نورِ مریم
یہ علی حیدر کیساتھ میری پہلی تصویر ہے۔ جب میں اسے پہلی بار کراچی کیمپ میں ملنے گیئ۔ یہ نومبر 2013 کی بات ہے جب یہ دس سال کا بچہ اپنے والد کی تلاش میں اپنا اسکول چھوڑ کے کوئٹہ سے کراچی پیدل چل کے پہنچا تھا۔ اور ابھی اسلام آباد انصاف کی تلاش میں جانا تھا۔
کاش آج یہ پوسٹ لکھنے کے لئے میں زندہ نہ ہوتی۔ میری زندگی میں یہ دن نہ آتا جب مجھے علی حیدر کے بارے میں ایسی پوسٹ لکھنی پڑتی۔
کچھ دوست جانتے ہیں کہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ جب مظلوموں غریبوں دکھی بہنوں اور لاچار باپ کی یہ لانگ مارچ ہو رہی تھی تو چار قدم انکے ساتھ چلی تھی انکےقدم سے قدم ملا کے۔ لیکن کوئ بھی دوست یہ نہیں جانتا کہ میں کس لئے اپنے قدم روک نہیں پائی ان تمام مصائب کے باوجود جو مجھے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے نکلی اس لانگ مارچ کا ساتھ دینے کے نتیجے میں جھیلنے پڑے۔
مجھے کچھ بلوچ دوستوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ لاپتہ افراد کے لئے انکے لواحقین نکلے ہیں۔ جس میں ایک بوڑھا باپ ماما قدیر، کچھ بہنیں، کچھ بیٹیاں اور ایک دس سال کا بچہ علی حیدر ہے۔ اس بچے کے باپ محمد رمضان کو پاکستانی آی ایس آی نے اٹھا لیا تھا اور اس بچے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
جب مجھے اس بچے کے بارے معلوم ہوا تو میرا دل رک گیا۔ یہ خیال کہ ایک بچہ دس سال کا چھوٹا اور معصوم وہ آنکھوں میں انصاف کے خواب سجائے پیدل چلے گا، بس یہ خیال بہت تکلیف دہ تھا اور ساتھ ہی بہت حیران کن۔ میں نے تبھی فیصلہ کر لیا تھا کہ ہر حال میں اس بچے کا ساتھ دوں گی جیسے بھی۔
اور پھر کیا کیا ہوا وہ تو بہت لمبی باتیں ہیں ۔ لیکن یہ ملاقات پہلی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہم کراچی سے پیدل نکلے۔ تقریبا حیدر آباد کے قریب تھے تو اس معصوم بچے کو بہت تیز بخار ہو گیا ۔سب نے کہا کہ تھوڑا آرام کرو لیکن اس نے جواب دیا بخارچڑھے جو بھی ہو میں اسلام آباد جاوں گا کیونکہ وہاں مجھے میرا والد ملے گا۔
اس بچے میں معصومیت تو تھی ہی ساتھ ساتھ عزم، پختگی، اور اتنی سی عمر میں سنجیدگی۔ بہت کم گو بچہ تھا۔ بات نہیں کرتا تھا۔ بس خاموشی سے چلتا رہتا تھا۔ لانگ مارچ کے چار مہینوں میں ایک بار بھی یاد نہیں کہ اس بچے نے کہا ہو کہ میں تھک گیا ہوں یا کوئ شکایت کی ہو۔ بے حد صابر بچہ۔ یہ سب ایسی باتیں تھیں کہ یہ بچہ مجھے جان سے پیارا ہوتا چلا گیا۔ یہ مجھ سے شرماتا تھا شروع شروع میں۔منہ نیچے کر لیتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہو گیئ۔ پھر کبھی کبھی مسکراتا تھا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا کہ علی تم بڑے ہو کے کیا بنو گے؟ کہتا ہے پہلے تو اچھا انسان بنوں گا پھر دیکھوں گا سوچوں گا کہ ڈاکٹر بنوں گا یا ٹیچر بنوں گا۔
آپ یقین کریں میں ہل کے رہ گئ تھی اس بچے کی ذہانت اور انسان دوستی کے اس جواب سے۔ میں نے بہت بچوں کو پڑھایا بھی ہے۔ میرے اپنے خاندان میں بھی بہت بچے ہیں۔ پر میں نے آج تک ایسا کامل جواب دس سال تو کیا پندرہ سال کے بچے سے بھی نہیں سنا تھا۔
علی حیدر اپنے گھر کا واحد کفیل اور 'بڑا' ہے۔ اسکی تین بہنیں اور ماں ہے۔ مشکے سے تعلق ہے اور بے حد غریب گھر سے تعلق ہے۔ جب باپ کو اٹھا لیا تو اسکے بعد کمائ کا کوئ طریقہ نہ تھا۔ اسکی بہنیں پڑھنا چاہتی تھیں۔ ایک کو انگریزی سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ پر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ پڑھ نہ سکیں۔ بس علی پڑھ رہا تھا۔
پچھلے سال نومبر میں جب لاپتہ افراد کے لئے دوبارہ تحریک اٹھی تو علی بھی کیمپ میں چلا گیا کوئٹہ کچھ دنوں کے لئے۔اب یہ چودہ سال کا ہو گیا۔ قد کاٹھ نکال لیا تھا۔ جب یہ تحریک سے واپس گوادر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسکول والوں نے نام خارج کر دیا ہے۔ دوبارہ داخلے کی بات کرنے پہ اسکول والوں نے بتا دیا کہ چونکہ ایجنسیاں دھمکیاں دے کے گیئ ہیں اور صاف منع کیا ہے داخلہ دینے سے تو ہماری مجبوری سمجھو۔ (یاد رہے یہ وہی اسکول ہے جسکے پرنسپل کو قتل کر دیا گیا تھا دو سال پہلے) اور یہ گوادر کا ایک بہترین اسکول بھی تھا۔
ایک اور اسکول میں داخلے کی کوشش کی۔ فیس کے پیسے بھی نہیں تھے۔ کچھ دوستوں نے امداد کی اور اسکا داخلہ ہوا۔ اب کی بار مجھ سمیت سب نے تاکید کی تھی کہ علی حیدر صرف پڑھای کرنا۔ کچھ عرصہ کوئ احتجاج وغیرہ میں نہیں جانا۔
ہم سب کو اس خطرے کا اندازہ تھا جو علی حیدر کے اوپر منڈلا رہا تھا۔
اور علی حیدر نے وہی کیا۔ مہینوں سے وہ خاموشی سے صرف پڑھ رہا تھا۔ نہ سوشل میڈیا پہ تھا نہ ہی کوئ تحریک کا حصہ تھا۔ بس اسکول اور اسکے بعد والد کی چھوڑی ہوئ ایک چھوٹی سی دکان۔ اس کو چلاتا تھا۔ تاکہ گھر والوں کی دال روٹی چل سکے۔
اور آج چند گھنٹوں پہلے اسے اسکی دکان سے پاکستانی خفیہ ایجنسی والے لے گئے۔ وہ مسلح تھے۔ کافی لوگوں نے یہ دیکھا لیکن جان کے خوف سے گوا ہی کون دے۔ اور گواہی دے بھی دے تو پاکستان میں عدالتوں کا جو عالم ہے وہ کوئ عقل کا اندھا ہی ہو جسے اسکا علم نہ ہو۔
علی حیدر کو حامد میر نے بھی انٹرویو کیا تھا اور اس بچے نے جس متانت اور سچائی کیساتھ وہ انٹرویو دیا تھا شاید کسی پتھر دل پہ ہی اثر نہ کیا ہو۔
میں نے لانگ مارچ کے دوران علی حیدر میں تبدیلی دیکھی۔ وہ خاموش شرمیلا بچہ ان چار مہینوں میں بے حد سنجیدہ ہو گیا تھا اور بہت میچیور بھی۔
میرے علی حیدر کے لئے آواز اٹھائیں ۔ شور مچایئں۔ جہاں بھی جیسے بھی ہو سکے،اس بچے کی واپسی کے لئے کوشش کریں۔
یقین کریں ایسے بچے ایسے لوگ انسانیت کے لئے سرمایہ ہوتے ہیں۔ علی حیدر عام بچہ نہیں ہے۔ وہ 'انسان' ہے۔ ایک انسان کو بچانا سب پہ فرض ہے۔
بلوچ ہونا پاکستان میں ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر کے زمانے میں جرمنی میں یہودی ہونا۔ اگر کوئ انسان ہے تو اس معصوم علی حیدر کو بچایے
سوشل میڈیا سورس