زنیرہ ثاقبگئے وقتوں کی بات ہے۔ اٹھارہ انیس سال عمر تھی۔ ہم گھر کے اوپر والے حصے میں اپنے بھائی کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ نیچے والے حصے کے باورچی خانے سے اوپر کے گھر کو سیڑھیاں جاتی تھیں۔ سیڑھیوں کے اختتام پر اوپر کے گھر کا دروازہ تھا۔ دروازے کے بلکل ساتھ ایک ایک چھوٹی سی بالکنی تھی۔ جس کی اونچائی کی وجہ سے وہاں سے کسی کا آنا ممکن نہ لگتا تھا۔ شاید اسی لئے ہم نے کبھی مرکزی دروازہ لاک کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ ہمارے کمرے کا دروازہ مرکزی دروازے کے بلکل ساتھ ہی تھا۔ اوپر والے گھر میں تین کمرے تھے اور تینوں کمروں کے دروازے سامنے برآمدے میں کھلتے تھے۔ جو ہم رات کو لاک کر کے سویا کرتے تھے۔
شومئی قسمت ایک رات چوروں نے ساتھ والے گھر کی چھت سے بالکنی تک رسائی حاصل کر لی۔ سردیوں کے دن تھے اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اچھی یا بری قسمت سے نیند بے حد کچی واقعی ہوئی ہے۔ اتنی کچی کہ کوئی دروازے کو بے آواز طریقے سے بھی کھولے تو آنکھ کھل جاتی ہے۔ صبح چار بجے کا وقت تھا لیکن ابھی اندھیرا ہی تھا۔ کمرے کا دروازہ کسی نے دبے پاؤں کھولا اور باہر سے روشنی کی لکیر اندر آئی۔ آنکھ جھٹ سے کھل گئی ہم نے سوچا چھوٹا بھائی ہو گا جو اکثر رات کو ہمارا ٹیپ ریکارڈر چرانے آتا تھا۔
آنکھ کھلی توحسب معمول غصے میں بھائی کو صلواتیں سنائیں۔ دروازہ کھولنے والا تیزی سے بستر کی طرف بڑھا۔ ہمیں بھی احساس ہوا کے شبیہ ہر گز بھائی کی نہیں ہے۔ پہلے والے آدمی کے پیچھے ایک دوسرا بھی کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ بستر کی طرف بڑھنے والے آدمی نے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے اشارہ کیا۔ ہماری نیند بھک سے اڑ گئی اور ہم گھبرا کر بستر پر بیٹھ گئے۔ رضائی میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کے دوران دنیا جہاں کے برے خیالات ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ذہن سے گزر گئے۔ یقین ہو گیا کے اب خیر نہیں۔ بھائی ساتھ والے کمرے میں سو رہا تھا لیکن چونکے ہر کمرہ تقریباً علیحدہ تھا اس لئے ممکن نہیں تھا کے اس کو آواز بھی دی جا سکتی۔ شلوار قمیض میں ملبوس دونوں آدمیوں نے اپنے جسموں اور چہرے کو بڑی چادروں میں لپیٹا ہوا تھا۔
ایک نے کہا آرام سے بیٹھی رہ اور آواز نہیں نکالنا۔ ہماری آواز ان کے اشارے پر ہی بند ہو چکی تھی لیکن ہم نے دھمکی کو بھی خاطر خواہ جانا اور سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ دوسرے نے سامنے والا دروازہ، جو برآمدے میں کھلتا تھا، اس کو کھول دیا۔ ابھی تک اگر ہمیں لگ رہا تھا کہ آج کچھ قسمت روٹھی ہے تو دروازہ کھلنے کے بعد احساس ہوا کہ آج قسمت کا بلکل بینڈ بج چکا تھا۔ جیسے ہی برآمدے والا دروازہ کھلا تو چار اور ہٹے کٹے چادر لپیٹے مرد اندر آ گئے۔ دس ضرب پندرہ فٹ کے چھوٹے سے کمرے میں چھے عدد ڈاکو اور ایک کونے میں بستر میں ہم دبکے بیٹھے بچپن سے لے کر اب تک یاد کی گئی ساری دعائیں پڑھ رہے تھے۔
ایسا لگتا تھا کہ ڈاکوؤں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی بس آپس میں سرگوشیوں میں غالباً پشتو میں بات کرتے رہے۔ ایک نے اپنی چادر اتار کر زمین پر پھیلا دی اور ایک اور کے ساتھ مل کر اس میں سامان ڈالنا شروع کر دیا۔ یہ سن 2001 کی بات ہے کمرے میں نیا کمپیوٹر، ٹیپ ریکارڈر، واک من وغیرہ تھے۔ باقی 4 ڈاکوؤں نے کمرے کی تلاشی شروع کر دی۔ کوئی الماری کوئی دراز خالی نہ چھوڑی کچھ زیور الماری کے ایک کونے بنے سوراخ میں چھپایا تھا اس کو بھی ڈھونڈ نکالا اور جیبوں میں بھرتے رہے۔ ایک الماری میں نیشنل سیونگز کے سرٹیفکیٹس پڑے تھے۔ ایک نے اس کو نکالا ار پاس آ کر پوچھا یہ کیا ہے؟ بڑی مشکل سے ہم نے سمجھایا کہ سرٹیفکیٹ ہیں ان پر نیشنل سیونگز سے پیسے ملتے ہیں۔ کاغذ کا ٹکڑا ہے آپ کے لئے بالکل بیکار۔ اس نے مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھا اور سرٹیفکیٹس جیب میں ڈال لئے۔ اسی اثنا میں حضرت کی نظر کان میں پہنے بندوں پر پر بھی چلی گئی۔ حکم ہوا اتار دو اور ہم نے فوری حکم کی تعمیل کر دی۔
بیس پچیس منٹس گزر چکے تھے اور ڈاکو اپنے کام سے فارغ ہی ہوا چاہتے تھے۔ ہمیں اب یہ تو یقین ہو چلا تھا کہ ڈاکوؤں کو ہم سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے ہم بھی اطمینان سے بیٹھے شو دیکھتے رہے۔ کمرہ جنگ عظیم دوم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ یک دم ایک کھٹکا ہوا اور ایک لفظ بولے بغیر چھے کے چھے ڈاکو برآمدے والے دروازے سے باہر بھاگے۔ بیچاروں کو سامان اٹھانے کی مہلت بھی نہ ملی۔ (بعد میں معلوم ہوا کہ ساتھ والے کمرے میں سویا بھائی پانی پینے اٹھا تو اس کی نظر اپنے کمرے کے برآمدے والے دروازے پر پڑی جس کی کنڈی کھلی ہوئی تھی۔ اس نے کنڈی چڑھائی جس سے کھٹکا ہوا اور اور ڈاکو سمجھے کہ کوئی آ گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کنڈی لگا کر بھائی صاحب دوبارہ سو گئے )۔
ہمیں دو تین سیکنڈ تو یقین ہی نہ ہوا کہ ڈاکو تشریف لے گئے ہیں۔ جیسے ہی کچھ یقین آیا تو رضائی ایک طرف پھینک کر نیچے کی طرف ڈور لگائی۔ نیچے جا کر شور مچایا تو دو منٹ میں سارا گھر اٹھ بیٹھا۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچیس منٹ ڈاکو میرے کمرے میں جامہ تلاشی کرتے رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اگلا مرحلہ ہم سے پوچھنے کا تھا کے کہیں کوئی ”بدتمیزی“ تو نہیں ہوئی؟ ہم نے ڈاکوؤں کی شرافت کی قسم کھا کر گواہی دی۔
پولیس کو خبر کی گئی۔ سنا کے ایس ایچ او صاحب خود تشریف لا رہے ہیں۔ صبح7 بجے کا وقت تھا جب صاحب تشریف لاے۔ حکم ہوا بچی کو پیش کیا جائے۔ بچی حاضر ہوئی تو دیکھتی ہے کہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک ہٹے کٹے حضرت بستر پر یوں ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جیسے اپنے بیڈروم میں فلم دیکھ رہے ہیں۔ ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں ایک موٹی سی چین جھول رہی تھی۔
ہمارے گھر والے یوں کھڑے تھے جیسے ڈاکا انھوں نے مارا ہو۔ اپنی لال لال آنکھوں بڑے صاحب سے ہمیں سر سے پیر تک دیکھا۔ ہمیں ڈاکوؤں کے پچیس منٹ میں اتنا خوف محسوس نہیں ہوا جتنا ایس ایچ او صاحب کے سر سے پیر کے جائزے کی مہم میں ہوا۔ اپنے جائزے سے مکمل ہو کر صاحب نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا۔ ہمارے گھر والوں نے طرف منہ کیا اور کہا ” او جی بس شکر کریں عزت بچ گئی“۔
کتنے سال ہو گئے ہیں اس بات کو۔ یہ جملہ آج بھی میرے کان میں گونجتا ہے۔ کہاں کہاں یہ جملہ دوبارہ نہیں نہیں سنا۔ کسی اور شکل میں کسی اور کے منہ سے کسی اور صورت حال میں۔ کچھ سالوں بعد کی بات ہے۔ اپنے ساس، سسر، میاں اور ایک مہینے کی بیٹی کے ساتھ ہم کہیں جا رہے تھے۔ ایک کیری ڈبے نے اشارہ توڑتے ہوے گاڑی مار دی۔ ٹکر اتنی زوردار تھی کہ ہمارے گاڑی الٹ گئی۔
میری ایک مہینے کی بیٹی جانے کہاں جا گری۔ اندھیرے اور گھبراہٹ میں ہاتھ مار کر بیٹی کو ڈھونڈا تو وہ خاموش۔ دل دہل گیا، گھبرا کر اس کو ہلایا وہ روئی تو ہماری جان میں جان آئی۔ گاڑی بالکل تباہ ہو گئی لیکن معجزانہ طور پر ہم سب محفوظ رہے۔ ہم نے پولیس میں کیس لے جانا چاہا۔ پولیس نے کہا آپ کی مرضی ہے جی دیکھ لیں ویسے شکر کریں کہ جان بچ گئی۔
بس پھر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ چوری ہو جائے، لٹ جائیں، گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے ہم کہیں گے کہ بھئی شکر ہے۔ زخمی ہو گئے تو کہیں گے شکر ہے مرے تو نہیں۔ ٹانگ ٹوٹ گئی تو کہیں گے شکر ہے دوسری تو ہے۔ شکر کرنے کو بہت کچھ ہے۔ بس خواہش ہے کہ سیکورٹی والے ادارے اپنے دفتر بند کر دیں۔ عوام کو آیت الکرسی سکھا دیں۔ وہ پھونکیں اور محفوظ رہیں اور شکر کرتے رہیں۔
Oct 14, 2017
Oct 14, 2017