گھریلو تشدد پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنا آسان نہیں۔ جب بھی گھر کی چاردیواری میں خواتین پر تشدد کی بات ہوتی ہے تو معاشرے میں ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر اُٹھ کر عورت سے طرح طرح کے سوال پوچھتا ہے؟ کبھی اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے یہ پہلے رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کبھی اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ ثبوت دکھاؤ کہ کیا تم پر واقعی تشدد ہوا ہے۔
اسی ہفتے پاکستان میں ایک ایسی خبر آئی جس پر سوشل میڈیا پر اور پھر رواتی میڈیا پر بھی ایک طرح سے شور مچا۔ سابقہ نیوز کاسٹر فاطمہ سہیل نے اپنے خاوند اور مشہور اداکار و گلوکار محسن عباس حیدر پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے اُن پر تشدد کیا۔
جیسے ہی فاطمہ سہیل نے اس چیز کا اعلان کیا تو ساتھ ہی طرح طرح کے سوالات اُٹھنے شروع ہو گئے کہ انھوں نے یہ چیز پہلے رپورٹ کیوں نہیں کی اور اس چیز کا ثبوت کیا ہے کہ کیا واقعی ان پر تشدد کیا گیا؟ اُن سے اُن کی نجی اور ذاتی زندگی کے بارے میں سوال کیے گئے۔
بی بی سی نے اس سلسلے میں سلمان صوفی سے بات کی جو گذشتہ دورِ حکومت میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے بنائے گئے سٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ تھے اور پنجاب میں خواتین کے تحفظ کی بل منظور کروانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔
گھریلو تشدد کی تعریف کیا ہے؟
تشدد ایسا جرم ہے جو انسانی جسم کے خلاف کیا گیا ہو جس میں معاشی استحصال، نفسیاتی استحصال، بھی شامل ہے۔
گھریلو تشدد کی تعریف میں لکھا ہے کہ یہ ’وہ تشدد ہے جو جسمانی، زبانی، نفسیاتی طور پر کسی عورت پر ہو ایک عورت کی جانب سے یا مرد کی جانب گھر پر یا کام کی جگہ یا پبلک مقام پر کیا گیا ہو‘۔
سلمان صوفی کے مطابق پاکستان میں یہ چیز نئی نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر خاتون کسی جگہ شادی کر کے جا رہی ہے تو اس کی زندگی اُس گھر کی غلام ہو کر رہ گئی ہے۔ عورت کی عزت نفس یا عورت کے جو بنیادی حقوق ہیں اُس کے بارے میں سوال کرنا بھی ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں گھریلو تشدد کی پردہ پوشی کیوں؟
اگر ایک عورت اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہے تو اُس کو بھی ایک ایشو بنایا جاتا ہے۔ اگر ایک عورت ملازمت کرنا چاہے اور اپنے بچوں کو آیا کے پاس چھوڑے کر جانا چاہے تو وہ بھی ایک ایشو ہے۔
اگر عورت اپنے حقوق مانگے اور کہے کہ میں جو تنخواہ اس گھر کے اندر لے کر آرہی ہوں تو اس پر میرا حق ہے۔ تو اُس کو بھی ایک بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔
کیا گھریلو تشدد صرف مرد کرتے ہیں؟
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ’جہاں مرد خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں وہیں نہ عورتیں بھی عورتوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں لیکن تشدد کوئی بھی کرے اس پر بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔
آج ہم اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ گھریلو تشدد اگر کیا جائے تو اُس میں عورتوں کے سامنے کس قسم کی مصیبتیں ہوتی ہیں جن کو عبور کرکے اُن کو رپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ آپ اُس چیز کا اندازہ لگائیں کہ آپ ایک گھر کے اندر ہیں، آپ کی ایک پناہ گاہ ہے۔ آپ اُس گھر کے اندر زندگی گزار رہے ہیں۔ اُس گھر کے اندر آپ کے بچے ہیں۔ اُس گھر کو آپ ایک محفوظ جنت سمجھتی ہیں اور وہاں پر آپ کا خاوند یا گھر کے دوسرے افراد، آپ پہ نفسیاتی، جسمانی یا زبانی تشدد کرتے ہیں تو آپ کے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے؟
آپ اپنے گھر والوں کو فون کرتی ہیں، اپنے ماں باپ کو بتاتی ہیں جہاں پر آپ کو عمومی طورپر سمجھایا جاتا ہے کہ یہ ایک روزہ مرہ کی بات ہے اور آپ اس چیز کو دبا دیں اور آپ اپنے گھر کو بچا نے کی کوشش کریں۔ اگر آپ پولیس میں جانے کی کوشش کریں تو وہاں پر بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک گھریلو معاملہ ہے ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں آواز اُٹھائیں تو آپ کو طرح طرح کی ’سلٹ شیمنگ‘ کی جاتی ہے۔ آپ پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ آپ کو اپنے گھر کی عزت خراب کرنے کے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘
ایک عورت کے پاس کیا راستے موجود ہیں؟
سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ ایک گھر کا حصہ ہیں جس میں آپ کی شادی ہوئی ہے یا آپ وہاں پر ویسے ہی رہ رہی ہیں جہاں پر آپ کے ماں باپ ہیں تو کسی بھی شخص کو چاہے وہ عورت ہو یا مرد ہو۔ آپ کو ہاتھ لگانے کا حق بالکل نہیں ہے۔
’اُس کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ کے رہنے سہنے، آپ کی ملازمت یا کوئی بھی چیز جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین نے آپ کو حق دیا ہے، اُس سے منع کر سکے۔ اب فرض کیا کہ خدانخواستہ ایسا واقعہ ہوا، آپ پہ کسی نے ہاتھ اُٹھایا تو آپ کے پاس کیا راستے موجود ہیں۔
’ہماری عورتیں اسی لیے اس چیز کو رپورٹ نہیں کرتیں کہ ہم نے کبھی اُن کو اس طرح کے مواقع فراہم ہی نہیں کیے کہ وہ آرام سے آسانی سے اپنے اس مسئلے کو بیان کر سکیں۔ وہ جب پولیس کے پاس جائیں گی تو وہاں پر مرد حضرات بیٹھے ہوں گے جن کے سامنے بات کرنا اُن کے لیے ایک عذاب ہو گا۔ اگر وہ تھانے میں چلی بھی جائیں اور رپورٹ بھی کر دیں تو اُن کو کہا جائے گا کہ اب آپ ہسپتال جائیں اور وہاں پر اپنا میڈیکل ٹیسٹ کروائیں جس سے ثابت ہو کہ کیا آپ پر واقعی ہی تشدد کیا گیا ہے۔
’آپ ہسپتال چلیں جائیں تو وہاں پر ایک لمبی قطار ہو گی۔ اُس لمبی قطار کے بعد آپ کو شاید بتایا جائے گا کہ آج لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں آپ کل تشریف لائیں۔ خدانخواستہ اگر یہ تشدد ریپ ہے یا کوئی جسمانی تشدد ہے جس میں آپ پر جنسی طور پر وار کیا گیا ہے تو پھر آپ اُس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا۔‘
ان کے مطابق اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں عورت اس چیز کو آرام سے اور باعزت طریقے سے رپورٹ کر سکے۔ جب عورت اُس چیز کو رپورٹ کرلے تو پھر ایسی عدالتوں کی ضرورت ہے کہ جہاں یہ مسئلہ فاسٹ ٹریک پر سُنا جا سکے۔
سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ 2016 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے اس چیز کو سمجھتے ہوئے ایک قانون پاس کیا۔ جس کا نام پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ تھا۔ اس ایکٹ کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ وہ سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ پہلے پاکستان میں عورتوں کو میسر نہیں تھی۔
پروٹیکشن، مانیٹرنگ آرڈر
’جس طرح آپ پہ تشدد کیا جا رہا ہے اور آپ کو کسی شخص سے یا کسی عورت سے خطرہ ہے تو آپ ایک پروٹیکشن آرڈر فائل کر سکتی ہیں جس کے تحت وہ عورت یا وہ مرد ایک مخصوص فاصلے پر رہے گا۔
اگر آپ کی تنخواہ آپ سے چھین لی گئی ہے تو آپ ایک مانیٹرنگ آرڈر فائل کر سکتی ہیں جس کے تحت وہ تنخواہ یا وہ زیورات جو آپ سے چھین لیے گئے ہیں یا وہ گاڑی جو آپ سے چھین لی گئی یا آپ کا کوئی بھی مالی حق آپ سے لے لیا گیا ہے وہ عدالت آپ کو واپس لے کر دے گی۔
ریزیڈنس آرڈر
’اس کے علاوہ اس میں ایک سب سے بڑی شق شامل ہے جس کو کہتے ہیں ریزیڈنس آرڈر، ہمیشہ دیکھا جاتاہے کہ عورتوں کو مارپیٹ کر گھر سے نکال دیا جاتاہے۔ اس کے بعد مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پھر کہاں جائیں۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر جائیں یا پھر کسی سرکاری دارالامان میں پناہ لیں۔ جہاں پر ہمیشہ جگہ میسر نہیں ہوتی اور اگر کبھی وہ دارالامان میں چلی بھی جائیں تو اُن کی زندگی ایک جج کی مرہونِ منت ہو جاتی جس کی مرضی کی بغیر وہ اُس دارالامان سے نکل نہیں سکتیں یا پھر وہ کوئی ملازمت نہیں کر سکتی۔
اس ایکٹ کے تحت ریزڈینس آرڈر دیا گیا ہے کہ اگر آج ایک عورت کو رات کے اندھیر میں یا دن کے اُجالے میں گھر سے نکال دیا جائے تو وہ ریزڈینس آرڈر کے لیے فیملی کورٹ میں فائل کر سکتی ہے جس کے تحت نہ صرف اُس کو جگہ فراہم کرنا اُس شخص یا عورت کی ذمہ داری ہے جس نے اُس کو گھر سے نکالا، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اُس کو چھت مہیا کرے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں پر عملدرآمد کیسے کیا جائے؟
سلمان صوفی کے مطابق اسی لیے گذشتہ پنجاب حکومت نے ’وائلنس اگینسٹ ویمن سنٹر‘ بنایا تھا جس کا مقصد یہی تھا کہ وہ عورتیں جن پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ کسی اور قسم کے بھیانک تشدد کا شکار ہوتی ہیں ایک جگہ پر آ کے اپنے تمام دُکھ درد کا مداوا حاصل کر سکیں۔
’اس سنٹر میں ایک چھت تلے اُن کو پولیس، پراسیکیوشن، میڈیکولیگل اور اُس کے علاوہ شیلٹر کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ خدانخواستہ آپ پر کوئی تشدد کا واقعہ ہوا، آپ فون کال کرتی ہیں ایمبولینس آپ کو آ کر لے کر جاتی ہے۔ اُس سنٹر میں آپ پناہ لے سکتی ہیں، وہیں پر پولیس ہے جو کہ خواتین پر مشتمل ہے جو کہ آپ کی ایف آئی آر تیار کرے گی۔ وہیں پر ڈاکٹرز موجود ہیں جوکہ آپ کا میڈکولیگل کریں گی اور وہ تمام لیڈی ڈاکٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ وہیں پر پھر پناہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ آپ کو کہیں ایسی جگہ پر نہ جانا پڑے جہاں آپ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہ تمام چیزیں وہ ہیں جس کے لیے آگاہی ضروری ہے اور حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان سینٹرز اور اس قانون کے بارے میں آگاہی دے تاکہ کل کو فاطمہ جیسی اگر کوئی اور عورت جس پہ اس وقت بھی تشدد ہو رہا ہے تو اُس کو اس بارے میں علم ہو تو وہ باہر آ کر اپنے حق کی آواز اُٹھائے اور حکومت وقت اُس کے ساتھ اُس وقت کھڑی ہو۔‘
’اس کے علاوہ سول سوسائٹی کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تمام چیزوں پر آگاہی مہم چلائے۔ کالجوں خاص طور پر خواتین کے کالجوں میں گریجویشن کے وقت اُن کو یہ تمام چیزیں بتائی جائیں۔ آپ کا یہ حق ہے کہ اگر آپ نکاح نامے پر دستخط کر رہی ہیں تو اُس نکاح میں آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ آپ خُلع لے سکتی ہیں۔ آپ اپنے حقوق کے بارے میں بات کر سکتی ہیں اوروہ تمام چیزیں سامنے رکھ سکتی ہیں کہ جن کی بنیادی پر آپ شادی کو آگے لے کر چل سکتی ہیں۔‘
حقوق کے بارے میں آگہی اہم ہے
گھریلو تشدد صرف کسی قانون سے ختم نہیں ہو سکتا اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرے کے اندر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ جس میں آگاہی دی جائے جس میں ہماری بیٹیوں کو ہماری بہنوں کو بتایا جائے کہ آپ کے کیا حقوق ہیں؟ آپ اگر کسی جگہ شادی کر کے جا رہی ہیں تو آپ نے کن چیزوں کو مدّنظر رکھ کے اُس نکاح کے پیپر پر دستخط کرنے ہیں۔
اگر ہم ان چیزوں کے اُوپر عملدآمد کریں گے تو ہم اس گھریلو تشدد جیسے عفریت پر قابو پا سکیں گے۔ ورنہ یہ چیزیں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہیں گی اور اگر پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے تو ہمیں ابھی ان چیزوں کے اوپر قابو پانا ہوگا۔ پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ جو اس وقت پنجاب میں لاگو ہے حکومت وقت کی یہ اس وقت ذمہ داری ہے کہ اُس کو پنجاب کے باقی اضلاع کے اندر بھی اس کو نافذ کرے۔
اس ایکٹ کے تحت یہ وائلنس اگینسٹ ویمن سنٹرز کا قیام انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ وہ مراکز ہیں جن کے ذریعہ اس ایکٹ کو قابل عمل بنایا جائے گا۔ تاکہ کل کو کبھی بھی کسی پہ تشدد ہو تو وہ ایک ہی جگہ پر آ کے ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکے اور اس چیز کے بارے میں رپورٹ کیا جا سکے۔ اُس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو بھی اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہم جس عورت پہ جو رپورٹ کر رہی اُس سے یہ سوالات مت پوچھیں کہ آپ نے یہ چیز پہلے کیوں نہیں کی؟ ہم نے وہ ماحول ہی آج تک مہیا نہیں کیا کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی اس چیز پہ آواز بلند کر سکے اور اُس کو کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پچھلے تین سالوں میں دارالامان کے اندر جتنے کیس رپورٹ کیے گئے اُس سے کہیں زیادہ کیسز وائلنس اگینسٹ وومن سنٹرجو کہ صرف ایک سنٹر ملتان میں قائم کیا گیا ہے اُس میں رپورٹ کیے گئے۔ جس سے وائلنس اگینسٹ وومن سنٹر کے اوپر عورتوں کے اعتماد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس چیز کو لے کر آگے چلیں اور اب ہم اس بحث کو ختم کر دیں کہ اگر ایک عورت اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو ہم نے اُس کو کس طرح سے دبانا ہے۔ یہ وقت ہے اس کو سپورٹ کرنے کا، یہ وقت ہے اس کو آگے لے کر چلنے کا تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بن سکے۔