امبر کمرے میں داخل ہوئی اپنا شولڈر بیگ زور سے بستر پر پٹخا اور اوندھے منہ لیٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں یہ ساری صورتحال خاموشی سے دیکھتی رہی۔ کالج سے واپس آکر کھانا کھا کر ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ امبر والا سارا سین شروع ہو گیا۔ اب کہاں کی نیند اور کہاں کا آرام، میں اسے دلاسہ دینے کے لئے اور اصل ماجرا سننے کے لئےاسکے پاس پہنچی، بہت اصرار کیا کہ کچھ تو بولو ہوا کیا ہے۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ جتنا رونا ہے رو لے اور دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ تو تھا کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔
امبر کے والدین اس کی پیدائش سے پہلے ہی راولپنڈی کے ایک نواحی گاؤں سے انگلینڈ کے شہر برمنگھم شفٹ ہو گئے تھے، سو امبر وہیں کی جم پل تھی، اس کے والد شروع میں تو وہاں چھوٹی موٹی مزدوریاں اور نوکریاں کرتے رہے تھے لیکن اس وقت ان کا وہاں پر ایک بڑا گروسری سٹور تھا۔ والدہ بھی گارمنٹس کا کام کرتی تھیں جبکہ ایک بڑا بھائی پاکستانی کزن دے شادی کے بعد والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔
امبر نے وہیں سے آرٹ اور گرافکس کی بیچلر ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ یہاں پاکستان میں وہ اس وقت نا صرف میری روم میٹ تھی بلکہ اردو زبان سیکھنے کے لئے میرے ہی ادارے میں پڑھ رہی تھی جہاں سے میں ماڑی موٹی انگریزی سیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
انگلینڈ میں اس کے والدین معاشی ترقی کی دوڑ میں دن رات کولہو کے بیل کی طرح جتے رہتے تھے اور چھٹی کے دن سارا وقت سو کر گزارا جاتا تھا۔ گو کہ امبر کا تعلیمی سفر بہت اچھا رہا تھا لیکن شاید والدین کی بے توجہی اور آزادانہ ماحول میں رہتے ہوئےاس نے وہاں پر ڈرگز بھی لینی شروع کر دیں تھیں اور ایک پاکستانی نژاد لڑکے سے ہی اسے اپنی زندگی کی پہلی محبت ملی، لیکن اس لڑکے کے لئے محبت صرف جسمانی تعلق کا نام تھا جو کہ اس نے کافی عرصے تک اس کے ساتھ جاری رکھا لیکن شادی اپنی کزن سے کر کے اس کی زندگی سے نکلتا بنا۔ ایک کے بعد ایک امبر نے بہت سے لڑکوں سے دوستیاں کیں اور ڈرگز کے چکر میں ڈوبتی گئی۔ والدین کو جب اس کی حالت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے اس کی شادی کرنے کے لئے زور دیا لیکن کوئی بھی ڈھنگ کا رشتہ نہ مل سکا، آخر کار والدین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ امبر کو پاکستان دادی کے پاس بھیج دیا جائے اور کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر شادی کی جائے۔ ان کا اپنا ارادہ بھی اب مستقل پاکستان شفٹ ہونے کا تھا۔ ددھیال میں وہ خود کو ایڈجسٹ نا کر سکی اور میرے ہاسٹل شفٹ ہو گئی۔ شام کو وہ ایک جگہ جاب بھی کرنے لگی تھی کیونکہ بیچلر ڈگری تو اس کے پاس تھی۔ اردو زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس نے اردو زبان سیکھنے کے لئے میرے ہی ادارے میں داخلہ لے لیا تھا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا کہ اس کی دوستی ایک سیکشن افسر سے ہوگئی، خوبصورت تو وہ تھی ہی اوپر سے انگلینڈ پلٹ اور والد کے بھیجے ہوئے پیسوں کی بھی کمی نہیں تھی سو اس سیکشن افسر پر محبت اور پیسے کی دل کھول کر برسات ہو رہی تھی۔ اکثر دونوں کی شامیں اور راتیں اکٹھی گزرتی تھیں۔ ان دونوں کے تعلقات بھی جس نہج پر جا پہنچے تھے مجھے سب سمجھ آ رہی تھی اور میں اس کے ساتھ س موضوع پر کرتی رہتی تھی کہ ذیشان(سیکشن آفیسر) سے شادی کی بات کیوں نہیں کرتی کیوں خود کو اتنا گرا رہی ہو اس کے پیچھے۔
اور جس دن اس کا یہ رونے دھونے والا واقعہ ہوا تھا اس سے ایک رات پہلے بھی میری اس سے شادی والی بات پر بحث ہوئی تھی۔ شام تک جب اس کا رونا دھونا بند ہوا اور حواس بحال ہوئے تو مجھے بتایا کہ اس نے ذیشان سے بات کی تھی تو اس نے پہلی بات تو یہ کی کہ میں ایک خاندانی شخص ہوں اور شادی اپنے والدین کی مرضی سے کروں گا لیکن جس بات نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا وہ اس کا یہ جملہ تھا
l would have married you if you were a virgin
l would have married you if you were a virgin
ذیشان کے اس جملے کے بعد وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے پاس نہیں رکی۔ اور باقی جو کچھ ہوا وہ سب میرے سامنے تھا۔ اس کے پاس سوائے رونے کے اب کچھ باقی نہیں تھا۔ ایک مرد چاہے ایک چھوڑ دس جگہ دوستیاں کرے لیکن اسے شادی کے لئے نیک پروین ہی چاہیے ہوتی ہے۔ یہ بات شاید امبر کی سمجھ میں آج تک نہیں آئی ہو گی اور نا ہی میری سمجھ میں۔
Sep 8, 2017
Sep 8, 2017