آسیہ بی بی نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں بریت کے بعد پاکستان چھوڑ دیا


آسیہ بی بی

Getty Images
آسیہ بی بی رہائی کے بعد سے پاکستان میں ہی اپنے شوہر کے ہمراہ ایک نامعلوم مقام پر موجود رہیں

پاکستانی حکام کے مطابق توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے باعزت بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ نورین پاکستان سے چلی گئی ہیں۔

پاکستانی دفترِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات کے ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آسیہ بی بی کی روانگی کی تصدیق کی تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان کی منزل کیا ہے اور وہ کب ملک سے روانہ ہوئیں۔

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی دونوں بیٹیاں کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں۔

توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن گزشتہ برس اکتوبر میں عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔

بعدازاں رواں برس کے آغاز میں ان کی بریت کے خلاف دائر اپیل بھی مسترد کر دی گئی تھی۔

آسیہ بی بی کے حوالے سے مزید پڑھیے

آسیہ بی بی کیس اور پاکستان میں توہینِ مذہب

آسیہ بی بی کی بریت اور پاکستان میں احتجاج پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ

عمران خان: ’آسیہ بی بی ہفتوں میں پاکستان چھوڑ دیں گی‘

آسیہ بی بی کو رہائی کے بعد پاکستان میں ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی رہائی کے فیصلے پر ملک میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 10 اپریل کو بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ آسیہ بی بی ‘بہت جلد پاکستان چھوڑ دیں گی۔’

بی بی سی کے مدیر عالمی امور جان سمپسن نے اپنے انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم سے پوچھا تھا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ کیا ہوا، وہ ابھی تک پاکستان چھوڑ کر کیوں نہیں گئیں؟

عمران خان نے کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آسیہ بی بی محفوظ ہیں اور وہ ہفتوں کے اندر اندر پاکستان چھوڑ کر چلی جائیں گی۔’

آسیہ پاکستان بلاسفیمی

Getty Images
آسیہ بی بی کی بیٹیاں پہلے ہی کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں(فوٹو فائل)

آسیہ بی بی نے ملک کیوں چھوڑا؟

آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت کے بعد ان کے وکیل سیف الملوک نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ توہین مذہب کے مقدمے میں عدالت عظمی سے رہائی پانے کے باوجود ان کی موکلہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

اُنھوں نے کہا تھا کہ ملک کے متعدد علمائے کرام نے آسیہ بی بی کے قتل کے فتوے جاری کر رکھے ہیں اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیرون ملک چلی جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘پاکستان آسیہ کے تمام قانونی حقوق کا مکمل احترام کرتا ہے’ 

آسیہ، باجوہ اور خونی لبرل

آسیہ بی بی کے شوہر کی مغربی ممالک سے پناہ کی اپیل

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے یہ بھی بتایا تھا کہ آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ اس خاندان کے ترجمان جوزف ندیم کے اور ان کے اہلخانہ بھی کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔

سیف الملوک کے مطابق یورپی ممالک نے جوزف ندیم اور ان کے اہلخانہ کو ویزہ دینے یا اُنھیں مستقل سکونت دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم کینیڈا کی حکومت نے آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ جوزف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔

آسیہ بی بی کیس کیا تھا؟

آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

2009 میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف ‘تین توہین آمیز’ کلمات کہے تھے۔

پاکستان

AFP

استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔

الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔

جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ‘تین توہین آمیز’ کلمات کہے تھے۔

اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے تاہم آسیہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔

2010 میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔

آسیہ بی بی نے جنوری 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس نے اکتوبر 2018 میں انھیں بری کر دیا۔