطف آتا ہے اور سیکس کی طرف ان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ مرد پر احسان کر رہی ہیں۔ عورتوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔ عورتوں کا کہنا تھا کہ پنتیس سال سے زائد عمر کی عورتیں اکثر شادی شدہ ہوتی ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی معاشرتی زندگی کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔وہ شوہر کے گھر میں ایک ایسا مقام حاصل کر چکی ہوتی ہیں جسے کوئی بھی آسانی سے نہیں چھین سکتا۔ یہ معاشرتی تحفط ان میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے اور سیکشوئیلیٹی میں میچوریٹی کی وجہ بنتا ہے۔
عورتیں اس نئی حاصل کردہ توانائی کو اپنے بچارے شوہر پر بھی عیاں نہیں کر سکتیں کیوں کہ ان کا شوہر تو بستر پر ایک سست ساتھی کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ بعض عورتیں اپنی سیکشولیٹی کو آہستہ آہستہ ظاہر کرتی ہیں اور شوہر کے لیے راحت کا باعث بنتی ہیں لیکن بعض کے لیے یہ طریقہ بھی کام نہیں کرتا۔ وہ اپنی سیکشولیٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر تو قابو پا لیتی ہیں لیکن اب ان کے شوہروں کو ان کے اس نئے جذبے سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لئے دس برس بڑی عمر کے مرد کو آئیڈیل مانا جاتا ہے۔ زیادہ عمر کے مردوں کو میچور اور معاشی طور پر بھی خوشحال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ خیال بھی عام ہے کہ اگر بیوی کم عمر ہوگی تو وہ بچے کی پیدائش کے بعد بھی زیادہ عمر کی نہیں لگتی اور اس طرح اس میں شوہر کی دلچسپی قائم رکھی جائے۔
اس طرح کی صورتِ حال میں جب عورت پنتیس سے اوپر کی ہوجاتی ہے تو دس سال بڑے مرد کی سیکشوئیلیٹی مدہم پڑ رہی ہوتی ہے اور اسے عموماًاپنی بیوی کے اس نئے روپ میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ تاہم اتنے پیچیدہ مسائل کے متعلق کوئی جنرل رائے دینا بہت مشکل ہے کیوں کہ ہر انسان کی زندگی میں ان مسائل کا مختلف روپ ہے۔
اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب عورت پنتیس کے ہندسے کو پار کرتی ہے تو ازدواجی زندگی میں بہتری آ جاتی ہے اور اس کے میاں بیوی اپنی جنسی زندگی سے زیادہ آسودہ ہونے لگتے ہیں۔
میں ایک ایسی عورت کے بہت قریب تھی جس نے اپنی شادی اس بنا پر توڑ دی کہ اسے اپنے شوہر سے جنسی راحت نہیں ملتی تھی تاہم اس نے یہ وجہ صرف مجھے بتائی۔ باقی دنیا کو اس نے شادی توڑنے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور وہ ماں بھی نہیں بن سکتی۔ جب اس نے یہ وجہ پیش کی ان دنوں وہ حاملہ تھی لیکن اس کو اس لیے جھوٹ بولنا پڑا کہ حقیقت بیان کرتی تو اس کی فیملی والے اسے خلع نہیں لینے دیتے۔ خیر اس نے طلاق لی، ایبورشن کروایا اور کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی۔ یہ عورت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھی اور نہ ہی اس کا تعلق کسی امیر گھرانے سے تھا۔ وہ ایک عام سے کالج سے گریجویٹ تھی اور ایک یتیم لڑکی تھی جو اس وقت اپنے بھائی کی فیملی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ یہاں اس عورت کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس حقیقت پر روشنی ڈالی جا سکے کہ ہمارے اس معاشرے میں بھی عورتیں اپنی سیکشوئیلیٹی کی بنیاد پر زندگی کے اہم فیصلے کرتی ہیں۔
اس مثال سے شاید بہت سے لوگوں کو دھچکہ لگے لیکن اس کا مقصد لوگوں کو دھچکہ دینا نہیں بلکہ ان پر یہ واضح کرنا ہے کہ حقیقت ان کی سوچ سے مختلف ہے۔ ‘
اب جو دوسری مثال میں آپ کو دوں گی وہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھتے ہوئے اسی قسم کے غلط رواجوں کی ہے۔ پینتیس کے ہندسے کو عبور کرجانے والی عورتوں کو جب کسی طور راحت نہیں ملتی تو وہ دوسرے راستے تلاش کرنے لگتی ہیں۔ اور اکثر سننے میں آتا ہے کہ کسی بیگم صاحبہ کا اپنےڈرائیور یا پھر گھر میں موجود کسی اور کم عمر ملازم کے ساتھ افیئر ہے یا کسی جوان لڑکے کے ساتھ افیئر ہے۔
کم عمر مردوں کو بڑی عمر کی عورتیں زیادہ دلفریب نظر آتی ہیں۔ ان عوریوں کا مقصد شادی نہیں ہوتا اس لیے ان میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی اور وہ ریلیکسڈ ہوتی ہیں۔ ان کو صرف ایک برائے نام رشتے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے پیچیدگیاں بھی کم ہوتی ہیں۔ ان کم عمر لڑکوں کے لیے یہ عورتیں اپنی برسوں سے دبی جسمانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں سو پرکشش ہوتی ہیں۔
عورتوں کے ڈسکشن گروپ میں ایک ایسی ہی عورت پر بات ہوئی۔ اس عورت کے جوان بچے تھے لیکن پھر بھی وہ اس کم عمر نوجوان کے تعلق سے خود کو نہ روک پاتی تھی جواس کی ازدواجی زندگی، معاشرے میں حاصل کردہ مقام اور اپنے جوان بچوں کی نظر میں سب کے لیے ایک خطرہ تھا۔ یہ ان رشتوں کی طاقت ہے جو سیکشوئیلیٹی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس کے قریب تھے، اس کے لیے فکرمند تھے وہ اس رشتے کو چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن کوئی اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ عورت کی بھی کوئی ضروریات ہو سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لوگ اس طاقتور انسانی جذبے کے اظہار کے مختلف طریقے تلاش کرتے ہیں۔ مردوں کے ڈسکشن سیشن کے دوران سیکشوئل تجربوں کے طور پر کچھ ایسے ہولناک واقعات سامنے آئے جو خاندان کے اندر ان کے ساتھ اس وقت پیش آئے جب وہ بچے تھے۔ ان واقعات میں زیادہ تر خود بڑی عمر کی کزن، آنٹی یا قابل اعتماد ہمسائی کا ذکر تھا جنہوں نے انہیں کمسنی میں اپنی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ واقعات ہمارے معاشرے میں موجود سیکشوئیل قوت کو ثابت کرتے ہیں اور جب لوگوں کو صحیح مواقع یا تعلیم نہیں دی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ آٹھ سے بارہ سال کے لڑکے ان عورتوں کے لیے بےضرر ہوتے ہیں، اس لیے شکار بن جاتے ہیں۔ اس ڈسکشن میں شامل اکثر مردوں کا کم عمری میں کسی قریبی رشتہ دار خاتون کے ہاتھوں جنسی استحصال ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعات ہمارے معاشرے میں کتنی عام ہے۔
اگر عورتوں کی کم عمری میں ہی اپنی سیکشوئیلیٹی کو سمجھنے کے معاملے میں حوصلہ افزائی کی جائے تو ہمیں اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور عورتیں اپنی زندگی بہتر اور خوشحالی کے ساتھ گزار سکتی ہیں۔
*** ***
نبیلہ مالک صحافی ہیں اور عورتوں کے مسائل پر کالم لکھتی ہیں۔ نبیلہ نے پنجاب یونیورسٹی، سٹی یونیورسٹی لندن، آغا خان یونیورسٹی، آکسفرڈ اور جان ہاپکنز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور جنوبی ایشیا کی عورت اور اس کی نفسیات ان کا خاص موضوع ہے۔
2018.5.2