مغرم زیلانوو
المیرا (جن کا اصل نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) یاد کرتی ہیں ’جب شادی کے بعد انھوں نے میرے سامنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے تو میں خوفزدہ تھی۔‘
’لیکن اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کے باوجود کہ میں شادی شدہ ہوں مجھے سکون نہیں مل رہا تھا۔ ‘
المیرا 27 برس کی تھیں۔ انھوں نے یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی اور وہ بطور مترجم کام کر رہی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتخاب ان کے والدین نے کیا تھا۔ وہ ’اپنی والدہ کو خوش‘ کرنے کے لیے شادی کے لیے رضامند ہو گئیں۔
وہ یاد کرتی ہیں ’وہ ہمارا پڑوسی تھا، ہم بالکل مختلف تھے۔ وہ ان پڑھ تھا، ہم میں کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔‘
’میرا ان سے تعارف میرے بھائیوں کے ذریعے کروایا گیا اور انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اچھا انسان ہے۔ میری والدہ خوش تھیں کہ میں ایک پڑوسی سے شادی کر رہی ہوں، لہذا میں قریب رہوں گی اور انھیں پتہ چلتا رہے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
ان کی شادی کی رات وہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے سیکس کیا۔ المیرا بتاتی ہیں کہ یہ جاننے کے بعد کہ وہ کنواری ہیں ان کے شوہر نے ان کے جذبات اور عزت نفس کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔
دروازے کے پیچھے المیرا کی والدہ، دو آنٹیاں، ان کی ساس اور دور دراز کے رشتہ دار موجود تھے۔ ان سب کی موجودگی روایتی طور پر دلہن کے کنوارے پن کی تصدیق کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
المیرا یاد کرتی ہیں ’میں درد اور شرمندگی سے کانپ رہی تھی اور میں نے سوچا کیا شادی واقعی یہ ہے؟‘
دور دراز کی رشتہ دار خاتون ’اینگی‘ کا کردار ادا کر رہی تھیں: ایک شادی شدہ خاتون جو نوبیاہتا جوڑے کے ساتھ گھر جاتی ہے اور پوری رات ان کے کمرے کے باہر بیٹھی رہتی ہے۔
اس کی ایک ذمہ داری مشاورت ہوتی ہے۔ جنسی طور پر ناتجربہ کار دلہن کمرے سے باہر آ کر ان سے بات کر سکتی ہے۔
اینگی کی دوسری ذمہ داری سہاگ رات کے بعد بیڈ شیٹ کو لے جانا ہوتا ہے۔
شادی کی ’پرسرار‘ رات
کاکاساس کے علاقے میں شادی کی اگلی صبح بیڈ شیٹ سب کو دکھانا ایک عام روایت ہے۔
اس پر موجود خون رشتہ داروں کو ازدواجی تعلقات کا ثبوت دیتا ہے۔ خاندان والے خون کے دھبے دیکھنے کے بعد نوبیاہتا جوڑے کو مبارکباد دیتے ہیں اور صرف اسی کے بعد ہی شادی کی رسم کو مکمل سمجھا جاتا ہے۔
آذربائیجان میں حقوق نسواں کی تعلیم حاصل کرنے والی شاکھلا اسماعیل کہتی ہیں ’اسی وجہ سے شادی کی رات اتنی پرسرار ہوتی ہے کہ اگی صبح بیڈ شیٹ کیا دکھائے گی؟‘
’اگر خون کے دھبے نہ ہوں تو عورت کو نکال دیا جاتا ہے اور ’ناقص‘ کہہ کر والدین کو واپس کر دیا جاتا ہے۔‘
اس کے بعد اسے طلاق یافتہ سمجھا جاتا ہے، اور اسے دوبارہ شادی کرنے میں اکثر مشکل درپیش ہوتی ہے، حتیٰ کے والدین کے گھر میں بھی اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق شادی کی رات کی گواہی اور چادروں کی نمائش ملک کے دیہی علاقوں میں ابھی بھی عام ہے۔
کبھی کبھی شادی سے قبل، عورت کو کسی ’ماہر‘ کو بھی دکھایا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ وہ کنواری ہے یا نہیں؟
بین الاقوامی تنظیموں کو اس طریقہ کار پر سخت شبہات ہیں۔ گزشتہ خزاں، اقوام متحدہ اور بین الاقومی ادرہ صحت نے ان20 ممالک کو جہاں آج بھی یہ عمل رائج ہے، یہ روایت ختم کرنے کی ہدایت کی تھی کیونکہ یہ خواتین کے لیے ذلت آمیز اور تکلیف دہ ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ میڈیکل سائنس میں کنوارے پن کا کوئی تصور نہیں، اور یہ صرف سماجی، ثقافتی اور مذہبی سوچ میں وجود رکھتا ہے۔
’خوف کا شرم پر غلبہ‘
خوف، درد اور شرم، المیرا اپنی شادی کی رات کو ان احساسات سے منسلک کرتی ہیں۔
’میں اپنے آپ سے دور تھی اور کچھ بھی کہنے کے لیے خوفزدہ تھی۔ میں پوری رات نہیں سو سکی، لیکن انھیں ذرا خیال نہیں تھا اور وہ آرام سے سو گئے۔‘
صبح ’گواہ‘ کمرے میں آیا اور بیڈ کی چادریں لے گیا۔
المیرا کہتی ہیں ’اس وقت میں نے بالکل پرواہ نہیں کی، میں نے سمجھ لیا کہ سب کتنا قابل نفرت تھا، لیکن پچھلی رات کا خوف شرم پر غالب آ گیا۔‘
’مجھے علم تھا کہ سب بیڈ شیٹ کا معائنہ کریں گے لیکن میں اس قدر صدمے میں تھی کہ مجھے یاد ہی نہیں کہ وہ اسے کیسے اتار کر لے گئے۔‘
ماہر نفسیات ایلاڈا گورینا کہتی ہیں ’یہ روایات ہر سال خواتین کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہیں۔‘
گورینا کہتی ہیں ’آج تک بہت سی خواتین ’اینگی‘ کو ایک عام چیز مانتی ہیں۔‘
’تکلیف، تنازعہ اور مصیبت اس وقت ہوتی ہے جب نئی نسل اپنے والدین سے مختلف وقت میں جوان ہوتی ہے‘
نگار، جو کہ آذربائیجان کے دیہی علاقے میں رہتی تھیں، یاد کرتی ہیں کہ ان کی شادی کی رات ’مشورہ‘ دینے کے لیے ایک یا دو لوگ نہیں بلکہ ’پورا گاؤں‘ ساتھ والے کمرے میں جمع تھا۔
’مجھے اس سے پہلے کبھی اتنی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی تھی، لیکن میں نے سوچا کہ یہ نارمل ہے کیونکہ بڑی عمر کے لوگ بہتر جانتے ہیں۔‘
نگار بتاتی ہیں کہ انھیں اور ان کے شوہر کو سیکس کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ انھیں دروازے کے پیچھے لوگوں کے سانس لینے اور کرسیاں ہلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ صبح انھیں بھی چادریں دکھانا تھیں۔
اس وقت نگار کی عمر 18 برس تھی، اب وہ 30 برس کی طلاق یافتہ ہیں، اور دارلحکومت باکو میں رہ رہی ہیں۔
’سرخ سیب‘
ہمسایہ ملک آرمینیا میں بھی اس سے ملتی جلتی روایات موجود ہیں اور بعض اوقات ایسی روایات جارجیا اور شمالی کاکاساس میں روس کی متعدد جمہوریہ میں بھی ملتی ہیں۔
آرمینیا میں دروازے کے پیچھے کوئی ’گواہ‘ نہیں ہوتی۔ ادھر اس روایت کو ’سرخ سیب‘ کہا جاتا ہے، چادروں پر خون کے دھبوں کا نازک اشارہ۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن نینا کاراپیٹینز نے بتایا کہ ’دارالحکومت سے ہٹ کر حالات جتنے خراب ہیں، تبدیلی کے لیے مزاحمت اتنی ہی زیادہ ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ بعض اوقات لڑکی کے ’صاف اور پاک‘ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے اس کے تمام رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بلایا جاتا ہے۔
نینا کاراپیٹینز کہتی ہیں ’ لہذا پورا گاؤں اس ذلت آمیز رسم میں حصہ لیتا ہے۔‘
دیہی علاقوں میں اکثر لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر میں کر دی جاتی ہے، اکثر لڑکیوں کے پاس ملازمت یا کوئی مہارت نہیں ہوتی ہے۔ اگر ایسی کوئی لڑکی ’سیب ٹیسٹ‘ پاس نہیں کرتی تو والدین اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
’ہم اس رات کے بارے میں بات نہیں کرتے‘
ایلاڈا گورینا کے مطابق کچھ خواتین نسبتاً آسانی سے روایت کا سامنا کر لیتی ہیں جبکہ کئی خواتین برسوں اس صدمے کا سامنا کرتی ہیں۔
گورینا بتاتی ہیں کہ ایک کیس میں جوڑے کی شادی کی رات چادر پر کوئی دھبہ نہیں تھا۔
’لہذا لڑکے کا پورا خاندان دلہن کے کنوارے پن کا معائنہ کرانے کے لیے آدھی رات کو اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔‘
شادی کے چھ ماہ بعد المیرا کے شوہر انتقال کر گئے۔ وہ کہتی ہیں ’ آدھا سال ہم نے کبھی بھی اس پہلی رات کے بارے میں بات نہیں کی۔‘
شوہر کی وفات کے بعد ان کے پاس کوئی اور مرد نہیں تھا، وہ کہتی ہیں وہ نفسیاتی رکاوٹ کا شکار تھیں۔
وہ کہتی ہیں ’ میں دوبارہ شادی کرنے یا کسی اور سے ملنے کے لیے تیار تھی، لیکن میرے سابقہ تجربے نے مجھے روک دیا۔ اگر مجھے دوبارہ وہ لمحہ جینا پڑتا تو میرا اپنے شوہر اور ان خواتین کے ساتھ رویہ مکمل طور پر مختلف ہوتا۔‘
آرمینیا اور آذربائیجان کے ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ روایات آہستہ آہستہ ماضی کا حصہ بن رہی ہیں۔ نینا کاراپیٹینز کہتی ہیں ’ نئی نسل اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے۔‘
شاکھلا اسماعیل کہتی ہیں ’ میں ایسے خاندانوں کو جانتی ہوں جنھوں نے اس تقریب کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ میرے نزدیک وہ لوگ کمال ہیں، اور تبدیلی ان ہی سے شروع ہوتی ہے۔‘
عارف اور ملائیکہ( اصل نام ظاہر نہیں کیے جا رہے) آذربائیجان کا نوجوان جوڑا ہے، جن کا ایک دوسرے سے تعارف رشتہ داروں کے ذریعے ہوا۔
روایت کے مطابق، ان کی شادی پر دلھا اور دلہن ایک اونچی میز پر سب سے الگ بیٹھے، صرف ان کی میز پر شراب نہیں تھی۔
انھوں نے اپنے مہمانوں، جن کی تعداد 400 کے قریب تھی، ناچتے اور لطف اٹھاتے دیکھا۔ دلھا دلہن کو سب کے سامنے بوسہ نہیں دے سکتا کیونکہ یہ لوگوں میں قابل قبول نہیں ہے۔
لیکن خلاف توقع، ملائیکہ نے جلد ہی اپنے سنجیدہ چہرے کو تبدیل کر لیا اور اپنے رشتہ داروں کی حیران کن نگاہوں کے سامنے خود بھی ناچنا شروع کر دیا۔
مہمانوں نے ملائیکہ کو بے شرم کہتے ہوئے سرگوشیاں کی اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔
’وہ کیسے اتنی بد تہذیب ہو سکتی ہے؟‘ ایک اور نے کہا ’وہ کیسے ہماری روایات کی بے عزتی کر سکتی ہے۔‘
مہمان اس بات سے خوش نہیں تھے کہ دلہن ان پر توجہ نہیں دے رہی اور رشتہ داروں کے بجائے اپنی دوستوں سے بات کر رہی ہے اور کبھی اپنے شوہر پر رعب ڈال رہی ہے۔
لیکن ملائیکہ بھی اس روایت سے نہیں بچ سکی۔ جب نوبیاہتا جوڑے کی گاڑی شادی ہال سے نکلی، چار خواتین کے ساتھ ایک گاڑی نے ان کا پیچھا کیا۔
حتیٰ کے اس نئے جوڑے کو بھی معلوم تھا کہ آج رات وہ اپنے گھر میں اکیلے نہیں ہوں گے۔
تصاویری خاکے مغرم زینالوو نے بنائے ہیں۔