”میں چھپ کر لکھتی ہوں کیونکہ ہمارے ہاں اسے کھلی بے حیائی سمجھا جاتا ہے“ اور میں جو پہلے روزے کی اینگزائٹی میں سو نہیں پا رہی تھی، نیند بالکل ہی غائب ہوگئی۔ آج ہم عورت کی خودمختاری کا نعرہ لگاتے ہیں تو سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ عورت نے دنیا کی ہر فیلڈ میں اپنا آپ منوایا ہے مرد کے نہ صرف شانہ بشانہ بلکہ عین مقابل آکر۔ ”بس آٹھویں جماعت تک پڑھی ہوں آگے پڑھنے نہیں دیا یہ کہہ کر کہ ہم نے کون سا نوکری کروانی ہے“ مگر ایسے تلخ حقائق، تھوڑی دیر کے لئے تو یقین ہی نہیں آتا کہ ابھی تک ایسا ہوتا ہے وہ بھی کسی غربت کے مارے ہوئے گھر میں نہیں بلکہ زمیندار گھرانوں میں۔
زمینداروں کی لڑکیاں، بچیاں پڑھیں گی نہیں تو اس طبقے کے مردوں کی سوچ اور اپروچ تہذیب کے دائرے میں کیسے آئے گی۔ بہت پہلے تو یہ سب عام تھا ہی۔ مگر آج بھی؟ ایک لمحے کو میں سکتے میں آگئی کیونکہ اس صورت حال سے دو چار کوئی عام سی ڈرپوک لڑکی نہیں تھی جن کو چاردیواری میں ڈال دیا جائے تو وہ محض اپنے سسٹم اور خود سے جڑے مردوں کی غلامی میں جت کر اپنی عمر تیاگ دیتی ہیں اور بالآخر کسی موذی ذہنی یا جسمانی مرض کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر زخموں کی تاب نہ لا سکتے ہوئے خود سے جڑے مرد کی دوسری شادی کا سامان کرنے کے لئے جہانِ فانی سے کوچ ہی کر جاتی ہیں۔
اور چاردیواری میں سسکتی اور گھستی ہوئی یہ زندہ لاشیں اتنی بے ضرر اور بے کیف ہونے کے ساتھ ساتھ بے ضرورت بھی ہوتی ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان پر ہونے والے لاتعداد مظالم کی بھنک کبھی ان اونچی فصیلوں سے باہر نہیں نکل پاتی اور نہ ہی ان کی کمی اتنے بڑے گھر کے کسی کونے میں محسوس کی جاتی ہے۔ جہالت اور مردانہ برتری کے اس سسٹم میں عورت فصل کی جنس سے زیادہ اہمیت نہں رکھتی۔ ایک نہ سہی تو دوسری کھیتی سہی۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھ سے مخاطب ایک کمال کی رائیٹر تھی۔ جس کے لکھے ہوئے کی میں خود مداح ہوں۔ اور جو جگر کھول کے اپنے جاگیردارانہ نظام کے خلاف لکھتی ہے اور اتنا میچیور اور سنجیدگی سے مسائل کو اپنی تحریروں میں سمیٹتی ہے کہ مجھے یقین کیسے آئے کہ اس لڑکی کو آٹھ جماعتوں سے آگے پڑھنے نہیں دیا گیا۔ اس اتنی ذہین لڑکی کے ساتھ کیا یہ انتہائی ظلم نہیں کہ اس کے ہاتھ سے قلم چھین کر اسے حویلی کی چاردیواری میں کسی اوباش اور نفسیاتی زمیندار کے ساتھ غلامی کے رشتے کے انتظار میں بوڑھا کیا جائے۔
کسی غیر مسلم نے کہا تھا کہ قرآن کو سنتے ہوئے عورت کے حقوق کا اس قدر ذکر ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل نہ ہوا ہوتا تو اسے پکایقین تھا کہ قرآن کسی عورت نے لکھا ہے۔ آج ہم نے قرآن کے احکامات کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ ہم نے اسے اونچی شیلف پہ سجا دیا اور خود پستی میں گر گئے۔ ہمارے گھروں میں کسی کو ادراک اور فہم ہی نہیں کہ قرآن میں عورت کے ساتھ نرمی، بھلائی یہاں تک کہ احسان کا درجہ رکھنے کی کس قدر تنبیہہ ہے۔ علم حاصل کرنا مرد وعورت پر یکساں فرض ہے اور ان کا حق بھی۔ زمانہ جہالت میں پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتاتھا۔ اب کا دور، دورِجہالت سے کئی صدیاں آگے نکل کر بھی اس سے زیادہ پستی میں گرا پڑا ہے
بیٹیوں اور عورتوں کو زندہ چھوڑدیا جاتا ہے مگر دن رات اذیت کی قبر میں اتارا جاتاہے۔ آخر عورت کو مرد کی انا کی کٹھ پتلی کس نے بنایا؟ مرد جو چاہے کرے مگر عورت اپنی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرسکے اور جو حقوق اسے مذہب اور قانون دیتے ہیں، کبھی خون کے رشتے تو کبھی مجاز کے، انھیں ان کی ضروریات اور حقوق سے کیسے محروم رکھ سکتے ہیں
چند عورتوں کے ہاتھ میں خودمختاری کے بینرز ہیں اور باقی سب۔ کوئی دس سالہ نازک سی مسکین بچی کسی چالیس پینتالیس سالہ ہٹے کٹے مرد کے ساتھ پیسوں یا کسی خاندانی تنازعے کے عوض نکاح دی جاتی ہے۔ دس سالہ کا نکاح کیسے جائز ہے؟ آخر جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے؟
ابھی کچھ دن پہلے چینی لڑکوں کے ساتھ پنجاب کی مسیحی برادری کی لڑکیوں کی پیسوں کے عوض شادیوں پر ایک رپورٹ پڑھ رہی تھی کہ کس طرح ان لڑکیوں کو شادی کے ذریعے جنسی ٹریفکنگ میں استعمال کیاجاتا ہے۔ چائنہ میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے اورعورتوں کی کم۔ سو اس تعداد کے نسبت تناسب کو سدھارنے کے لئے وہ پاکستان کی غریب منڈی کا رخ کیے بیٹھا ہے۔ اس منڈی میں سب بکتا ہے اور سب سے پہلے ایمان بکتا ہے۔
پھر وہی تکلیف۔ وہی اذیت۔ لیکن مسئلے کا حل مل کے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں ہمارے یہاں کی جہالت بالآخر کب ختم ہوگی؟ کیا یہی جہالت ان تمام اخلاقی اور سماجی زیادتیوں کی جڑ نہیں؟
امید کی شمع روشن مگر ڈر یہ ہے کہ آندھیاں بھی حددرجہ تند ہیں اور جس نے اونچی دیواروں کے زندان اندر سے خود کو اپنی ذہانت اور قلم کے زور پر منوا لیا ہے زندگی یقیناً اس کے لئے اور دروازے بند کرے گی۔