خیر ہم اتنے بڑے لکھاری تو نہیں لیکن صاحب مردہ ضمیری بھی ہم سے ہضم نہیں ہوتی۔
لوگ مغرب کی طرف دیکھ کر تعریف کرتے ہیں لیکن ہم اپنے اردگرد کی بھی تعریفیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تعلیم جیسی طاقت ہے، اور ہمارے پاس ایسی کوئی قابل تعریف چیز نہیں ہے،
ہر بندے کی خواہش ہے کہ میں گھر میں رہوں تاکہ باقی کام کاج کے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی وقت دے سکوں ہر ملازم کا شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے علاقے میں نوکری کر کے اپنے علاقے والوں کے لیے کچھ کام کر سکوں اسی طرح ہر طالب علم کا بھی شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے علاقے میں پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کر سکوں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان سب خواہشمندوں کو مجبوراً باہر سفر کرنا پڑتا ہے۔
پورے پاکستان کو دیکھا جائے تو چند شہروں کے علاوہ باقی سب تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔
اور ان بدنصیبوں میں بلوچستان کو اولیت حاصل ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تو ہے لیکن یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہاں آبادی کم ہے اس کم آبادی کی وجہ سے ہر شعبے کے بجٹ میں بلوچستان کو باقی صوبوں کی نسبت تعلیمی بجٹ بھی کم رکھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ تعلیم جیسی نعت کو مزید مضبوط بنانے کی بجاے بجٹ یا پھر کوئی اور منطق پیش کرکے پیچھے چھوڑا جا رہا ہے۔
سونا چاندی گیس اور بے شمار وسائل سے مالا مال بلوچستان کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی صرف کوشش ہی جاری ہے پچھلے 60 سالوں سے اور بڑے بڑے ٹی وی ٹاک شوز پر سیاسی رہنما اور ادیب و شاعر سب اپنی اپنی پسند کی منطق پیش کرکے وہاں کے باشندوں کو uncivilised کہہ کر آسانی سے نام و نشان مٹا دینے پر گامزن ہیں۔
پورے بلوچستان میں 2 سے 3 انجیرنگ یونیورسٹیاں ہیں اور اتنے ہی میڈیکل کالجز ہیں۔
میرا تعلق بلوچستان کے اس بد نصیب علاقے سے ہے جہاں تعلیم تو دور کی بات ہے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں۔
صحت کے حوالے سے گدان نما سی بلڈنگ کھڑی کر کے بھوتار کے یار دوستوں کے لئے ریسٹ ہاؤس بنا دیا گیا ہے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو سندھ کے شہر لاڑکانہ تک مریض کے ساتھ تندرست انسان بھی موت کو گلے لگاتا ہے۔
پانی جیسی نعمت کے لیے لوگ ترستے ہیں اور مجبورا گندے تالابوں سے انسان اور جانور ایک ساتھ ہی پانی پیتے ہیں۔
نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے اور بد قسمتی سے اس ڈویژن کو بلوچستان اسمبلی سے لے کر وفاق تک رسائی حاصل ہے لیکن وہاں کے موجودہ اور سابقہ وزراء نے عوام کو ہاؤ سائیں ہاؤ سائیں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
نصیر آباد ڈویژن کولپور سے شروع ہو کر سندھ کے سرحدی علاقوں پر ختم ہوتی ہے جس میں بولان، جھل مگسی، جعفرآباد، نصیرآباد، صحبت پور شامل ہیں۔
اور یہ بلوچستان کا واحد بڑے پیمانے پر میدانی علاقہ ہے جسے گرین بیلٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔نصیرآباد و جعفرآباد، صحبت پور اور جھل مگسی میں گندم، چاول، چنا، اور بہت سی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ایگریکلچر کے حوالے سے سب سے زیادہ کاشتکاری انہی علاقوں میں ہوتی ہے۔لیکن افسوس آج تک ایگریکلچر کالج کا نام سننے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
نصیرآباد ڈویژن وہ واحد ڈویژن ہے جس میں دو ڈگری کالجوں کا نام سننے میں آئے ہیں وہ بھی نام کے علاوہ اور کچھ نہیں باقی فیمیل کالجوں کو آج تک فائلوں اور اخباری بیانات کے علاوہ کہیں بھی نہیں پایا۔
البتہ پی پی پی کے دور حکومت میں یاد ہے اوستہ محمد کے کیٹل فارم میں بیوٹمز یونیورسٹی کی برانچ کا افتتاح کیا گیا تھا اور اس ڈرامے کے باقی قسط آنا بھی بند ہوگئے، ایسے ہی کومسٹیٹس یونیورسٹی کی برانچ بھی کھلنے والی تھی لیکن پیسے ہضم کرکے اس فائل کو بھی شیلف میں بند کردیا گیا ایک کیڈٹ کالج بنا کر اس پر بھی شاہی خاندان کی حکومت نافذ کر دی گئی اب صرف بلڈنگ اور نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
ایسے بہت سے تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا اور
ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے اداروں نے ابھی تک اخباری بیانات پر ہی اکتفا کر رکھا ہے۔
نصیرآباد ڈویژن وہ واحد ڈویژن ہے جس میں یونیورسٹی بننا ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے اور حاکم وقت صرف اپنے ذاتی معاملات میں سے وقت نکال کر دعوتوں، تعزیتوں اور شادی بیاہ جا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔
اوچ پاور پلانٹ سے بجلی پیدا کر کے باقی صوبوں تک لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم لوگوں کے وزراء کرپٹ ہونے کے ساتھ نالائق بھی ہیں۔
قوم پرست جماعتیں جب سائل و وسائل کی بات کرتی ہیں تو ان علاقوں کو ایسے نظر انداز کرتی ہیں جیسے یہاں بسنے والے مسلمانوں کے دشمن طائف سے تعلق رکھتے ہیں۔
جن کے لیے کوہ سلیمان کے بچھڑے علاقے کی حیثیت رکھتی ہے ان سے میری درد مندانہ اپیل ہے کہ یہاں بھی نظر کرم فرمائیں کیونکہ گزرنا تو یہاں سے ہی ہے۔
جب آپ یہاں پر سیاسی لوگوں کے ساتھ اپنی ذاتی خواہشات کے لیے سمجھوتہ کر سکتے ہیں تو کوہ سلیمان کو حاصل کرنے کے بعد دودھ کی نہریں بہانا مشکل نہیں ناممکن ہے۔
ڈیرہ اللہ یار کو اوستہ محمد سے ملانے والی شاہراہ 1998 سے زیر تعمیر ہے لیکن افسوس کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔اور جناب اس ڈویژن کو وفاق میں اہم منصبی کا اعزاز حاصل ہے لیکن نجانے کیا دشمنی ہے ان لوگوں کو عوام سے کہ سوائے شاہی خاندان کے باقی کمیونٹی کوکچھ نہیں ملتا۔جناب اعلیٰ بلوچستان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ ایک سرکاری خرچہ کرکے کسی کی دعوت قبول فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔