“قبلہ اب آپ ہی مشورہ دیجئیے میں آپ کی ہونے والی بھابی کے لئے کیا تحفہ خریدوں؟” میرے نوجوان دوست عرفی نے اپنی خوشی اور جوش کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ “ایں۔۔۔ کیا کہا؟” میں چونکا۔ ” دیکھئے آپ شادی کے حوالے سے میرے سینئر ہیں لہٰذا آپ کو میری رہنمائی کرنی چاہئے۔ چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس دن اپنی محبوب ہستی کو ایسا تحفہ دوں جو خوبصورت سی یاد بن کر اس کے دل میں ہمیشہ ستارے کی مانند جگمگاتا رہے۔”
” میاں ہم نے آپ کی نسبت جو بت تراشا تھا آج آپ نے اسے پاش پاش کر دیا ہے۔ افسوس آپ بھی ایسی قبیح اور غیر شرعی حرکات میں ملوث ہیں۔” میں نے عرفی میاں کے رومینٹک موڈ کو نظر انداز کرتے ہوئےکہا۔ وہ میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے میں نے کوئی انوکھی بات کر دی ہو۔ ” قبلہ آپ کس صدی میں جی رہے ہیں؛ اب تو مدرز ڈے، فادرز ڈے، ٹیچرز ڈے سمیت طرح طرح کے دن منائے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر محبت کرنے والے ایک دن منا لیں تو کیا حرج ہے؟ عرفی نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔
سُنو اے راہِ راست سے بھٹکے ہوئے انسان! تم کسی مادرپدر آزاد معاشرے کے فرد نہیں ہو، تم ایک نیک اور صالح معاشرے کے ذمہ دار انسان ہو۔ یہ آزاد لوگ اس طرح کے بے ہودہ دن مناتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہمارے نوجوان مغرب سے اتنے متاثر کیوں ہوتے ہیں۔ میں اور میرے جیسے صالحین کتنی کوشش کرتے ہیں کہ یہ باز آ جائیں مگر ان ناہنجاروں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
ویسے میرے ذہن میں ویلنٹائن ڈے سے نوجوانوں کو بچانے کا ایک آسان سا حل ہے اور وہ یہ کہ کیلینڈر سے چودہ فروری کی تاریخ کو نکال دیا جائے۔ دنیا میں بھلے چودہ فروری کا دن ہو گا لیکن ہمارے کیلینڈر میں تیرہ کے بعد ڈائریکٹ پندرہ تاریخ آ جائے گی۔ فروری بے چارے کے ویسے بھی دن کم ہوتے ہیں اس طرح اس کا ایک دن بھی بڑھ جائے گا۔
میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ یہ نوجوان صنف مخالف میں محبت کیوں ڈھونڈتے ہیں۔ ماں محبت کا سر چشمہ ہے۔ محبت کرنی ہے تو اپنی ماں سے محبت کریں، باپ سے محبت کریں، بہن سے، بھائی سے،بچوں سے، دوستوں سے، رشتہ داروں سے، وطن سے، موسم سے، مست نظاروں سے محبت کریں۔ یہ ان سب کو چھوڑ کر لڑکیوں کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
شکایت تو مجھے لڑکیوں سے بھی ہے۔ یہ بھی نہ جانے کیوں لڑکوں کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ یہ منحوس لڑکیاں ان کے تحفے بھی قبول کر لیتی ہیں اور ان کی خاطر زمانے سے بغاوت پر بھی اتر آتی ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں لیکن ان کا علاج کون کرے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
تاریخ بھی بتاتی ہے کہ سوہنی شرم و حیا اتار کر گھڑے کی مدد سے تیر کر دریا پار کرنے والے مہینوال نامی نوجوان سے ملنے جاتی تھی وہ تو بھلا ہو اس کی بھابی کا جس نے پکے گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیا، سوہنی ڈوب کر مر گئی اور بے حیائی کا سلسلہ بند ہوا۔
ویسے ہیر بھی کم نہیں تھی۔ اپنے باپ سے جھوٹ بول کر رانجھے کو اپنے ہی گھر میں نوکر رکھوایا تا کہ اس سے خفیہ ملاقاتیں کر سکے۔ شکر ہے اس زمانے کا ‘جگا جاسوس’ کیدو موجود تھا جس نے عشق کا راز طشت از بام کیا۔ ہیر کے باپ کی آنکھیں کھولیں۔ بعد ازاں ہیر کی بےحیائی پر غیرت کے نام پر اسے قتل کر کے ہماری لاج رکھ لی۔
سسی ہو، صاحباں ہو یا لیلیٰ ہو یہ لڑکیاں بھی بے راہ روی کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ رہے نوجوان تو وہ سدا کے لوفر اور آوارہ ہیں۔ خیر صالحین کی بھی کمی نہیں۔ بھئی ہماری مثال سب کے سامنے ہے ہم نے والدین کی پسند سے تین بار ‘قبول ہے’ کے لفظ ادا کر کے اپنا فریضہ بخیر و خوبی سر انجام دیا اور اس کے بعد کارِ جہاں میں مصروف ہو گئے جو بے حد دراز ہے۔
کئی ناسجھ نوجوان ویلنٹائن ڈے کے بہانے سے اپنی منگیترکو تحائف دیتے ہیں تو کئی شادی شدہ نوجوان اپنی بیوی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منانا چاہتے ہیں۔ ہے کوئی تُک؟ آخر ان کا مسئلہ کیا ہے؟ دنیا گلوبل ولیج سہی لیکن ان کو اپنی کٹیا میں زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے کون روکتا ہے۔
محبوبہ صرف شاعری میں پائی جاتی ہے حقیقی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور بیوی کو سال میں ایک دن اس طرح تحفے دینے سے اور کسی اچھے ریسٹورانٹ میں کھانا کھلانے سے نہ صرف آپ کی جیب پر بے تحاشہ بوجھ پڑتا ہے بلکہ بیوی بھی سر چڑھتی ہے۔
خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے سب سے اہم مسئلہ تو یہ ہے کہ جو نوجوان کسی لڑکی سے ویلنٹائن ڈے پر اظہارِ محبت کر رہا ہو گا اس کی بہن بھی کسی نوجوان سے تحفہ وصول کر رہی ہوگی۔ چلیں نوجوان ایسا کر لے تو خیر ہے لیکن گھر کی بہن بیٹی کی ایسی بے حیائی پر تو ظاہر ہے آپ کا خون کھول اٹھے گا۔ ہاں یہ بھی ہے کہ بہن یا بیٹی کو ایک دن گھر سے رخصت کرنا پڑتا ہے، شادی کرنی پڑتی ہے لیکن اس کا فیصلہ تو ہم خود کرتے ہیں۔ اس طرح بے شرمی سے پوچھتے تو نہیں ہیں کہ تمہیں کوئی لڑکا پسند ہے کیا؟ اگر ایسی بات ہے تو اسے گھر بلاؤ ہم بھی اس سے ملتے ہیں وغیرہ۔ توبہ توبہ ہم اتنے بے شرم نہیں ہیں۔
چناں چہ ہماری تمام زاہدانِ شہر کو یہ صلاح ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے منانے سے پہلے سوچیں کہ ایسا بے ہودہ دن منانے سے اپنے صالح نوجوانوں کو کیسے روکا جائے۔ نوجوانوں پر پابندی لگائیں کہ وہ اس دن گھر سے نہ نکلیں۔ اگر باہر جانا ضروری ہو تو ماں یا باپ میں سے کوئی ان کی نگرانی کے لئے ساتھ جائے۔ محلے کی لڑکیوں کو راکھی مت باندھیں یہ تو ‘ پڑوسیوں’ کی نقل ہوگی۔ ہاں دوپٹہ دے کر بہنیں بنائیں۔ پھر نہ کہئیے گا کہ نوجوان ویلنٹائن ڈے منانے میں کامیاب ہو گئے، ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔