(آخری صفحہ، عنوان: شادیِ مرگ سے پہلے اور بعد)
لکھتے ہوئے قدرے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے لیکن کیا کروں اپنے جیسے کئی معصوم بھلے مانسوں کے لیے مجھے ہی قلم کا سہارا لینا پڑا۔
کل رات کو ٹی۔ وی پر ایک گانا دیکھ رہا تھا۔
نشے سی چڑھ گئی اوئے کُڑی نشے سی چڑھ گئی۔
اچانک بیگم کسی چراغ سے نکلے ہوئے جن کی طرح سامنے آگئیں اور بولیں
”دیکھتے تو خوب ہیں فلمیں لیکن مجال ہے جو کبھی مجھے کوئی ڈائیلاگ سنایا ہو۔ “
سو میں نے بھی کہہ دیا تم میرا نشہ ہو۔
خوشی سے پوچھنے لگی
”ہائے اللہ، مطلب آپ میرے بنا نہیں رہ سکتے؟ “
میں نے کہا دراصل ایک تو نشہ مہنگا ہوتا ہے دوسرا وہ زندگی برباد کر دیتا ہے۔
تب سے منہ بنائے نشئی کی طرح بستر میں پڑی ہوئی ہے۔ ناشتہ ہی نہیں دیا صبح۔
بھئی کریدا کیوں تھا پھر؟
(صفحہ نمبر 124، عنوان ’: جب بکری نے مارا بکرے کو سینگ)
میرے آفس کی عید ملن پارٹی کی تصاویر فیس بک پر دیکھتے ہوئے چراغ پا ہوگئی۔ منہ بنا بنا کر بولی یہ لڑکی کون ہے جس کے ساتھ باپ کی طرح کھڑے ہو کر تصویر بنوائی ہے؟
میں نے بتایا کولیگ ہے، ثمینہ!
فوراً بولی ”یہ آپ دونوں نے ایک ہی رنگ کے کپڑے کیوں پہنے ہیں؟ میرے ساتھ تو غلطی سے بھی ایک جیسے رنگ کے کپڑے پہن کر تصویر نہیں بنواتے؟ “
میں نے سمجھایا کہ بیگم وہ تو اتفاق تھا ثمینہ کے ساتھ۔ ہاں مگر تمہارے ساتھ ایک رنگ کے نہیں پہنتا کیونکہ پھر ہم دونوں بھائی بہن لگیں گے، کسی نے کہہ دیا تو نکاح پر بھی اثر ہو سکتا ہے، رہی ثمینہ تو وہ کون سی میری بہن ہے اور اگر کسی نے اسے میری بہن کہہ بھی دیا تو کیا ہوا؟ کون سا میں اسے دل سے بہن سمجھتا ہوں؟
غضب خدا کا، یہ سنتے ہی فوراً میرے ہاتھ سے موبائل جھپٹا اور ثمینہ کا نام و نشان اس میں سے غارت کردیا۔ اور میں اس پوری رات سوچتا رہا کہ ثمینہ سے کیسے پوچھوں کل صبح اس نے کس رنگ کا جوڑا پہننا ہے۔
(صفحہ نمبر 280، عنوان: شکی بیوی کا ڈسا ہوا ناگ)
کچھ دن پہلے کسی شادی میں جانے کے لیے محترمہ نے چہرے پر وائٹ واش کروایا۔ پھر ڈسٹمپر اور آئل پینٹ بھی لگوا لیا۔ میں معصوم دو گھنٹہ بیوٹی پارلر کی انتظار گاہ میں اپنے جیسے باقی لاچار شوہروں کی شکل دیکھ دیکھ خود کو تسلی دیتا رہا کہ ایک خاتون نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیا چلیں۔ میں نے کہا ابھی نہیں، میری بیگم اندر ہیں تو اپنے مخصوص انداز میں گھورتے ہوئے کہا کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ میں ہی ہوں۔ پھر میں پہچانا کہ یہ تو اپنا ہی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہے جو اندر سے کلر ہو کر آیا ہے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کھلکھاتے ہوئے پوچھنے لگی ”کیسی لگ رہی ہوں؟ “
جھوٹ تو میں ویسے ہی نہیں بولتا کہہ دیا کہ ”یار اپنے گھر کی سیلن زدہ دیوار پر اوپر سے کلر کر بھی دو تو اندر سے تو انسان کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ کتنی بوسیدہ ہے۔ “
بس اتنا ہی کہنا تھا کہ گھر پہنچتے ہی پانچ ہزار کے میک اپ پر پانی پھیرا اور اسی طرح شادی میں لے گئی۔ مجھے اور اپنے بوتھے دونوں کو۔
(صفحہ نمبر 351، عنوان: گرگٹ کے بدلتے رنگ)
پچھلے اتوار کو گھر کے کام سے فارغ ہو کر کہنے لگیں
”میں ذرا ایک دو گھنٹے کے لئے سپر مارکیٹ جا رہی ہوں ضروری سامان لینے، آپ کو کچھ چاہیے؟
میں نے بے دھیانی میں کہا نہیں بس اتنا کافی ہے۔ ”
بس پھر کیا تھا، ایک فلائنگ چپل اِدھر گری تو دوسری اُدھر۔ بیگ رکھا واپس جگہ پر اور میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہی ایک ہاتھ سے اپنی بہن کو فون ملا کر دوسرے ہاتھ سے مجھے ٹی وی کا والیوم آہستہ کرنے کی ہدایت دینے کے بعد وہ اونچی آواز میں باتیں کیں کہ اگر سپر مارکیٹ میں کھڑے ہو کر بھی کر رہی ہوتیں تو گھر تک آواز آتی اور میں تب بھی ٹی وی پر ناقابلِ سماعت فلم ہی دیکھ پاتا۔ پورے دو گھنٹے کی کال کے بعد معصومانہ انداز میں مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ اور سکون چاہیے یا اتنا کافی ہے؟